ذات پات کا جنون اور اسلام
نجم الدین انبہٹویٹ
آج ہمارے معاشرے میں ذات پات برادری کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اس سے ہر صاحب بصیرت مؤمن دکھی ہوتا ہوگا۔ مقام حیرت تو یہ ہے کہ عوام وخواص سب برادری اور ذات پات کی اس غیر منصفانہ اور ظالمانہ تفریق میں مبتلا ہو گئے. علماء کا طبقہ جن سے امید تھی کہ وہ عوام کو اس لعنت کے بارے میں متنبہ کریں گے وہ خود بھی اس مرض میں سر سے پیر تک ملوث پائے گئے.
ہمارے مدارس میں اس مرض نے جو طوفان بدتمیزی برپا کیا اسکی مثال زمانہ ماضی کے جہلا میں سننے کو ملتی تھی
پہلے اس تعصب کی بناء پر مدارس مساجد قائم کئے جاتے ہیں پھر اسی بنیاد پر انمیں تقرر ہوتا ہے علاوہ ازیں برادری کے نام پر تنظیمیں بنائیں جاتیں ہیں اور کبھی تو حد سے آگے بڑھ کر اسکا نام بھی برادری کی طرف منسوب کردیا جاتا ہے
بڑے مدارس بھی اس فتنے سے محفوظ نہیں انکے بارے میں یہاں تک سننے کو آیا کہ وہاں تقرر کے لئے وجہ ترجیح برادری ہے۔ افسوس صد افسوس
ہمارے مدرسوں میں ہونے والے جلسوں کے اشتہارات ہوں یا اسٹیج کیا مجال ہماری برادری سے باہر کا کوئی فرد ہو۔
بعض علماء تو اپنے نام کے ساتھ گور، رانا، گوجر، علوی، سلمانی، سیفی ،انصاری ،عباسی وغیرہ کے ذریعے تعارف کرانا ضروری سمجھتے ہیں
اپنے اس عمل سے ہم اپنی نسل کی کیا ذہنی تربیت کررہے ہیں؟
۔اے علمائے کرام اللہ کے واسطے اس پر توجہ دیں۔
میں نے اپنے جد امجد حضرت مولانا عظیم الدین انبہٹوی رح کو یہ کہتے ہوئے بار بار سنا ہے کہ یہ برادری کا بھوت ہمیں جہنم کے گڑھے میں ڈال کر رہے گا۔
اگر انکے اس ملفوظ کو حقیقت کے ترازو میں تولا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہم اس بیماری کی وجہ نہ جانے کیسی کیسی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں۔
حالانکہ ہم اس مذہب کے پیرو کار ہیں، اس نبی کے نام لیوا ہیں جنہوں اس پر بہت سختی سے قدغن لگائی تھی اور اس عالمگیر گمراہی کی اصلاح کی جس سے دنیا میں ہمیشہ گمراہی پھیلی ہے اور جس سے ظلم و زیادتی کی جڑیں مضبوط ہوئی ہیں۔ وہ یہی موذی مرض تھا نسلی، قومی، وطنی، لسانی اور رنگ کا تعصب۔ قدیم زمانے سے انسانوں نے انسانیت کو چھوڑ کر اپنے اردگرد کچھ دائرے کھینچے ہیں جن کے اندر بسنے والوں کو اس نے اپنا اور باہر والوں کو بیگانہ سمجھا ہے۔ یہ دائرے کسی عقلی یا اخلاقی بنیاد پر نہیں بلکہ اتفاقیہ پیدائش کی بنیاد پر کھینچے گئے ہیں۔ مثلا، ایک قبیلے یا خاندان میں پیدا ہونا۔ کسی خاص خطہ زمین پر پیدا ہونا، کوئی خاص زبان بولنا، کسی خاص رنگ و نسل سے متعلق ہونا وغیرہ۔ پھر ان بنیادوں پر اپنے اور غیر کی جو تمیز قائم کی گئی اگر اس میں صرف یہ ہوتا کہ اپنوں سے نسبتاً زیادہ محبت ہوتی، ان سے زیادہ ہمدردی ہوتی، ان سے زیادہ حسن سلوک کیا جاتا تو بات بری نہ تھی۔ مگر اس تمیز نے دوسروں سے نفرت، عداوت، تحقیرو تذلیل کی بدترین صورتیں اختیار کیں۔ اس کے لئے فلسفے گھڑے گئے، مذہب ایجاد ہوئے، قوانین بنائے گئے، اخلاقی اصول وضع کئے گئے، قوموں اور سلطنتوں کی اس پر بنیاد رکھی گئی، صدیوں تک اس پر عمل ہوا اور ہو رہا ہے۔ چنانچہ یہودیوں نے اسی بناء پر بنی اسرائیل کو خدا کی برگزیدہ مخلوق ٹھہرایا۔ اور مذہبی معاملات تک میں دوسری قوموں کو اپنی قوم سے فروتر رکھا۔ ہندوؤں کے ہاں درم آشرم کو اسی خیال نے جنم دیا، جس کی رو سے برہمنوں کو باقی قوموں پر برتری حاصل ہوئی۔ اونچی ذا ت والوں کے مقابلے میں تمام انسان ہیچ اور ناپاک ٹھہرائے گئے۔ شودروں کو انتہائی ذلت کے گڑھے میں پھینک دیا گیا۔
یاد رکھیں ہمارے معاشرے میں جو کچھ چل رہا ہے اسکے بہت خطرناک نتائج ہوسکتےہیں
قرآن کہتاہے
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ
لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے قبیلے بنا دیئے ہیں، اللہ کے نزدیک تم سب میں سے با عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے۔ (سورۃ الحجرات: 13)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
ﻳﺎ ﺃﻳﻬﺎ اﻟﻨﺎﺱ، ﺃﻻ ﺇﻥ ﺭﺑﻜﻢ ﻭاﺣﺪ، ﻭﺇﻥ ﺃﺑﺎﻛﻢ ﻭاﺣﺪ، ﺃﻻ ﻻ ﻓﻀﻞ ﻟﻌﺮﺑﻲ ﻋﻠﻰ ﻋﺠﻤﻲ ، ﻭﻻ ﻟﻌﺠﻤﻲ ﻋﻠﻰ ﻋﺮﺑﻲ، ﻭﻻ ﺃﺣﻤﺮ ﻋﻠﻰ ﺃﺳﻮﺩ، ﻭﻻ ﺃﺳﻮﺩ ﻋﻠﻰ ﺃﺣﻤﺮ، ﺇﻻ ﺑﺎﻟﺘﻘﻮﻯ
لوگو! تمہارا رب ایک ہے، تمہارا باپ (آدم) ایک ہے. سنو کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں نہ کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل ہے. کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں،سوائے تقوی کے. (مسند احمد: 23489 صحيح)
اس کے علاوہ بہت بڑا ذخیرہ ہے اس عنوان پر۔ یہ تعلیمات صرف الفاظ کی حد تک محدود نہیں رہیں بلکہ اسلام نے ان کے مطابق اہل ایمان کی ایک عالمگیر برادری عملاً قائم کر دی جس میں رنگ ونسل‘ زبان‘ وطن اور قومیت کی کوئی تمیز نہ تھی جس میں اونچ نیچ‘ چھوت چھات اور تفریق وتعصب کا کوئی تصور نہ تھا۔ جس میں شریک ہونے والے تمام انسان خواہ کسی نسل وقوم اور ملک ووطن سے تعلق رکھتے ہوں بالکل مساویانہ حقوق کے ساتھ شریک ہو سکتے اور ہوئے ہیں۔ اسلام کے مخالفین تک کو یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ انسانی مساوات اور وحدت کے اصول کو جس کامیابی کے ساتھ مسلم معاشرہ میں عملی طور پر تشکیل دیا گیا ہے اس کی کوئی نظیر دنیا کے کسی دین اور کسی نظام نے پیش نہ کی۔ صرف اسلام وہ دین ہے جس نے روئے زمین کے تمام گوشوں میں پھیلی ہوئی بے شمار نسلوں اور قوموں کو ملا کر ایک امت بنا دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین