شبیر شادمرحوم:ایک کہنہ مشق صحافی اور ایک صلح پسند انسان
صداقت علی قاسمی
سہارنپور کے نامور صحافی اور وہاں سے روزنامہ انقلاب کے نامہ نگار جناب شبیر شاد بھی یکم جنوری کو دوپہر تقریباً گیارہ بجے سفرِ آخرت پر روانہ ہوگںٔے مرحوم کے انتقال کی خبر سوشل میڈیا کے ذریعے یقیناً آناً فاناً عام ہو گںٔی ہوگی لیکن راقم کو قدرے تاخیر سے موصول ہوںٔی، پڑھ کر یقین نہیں آپایا ذہن میں آپ کے ساتھ ابھی کچھ دنوں پہلے ہونے والے رابطے کی باتیں گردش کرنے لگیں اور رنج وغم کی کیفیت کے ساتھ زبان پر کلماتِ ترجیع جاری ہوگںٔے اناللہ واناالیہ راجعون اللہم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ
کیا بھروسہ ہے زندگانی کا
آدمی بلبلا ہے پانی کا
مرحوم ایک متحرک وفعال شخص تھے گو کہ ایک بلند پایہ شاعر اور شگفتہ نگار ادیب بھی تھے اور نظم ونثر دونوں پر یکساں عبور رکھتے تھے لیکن عوامی حلقوں میں آپ کا تعارف ایک کہنہ مشق صحافی اور بے باک جریدہ نگار کے طور پر تھا اور وہ آپ کو ایک سچّے ایماندار اور دیانت دار اخبار نویس کے طور پر ہی جانتے پہچانتے تھے آپ تقریباً چالیس سال اردو صحافت سے وابستہ رہے اور مختلف اخبارات جیسے آوازِ مشرق ، قومی آواز اور صحافت میں نامہ نگاری کرتے رہے جب کہ اب آپ ایک عرصے سے بطورِ رپورٹر روزنامہ انقلاب سے وابستہ تھے اور اردو داں حلقوں میں سہارنپور کی مذہبی قومی ملی اور سیاسی خبروں کے ذریعے نماںٔندگی کے فرائض انجام دیا کرتے تھے بلاشبہ آپ اردو دنیا کے ایک کامیاب صحافی تھے آپ کی کامیابی کا راز دراصل آپ کے اپنے پیشے سے جذباتی لگاؤ اور اس کا حق ادا کرنے کی راہ میں کی جانے والی تحقیق و تفتیش اور محنت وجفا کشی میں مضمر تھا نیز جرات، ہمت حوصلے سچاںٔی اور امانت داری و دیانت داری جیسے صحافت کے لازمی اوصاف کو برتنے میں پوشیدہ تھا خوبیٔ قسمت سے آپ کو ناز انصاری مرحوم ایڈیٹر روزنامہ الجمعیۃ اور مولانا رحمت اللہ فاروقی مرحوم سب ایڈیٹر روزنامہ قومی آواز جیسے صفِ اوّل کے اخبار نویسوں و سرکردہ صحافیوں کی صحبتیں اٹھانے کا موقع ملا تھا اور ان سے صحافت کے گر اور اس کے اسرار و رموز سیکھے کی سعادت حاصل رہی تھی واقعہ یہ ہے کہ آپ اپنے صحافتی سفر میں تمام عمر انہیں کے سکھاۓ ہوۓ صحافتی اصول وآداب کو برتتے رہے اور پیشے کے وقار واعتبار میں اضافہ کرتے رہے ۔
ایک بلند پایہ صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ آپ اچھے اخلاق وکردار کے انسان بھی تھے اور صحافتی سرگرمیوں کے علاوہ قومی وملی کاموں میں بھی دلچسپی رکھتے تھے خاص طورپر شہر کی فضا میں ہم آہنگی پیدا کرنے اور امن وامان برقرار رکھنے کے لیے کی جانے والی کوششوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے اسی طرح سہارنپور میں پیش آنے والے فرقہ وارانہ حادثوں اور جھگڑوں کے حل میں بھی آپ پیش پیش رہا کرتے تھے اور اپنی معاملہ فہمی و سوجھ بوجھ کی بناء پر ثالث کا کردار بھی ادا کیا کرتے تھے مجھے ذاتی طور پر آپ کے اس وصف کا تجربہ اس وقت ہوا جب 19 جولائی 2024ء بروز جمعہ تقریباً دس بجے شب سہارنپور میں میرے ساتھ ایک فرقہ وارانہ نوعیت کا حادثہ پیش آیا جس میں فرقہ پرستوں کی طرف سے کار کی معمولی سی ٹکّر کو بہانہ بناکر نفرت وتعصب کا اظہار کیا گیا اور شہر کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی گںٔی معاملہ پولیس تھانہ تک جا پہنچا لیکن کںٔی گھنٹوں کی رد و قدح کے بعد مختلف خطرات اور اندیشوں کا حوالہ دیتے ہوۓ اسے رفع دفع کرا دیا گیا اور میں صبر کرکے بیٹھ رہا اگلے دن سہارنپور سے تعلق رکھنے والے مختلف سرکردہ لوگوں نے مجھ سے رابطہ کرکے میری عیادت کی اور حادثے پر رنج وغم کا اظہار کرتے ہوۓ مجھے تسلی دینے کی کوشش کی انہیں رابطہ کرنے والوں میں ایک مرحوم شبیر شاد بھی تھے آپ نے پہلے واٹس ایپ میسیج کے ذریعے رابطہ قاںٔم کیا اور پھر باقاعدہ فون کرکے بات چیت کی خالِ محترم مولانا محمد سالم جامعی ایڈیٹر ہفت روزہ الجمعیۃ دہلی کے ساتھ اپنے دیرینہ مراسم کا ذکرکیا پیش آمدہ حادثے کی تفصیلات معلوم کیں واقعہ کی خبر کو انقلاب میں شاںٔع کرنے اجازت طلب کی اور شفقت آمیز لہجے میں تسلی اور عیادت کے کلمات بھی ادا کیے راقم کا شبیر شاد سے یہ پہلا رابطہ تھا طبیعت نے آپ کی گفتگو کا اچھا اثر قبول کیا اور اس میں پاںٔی جانے والی گرانی اور رنج وغم کی کیفیت قدرے ہلکی ہوگںٔی اس کے بعد جب حادثے کی خبر عام ہوںٔی اوراس پر عوامی وسیاسی ردِّ عمل سامنے آیا اور اکثریت کی راۓ ہوںٔی کہ چوں کہ یہ اب محض تمہارا ذاتی مسںٔلہ نہیں رہ گیا بلکہ قومی و ملی مسںٔلہ بن گیا ہے اس لیے اس میں کارواںٔی ہونی چاہیے تاکہ سہارنپور میں شروع ہونے والی فرقہ پرستی پر قدغن لگ سکے اور وہاں آںٔندہ کسی کے ساتھ اس قسم کا واقعہ پیش نہ آۓ اور پھر مختلف ذریعوں سے مجھے اس بات پر آمادہ کرنے کی کوششیں کی گںٔیں تو بالآخر کںٔی دنوں کے تذبذب اور غور وفکر کے بعد 24 جولائی بدھ کے دن دہلی سے اپنے احباب ومتعلقین کے ساتھ سہارنپور حاضر ہوکر بنامِ خدا ایف آںٔی آر درج کرادی گںٔی لیکن ایف آںٔی آر بہت ہی ہلکی دفعات میں درج کی گںٔی جن کی رو سے کیس میں کوںٔی دم خم باقی نہیں رہا البتہ مذکورہ حادثے کی بناء پر غم وغصے کی جو لہر پیدا ہوںٔی تھی اور مجرمین کے خلاف کاروائی کا جو مطالبہ زور پکڑتا جارہا تھا رپورٹ درج ہوتے ہی اس میں کمی آتی چلی گںٔی اور معاملہ بالکل ٹھنڈا پڑ گیا اس کے بعد کیس کی فردِ جرم تیار کیے جانے کا مرحلہ شروع ہوا وہ بھی انتہائی سست رفتاری اور ٹال مٹول کے ساتھ خیر جیسے تیسے معاملہ آگے بڑھتا رہا اور اس کے ساتھ ہی شہر سہارنپور کی بعض سماجی وسیاسی شخصیات کی طرف سے صلح کی بات بھی کی جانے لگی ایسے میں بعض مخلصین ومحبین کی طرف سے بھی یہ خیال ظاہر کیا جانے لگا کہ جب اس کیس میں کوںٔی جان نہیں ہے تو اس میں وقت ضاںٔع کرنا بے سود ہے اس لیے صلح ہی کرلینا بہتر ہے کیوں کہ صلح نہ کرنے کی صورت میں خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اور دقتیں پیش آسکتی ہیں لیکن راقم کو اس سلسلے میں شرحِ صدر نہیں تھا کیوں کہ صلح کی کوشش کرنے والوں میں مجرمین یا ان کے متعلقین میں سے ایک بھی شخص شامل نہیں تھا بلکہ اس میں ان کے فرقہ کی مضبوط نماںٔندگی بھی نہیں تھی جو کچھ کیا جارہا تھا وہ مسلم سماج ہی کی طرف سے کیا جارہا تھا دوسرے جن اندیشوں کا حوالہ دیا جارہا تھا وہ بھی مضحکہ خیز تھے تیسرے خیال یہ تھا کہ جس چیز کی اب پھر سے کوشش کی جارہی ہے وہ تو پہلے جس طرح بھی سہی وجود میں آہی چکی تھی اس کے بعد ہی ایف آںٔی آر درج کراںٔی گںٔی لہذا دوبارہ صلح کی کوشش عجیب معلوم ہوتی ہے اب تو یہ ہے کہ جو بھی معاملہ ہے وہ جاری رہنے دیا جاۓ نتیجہ اللہ کے حوالے کردیا جاۓ چناں چہ اس سلسلے میں مختلف لوگوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور اپنی بات رکھی لیکن بات نہیں بن سکی آخر میں ان سب کی طرف سے یہ ذمہ داری شبیر شا د کو دی گںٔی اور آپ نے اس سلسلے میں مجھ سے باقاعدہ رابطہ قاںٔم کیا اور تفصیل سے بات چیت کی اپنا عندیہ ظاہر کیا میری معروضات کو بھی بغور سنا اور مجھے معاملہ ختم کر دینے کی طرف ماںٔل کرنے کی کوشش کی آپ کی گفتگو کافی حد تک معقول اور سلجھی ہوںٔی تھی جسے سننے کے بعد میں معاملہ پر ازسرِ نو غور کرنے پر مجبور ہوگیا جس میں مرحوم کے کلام کی معقولیت کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت سے میرے تأثر کا بھی کچھ نہ کچھ دخل تھا لیکن مصالحتی کوشش کے یک طرفہ ہونے اور مدعی سست گواہ چست والا معاملہ بن جانے کی بناء پر ان کی انتہائی خواہش کے باوجود یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی اور معاملہ جوں کا توں رہ گیا لیکن ان کی شفقت ہمدردی اور صلح پسندی نیز سماجی ہم آہنگی برقرار رکھنے کے حوالے سے فکرمندی کا گہرا نقش دل پر قائم ہوگیا اور مرحوم کے مجھ سے عمر و تجربہ میں بڑا ہونے کے باوجود میرے ساتھ گفتگو میں ملحوظ رکھے جانے والے آداب والقاب نے تو مجھے شرمندہ ہی کرکے رکھ دیا ارادہ تھا کہ سہارنپور حاضری کے موقع پر موصوف سے شرفِ نیاز حاصل کروں گا لیکن ان کے اچانک انتقال سے یہ خواہش ادھوری رہ گںٔی اور آپ کے روبرو بیٹھ کر بات چیت کرنے کا ارمان دل ہی میں رہ گیا بلاشبہ آپ ایک صلح کوش ، معاملہ فہم اور بردبار انسان تھے آپ کی وفات سے جہاں سہارنپور ایک سینیر صحافی سے محروم ہوگیا وہیں اچھے اخلاق وکردار رکھنے والے ایک انسان سے محرومی بھی اس کے مقدر میں آںٔی ہے اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور امت کو آپ کا نعم البدل عطا فرماۓ آمین
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نو رستہ اس گھر کی نگہ بانی کرے
آمین ثم آمین