مدارس کے معیار تعلیم پر نصاب کی مشکل کتابوں کے اثرات
از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری
12 رجب 1446ھ 13 جنوری 2025ء
ہمارے مدارس میں معیارِ تعلیم حد درجہ پست ہے، مشکل عبارتوں کے حل تک رسائی تو بہت بڑی بات ہوگئی، عبارت خوانی پر بھی قادر نہیں، مدارس میں امتحان کی نسبت سے آمد ورفت رکھنے والے اس واشگاف راز کے محرم ہیں، ناچیز نے بھی یہ زخم دیکھے ہیں، اس کے علاوہ ایک معروف ادارے میں دارالافتاء کے داخلے کے لیے نیابۃً سالہا سال فضلاء کے انٹرویو لیے، عبارت خوانی اور ترجمے ہی میں سمٹ جاتے تھے، یہ حال نامور مدارس کے فارغین کا ہے، ایک ادارے میں ختم بخاری مجلس کے لیے جماعت کے ممتاز طالب علم کو آخری صفحے کی عبارت پڑھنے کے لیے تیاری کرائی گئی، پھر احتیاط کے طور پر زبر زیر بھی لگا دیے گئے، دارالعلوم دیوبند کے داخلہ امتحان میں شامل طلبہ نما ہجوم کی کاپیاں ابن الجوزی کی معروف کتاب أخبار الحمقی والمغفلین کی آئندہ دسیوں جلدوں کا مواد ہیں۔
گو کہ میری عمر پینتالیس سال ہے؛ مگر اس میں بائیس تئیس سال تدریس کے ہیں، دو سال معین مدرس تھا، چھ سال بنگلور میں پڑھایا اور کم وبیش پندرہ سال دارالعلوم کی برکاتِ تدریس سے نہال ہوا، اس دوران مختلف مراحل کی کتابیں زیرِ تدریس آئیں، علوم عالیہ وآلیہ دونوں سے تعلق رہا؛ لیکن میں کسی بھی موڑ پر اس تاثر سے آزاد نہیں ہو سکا کہ ہمارا نصاب، کتابیں اور مضامین عام طلبہ کے سنی شعور، علمی ارتقا، فکری تدریج، ذہنی نشوونما اور دماغی ترقی سے ہم آہنگ نہیں ہے، نصاب کئی کئی سال آگے چلتا ہے، بچے پیچھے رہتے ہیں اور پھر پیچھے ہی رہ جاتے ہیں، جھونکے کی طرح برابر سے گذر جانے والے نصاب کے ساتھ معدودے چند ذہین ترین طلبہ ہی ہم دوشی کر پاتے ہیں، پھر تکرار کلچر فروغ پاتا ہے، اردو شروحات اور نوٹ وجود پذیر ہوتے ہیں اور ترقی پاتے ہیں۔
ہمیں کنز الدقائق نگینے میں حضرت مولانا اسلام صاحب نے پڑھائی، بارہ تیرہ ساتھیوں کے درمیان وہ مسئلۃ البئر جحط بس مجھے پڑھا کر چلے گئے، باقیوں کے لیے وہ جناتی کلام تھا، یہی حال شرح جامی کا رہا اور دل چسپ تو مرقات کی روئداد ہے، متعلق استاذ ضعیف الاستعداد تھے، آخری درجے کی کوشش کے بعد وہ طلبہ سے فیڈ بیک لیتے اور مایوس ہوتے، انجام کار میں کہتا کہ حضرت مجھے سمجھ میں آگیا، آصف بھائی الجھتے تو میں کہنی مارتا کہ اردو شرح دیکھ کر شام کو میں سمجھا دوں گا، اس ضمانت پر مفاہمت ہوتی، انھوں نے بتایا کہ ان کے استاذ مرقات کی اردو شرح دیکھ کر پڑھاتے تھے اور ان کے بھی استاذ تھے، جو اردو شرح ایک طالب علم کو دے کر کہتے کہ سب کو پڑھ کر سنادو، چلو آپ کسی بھی ادارے میں سال دوم کے طلبہ کا مرقات ہی کا جائزہ لے لو، نصاب کتنے سال آگے ہے، واضح ہو جائے گا، شرح تہذیب وغیرہ کا تو ذکر ہی کیا!
یہ باتیں صرف کہنے کی مد میں ہیں کہ عربی اول کا امیدوار فلاں اور فلاں زبانیں پڑھ کر آتا ہے، پرائمری پاس کر کے آتا ہے، وغیرہ وغیرہ، حقیقت میں وہ حفظ کے بعد اول کی تیاری کرتا ہے اور راست عالمیت کی ٹرین پکڑ لیتا ہے، جہاں علوم وفنون کی دشوار گزار گھاٹیاں اس سے ابتدائی کمزوریوں یا درست تعبیر میں محرومیوں کا خراج وصول کرتی ہیں، سچائی یہ ہے کہ سال اول کے طلبہ کی صورت میں آپ کو لوحِ بے نقش ملی ہے، اس میں خاکہ سازی کا عمل بالکل آغاز سے کرنا ہے؛ لہذا ابتدائی سالوں میں صرف زبانیں پڑھائی جائیں، عربی بطور خاص، ساتھ میں اردو، فارسی اور انگریزی بھی، ان سالوں میں علوم وفنون کا بار بالکل نہ ڈالا جائے، عربی میں پختگی، درک، لکھنے، پڑھنے، سمجھنے اور بولنے میں مہارت کے بغیر علوم وفنون متعارف نہ کرائے جائیں، عربی دسترس سے علوم عالیہ میں کلیدی تعاون ملے گا اور رائج زبانوں کی مہارت سے خدمت دین کا دائرہ وسیع ہوگا، عصری تعلیم کا رجحان رکھنے والوں کو اعتماد اور سہارا ملے گا۔
فی زمانہ تعلیم کے پچاس فی صد معانی میں تنہا لسانیات ہے، باقی پچاس فی صد میں سائنس، اقتصاد، آئی ٹی، انجینئرنگ، میڈیکل، آرٹ اور دنیا بھر کے تمام علوم آتے ہیں، مدرسہ ایجوکیشن میں یہ تناسب تبدیل نہیں ہوتا؛ بل کہ افزود نکلے تو بھی عجب نہیں کہ مذہبیات میں بیان اور قوت بیان شاہ کلید ہے، چناں چہ انبیاء کرام معجز بیان اور سحر اللسان ہوے ہیں، آپ ان بچوں کو متواتر تین چار سال مذکورہ زبانیں سکھائیں، اس میں مقامی زبان کا اضافہ بھی کریں، اس دوران کسی بھی علم وفن کا بار ان پر نہ ڈالیں، صرف ونحو مستثنی ہیں کہ عربی زبان کے لیے ناگزیر ہیں، یہ عالم، فاضل، علامہ، محقق، مصنف اور مختلف الجہات خادمِ دین کا خمیر تیار ہو گیا۔
آئندہ سالوں کے لیے علوم وفنون کے قدیم مصادر کو سامنے رکھ کر نئی کتابیں تیار کی جائیں، جو سادہ، آسان، مختصر، جامع اور مکمل ہوں، سب کے لیے قابلِ فہم ہوں، عبارت سے مضمون واضح ہو، ایسی دقیق عبارتیں پڑھانا جو دس فی صد طلبہ کی گرفت میں آئیں اور نوے فی صد طلبہ سے آنکھ مچولی کھیل جائیں، معقول نہیں، اس پر دارالعلوم کی مثال نہ دی جائے کہ طلبہ دارالعلوم اُسی دس فی صد ذہین اکائی کے نمائندے ہیں، باقی مدارس پر رحم کھاؤ جو چھٹائی میں رہ جانے والے طلبہ کو سنبھالتے ہیں، وہ کس طرح ان دقیق باتوں کو نبھائیں گے؟ ہمیں انکار نہیں کہ اسی نصاب سے فلاں اور فلاں علامہ پیدا ہوے، وہ علامہ بیش بہا سہی؛ مگر زید وعمر کی قیمت پر ہر گز نہیں، زید وعمر کی زندگیاں بھی اہم ہیں، وہ آٹھ سال لگا کر کورے واپس ہوں یہ ہمارے نظام کے لیے ننگ اور کلنک ہے۔
اس بات کو مان لو کہ یہ نصابِ تخصص ہے، اسی لیے اس کے شکم سے اکابر پیدا ہوے، وہ غیر معمولی طور پر ذہین تھے، اس سے بھی زیادہ عسیر الفہم نصاب ان کے لیے سہل تھا، ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم متوسط اور ادنی ذہن کو بھی اسی تخصص کا پابند بنائے ہوے ہیں، جب کتاب سمجھ میں نہیں آتی تو طلبہ راہ بدل لیتے ہیں، یا والدین کے جبر پر بے مقصد رواں دواں رہتے ہیں، یا تو آپ مدارس کا دائرہ تنگ کریں اور چنیدہ بچوں کو قرآن وسنت کا ماہر بنائیں، عملا یہ ممکن نہیں، فقط ذہین بچے کیسے فراہم ہوں گے؟ یا پھر مدرسہ شائقین کے لیے عام فہم نصاب بنائیں، ان کو دورۂ حدیث سے گزار کر عالم اور مولوی کی سند عطا کر دیں۔
یہ انبوہِ عام، دین کی بیشتر خدمات کے لیے پورے طور پر اہل ہوگا، ہاں یہ محقق، متخصص، مصنف اور علامہ نہیں ہوگا، اس کے لیے آپ ممتاز فارغین کو روکیں اور دو سالہ تخصصات کا نظم کریں، ان کو خود کفیل بنانے والے وظائف بھی دیں، ان شعبوں میں ضرور وہ قدیم کتابیں پڑھائیں جن کو مشکل اور مغلق کہا جا رہا ہے، دقیق مضامین دنیا کے ہر نظام تعلیم کا حصہ ہیں؛ مگر مرحلۂ تخصص میں، تعلیم کے عام مرحلے میں نہایت سادہ چیزیں پڑھائی جاتی ہیں، ان متخصصین کو اسلامک گریجویشن کی سند دی جائے، یہ منتخب فضلا حاملین علم ہوں گے، غلو شعاروں کی تحریف، باطل پرستوں کی دروغ گوئی اور جہلا کی تاویلات پر قد غن لگانے اور قرآن وسنت کہ نگہبانی کے منصب کو زینت بخشنے والے۔
قرآن وسنت کے ماہرین یعنی خواص الخواص اس تعداد میں مطلوب بھی نہیں ہیں جو مدارس میں سالانہ تیار ہو رہی ہے، خود قرآن میں اس طرف اشارہ ہے، ایک تو طائفۃ کا لفظ تقلیل کا مفہوم رکھتا ہے، اوپر سے تنوین آگئی، تو فنا فی العلم تعداد میں کم ہی ہوں گے، بڑے شہروں کے لیے چالیس سے پچاس، متوسط آبادیوں کے لیے بیس پچیس اور قصبوں کے لیے پندرہ بیس مفتیان اور متخصصین کافی ہیں، خواص کی تراش خراش جداگانہ ہو، عام سبیل کو دشوار گزار نہ بنائیں، ایک ہیرے کی تلاش میں تمام راہگیروں سے بیگار نہ لی جائے۔
ماشاء الله، حضرت الاستاذ كا قلم هميشه كي طرح اس مضمون ميں بھي اچھوتا اور نادرموضوعات پر مشتمل هے، نظام اور نصاب كے تعلق سے بهت سي وه باتيں جو مدارس كے اساتذه محسوس كرتے هيں، مگر ان كا اظهار نهيں كرپاتے ، اس مضمون ميں بڑۤي جرأت اورصاف گوئي سے ان باتوں كو پيش كرديا گيا هے، جو هر طرح سے فكر انگيز اور عملي هے۔
آپ نے اس اهم مضمون كو اپنے بلاگ ميں شامل كركے اس كے نفع كو عام كيا هے، الله تعالے آپ كي اس كوشش كو قبول فرمائے آمين جزاكم الله خيرا