فساد امت اور احیائے سنت
از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری
19 شعبان 1446ھ 18 فروری 2025ء
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پے خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
اس گناہ گار نے ڈاڑھی تو کبھی نہیں مونڈی کہ اس کا موقع وامکان نہیں تھا؛ مگر دوسرے دسیوں گناہ ضرور کیے، بندۂ نفس ہوں، آوارہ ہوں، نفس اور شریعت کی رسہ کشی میں نفس کی طرف جھک جاتا ہوں، ضعیف الطبع ہوں، رو سیاہ ہوں، زندگی “خلطوا عملا صالحا وآخر سیئا” کے ٹریک پر ڈالی ہوئی ہے اور “عسی اللہ أن یتوب” امید گاہ ہے؛ مگر ان دس گناہوں میں سے کسی گناہ کو جائز کرنے کی یہودیت ہم نہیں جٹا پائے، گناہ کو گناہ سمجھ کر ہی کیا، سرِ شام کی خطا پر صبح نو سے ندامت کی چادر مانگی اور صبح کا تکرار شام کی شرم ساری میں چھپ گیا، محبوب کی شفاعت اور رب المحبوب کے کرم پر تکیہ رہا۔
یہودیوں کو جب گناہ منظور ہوتا تو راست توریت وصحائف میں تبدیلی کرتے، حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے ہاتھ رکھ کر بتایا کہ یہ مقامِ تحریف ہے، مسلم انتساب کے اسکالر بھی یہی یہودی سرشت رکھتے ہیں؛ مگر دیوبند کی سیسہ پلائی دیوار سے عاجز و بے بس ہیں، جب تک دیوبند موجود ہے، اسلام میں مہا کمبھ متعارف نہیں ہوگا، قاسم ورشید واشرف کے وارثین غالیوں کی تحریف، باطل کی چوری اور جاہلوں کی تاویل کے خلاف مبعوث ہیں، ہم تنگ نظری، مذہب افیونی، فکری دقیانوسی، مسلکی انتہا پسندی اور خیال ورائے کی فرسودگی کے طعنے سہہ سکتے ہیں؛ مگر اسلام کی رعنائی سے سمجھوتہ نہیں کر سکتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک امید پر فرما گئے ہیں کہ میں دین کو درخشاں چھوڑ کر جا رہا ہوں، اس میں دن ہی دن ہے، رات کا نام نہیں، دیوبند اس امید سے بہ ہر قیمت وفا کرے گا؛ تا آں کہ امانت ان کے فرزند حضرت مہدی کو تفویض ہو جائے۔
ایک زمانہ راقم کو مصر کی نئی کتابوں کا شغف تھا، لائبریریوں کے طواف کیے، لائبریرین کی بد اخلاقیاں برداشت کیں، حضرت مولانا انوار خان بستوی کو اگر یاد ہو تو بنگلور کی معروف لائبریری مالک کی گالیاں بھی کھائیں، یہ ما قبل پی ڈی ایف دور کی بات ہے، اس وقت حجاب مخالف ایک ضخیم کتاب پڑھنے کا موقع ہوا تھا، صاحب کتاب فاضل، محقق، اسکالر اور کسی کلیہ کا عمید تھا، اس نے نہایت قوت اور غضب کے پر اعتماد اسلوب میں یہ ثابت کیا کہ اسلام میں حجاب کا کوئی تصور نہیں ہے، اختلاط مرد وزن عین منشائے شریعت ہے، حجاب کے ترجمان کوتاہ نظر، پس ماندہ فکر اور از کار رفتہ ہیں، انھوں نے اسلام کو حجاب میں داخل کر دیا ہے اور محصور بھی؛ جب کہ حجاب خود اسلام میں نہیں ہے، حجاب کا حکم ازواج مطہرات کے ساتھ خاص تھا، باقی خواتین آزاد ہیں، حجاب ان سے مخاطب ہی نہیں۔
مصنف نے کتاب کو قرآن وحدیث سے لبالب کیا تھا، میں کتاب پڑھ کر ڈپریشن اور دباؤ میں چلا گیا، رو کر عرض گزار ہوا کہ اے رب! تو نے مجھے کتنا کم علم دیا ہے، میں تو اس کے رد سے بھی عاجز ہوں، آپ کون سے عرب فتاوی کی بات کرتے ہیں؟ انھوں نے کوئی چیز حرام رکھی ہے؟ آپ نے میوزک اور گانوں کے مستدلات نہیں دیکھے؟ آپ کہاں تک ساتھ دیں گے؟ انھوں نے کوئی معیار بنایا ہے؟ یا حد مقررکی ہے؟ مجھے نہیں معلوم کہ انھوں نے زنا وشراب پر داد تحقیق دی ہے یا نہیں؛ لیکن اگر ہندوستان میں شکیل بن حنیف کو اور پاکستان میں مرزا انجینئر کو متبعین مل سکتے ہیں تو زنا وشراب کے ریسرچ اسکالرز کو بھی مداح ضرور ملیں گے، بر صغیر ایک غامدی پر بدک گیا، مصر درجنوں غامدی دیکھ چکا ہے وہ بھی سو سال قبل، وہ گناہ کرنا چاہتے ہیں اور لت پت ہیں؛ مگر گناہ کے نام پر ہر گز نہیں، یا رسول اللہ! آپ بھی کیا ہی خوب ہیں، فرماتے ہیں کہ قرب قیامت گناہوں کے نام، عناوین اور عرفیت تبدیل کی جائے گی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معجز بیان ہیں، ماینطق عن الھوی ہیں، ان ھو الا وحی ہیں، قرآن، اعجاز نمبر ایک ہے، اس کے بعد راست آپ ہیں، آپ کے یہاں ناقص بیانی کا گذر نہیں، یہ کیا بات ہوئی کہ آپ اللہ کے یہاں سے نعوذ باللہ ڈاڑھی منڈانے کا جواز لے کر آئے ہیں؛ مگر اس کی تعبیر یہ ہے کہ ڈاڑھی رکھو، ڈاڑھی بڑھاؤ، ڈاڑھی بڑھاؤ، مشرکین کی مخالفت کرو ڈاڑھی بڑھاؤ، جب ڈاڑھی اختیاری ہے تو یہ زور کیوں؟ پھر جواز کی بات کا چھپانا آپ کے منصب میں کیسے ایڈ جسٹ اور آراستہ ہوگا؟ آپ کو تو جواز والا آپشن بھی بہ ہر صورت رکھنا ہے، ہم نے جواز کے دسیوں احکام میں دیکھا کہ آپ اپنی پسند ضرور رکھتے ہیں؛ مگر جواز بھی دیتے ہیں، آپ فرماتے ہیں کہ بیوی کو حد اعتدال میں تنبیہی ضرب کی اجازت ہے؛ مگر میری خواہش ہے کہ مارنے سے گریز کریں، آپ ضرور فرماتے کہ نعوذ باللہ ڈاڑھی مونڈنے کی اجازت تو ہے؛ مگر میری ترجیح یہ ہے کہ ڈاڑھی رکھی جائے۔
صحیح بخاری کی روایت: خَالِفُوا المُشْرِكِينَ؛ وَفِّرُوا اللِّحَى” کا ترجمہ: “ڈاڑھی اختیاری ہے ” کرنے کے لیے جسارت درکار ہے، صحابی کے چند بالوں والی ڈاڑھی ختم کرنے پر آپ کی خفگی سے جواز کے معانی نکالنا جرأت ہی جرأت ہے، ایران کے دونوں سفیر ڈاڑھی منڈے تھے، آپ نے ان کو جو فہمائش کی اس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ “افسوس ہے تم پر” یا “تمھارا برا ہو” پھر فرمایا: ( لَكِنَّ رَبِّي أَمَرَنِي أَنْ أُحْفِيَ شَارِبِي وَأُعْفِيَ لِحْيَتِي) یہ امرنی ربی کیا ہوتا ہے؟ امرِ رب کے بعد اختیار رہتا ہے؟ کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ترجمہ سنا سکتے تھے: امرنی یعنی اختیار دیا ہے؟
ڈاڑھی کا وجوب اور منڈانے کی حرمت متفق علیہ ہے، اس اجماع کے ناقلین میں علامہ ابن تیمیہ خود ہیں، شوافع کے یہاں کراہت کا قول ہے؛ مگر مرجوح، متقدمین میں ڈاڑھی ماورائے اختلاف تھی، متاخرین اور دور جدید نے اسے موضوع بحث بنایا، دوغلے بے ضمیری کی ہزار بات کرتے ہیں؛ مگر دل کا چور دبا جاتے ہیں، حسبِ دستور مفتوح قوم فاتحین کی تہذیب پر دل ہار بیٹھی ہے، غلاموں کے لیے آقاؤں کی وضع رشک زندگی بن گئی ہے، اس عار کے اعتراف کا حوصلہ نہیں؛ اس لیے تاویل کرتے ہیں، پیشین گوئی کے عین مطابق اسلام یتیم اور لاوارث ہو گیا ہے، اب ڈاڑھی وہ رکھے گا جسے اسلام اپنی جان اور مال سے زیادہ عزیز ہوگا۔