سوشل میڈیا پر پھیلتی نفرت: غفلت، سازش یا آزمائش؟
از : عبدالحلیم منصور
“یہ سازش ہے زمانے کی، ہمیں مجبور کرنے کی
کہ ہم سڑکوں پہ آجائیں، ہمارا صبر ٹوٹے گا!”
یہ سازش ہے زمانے کی، ہمیں بے بس کرنے کی،
کہ ہم اپنے ہی ہاتھوں سے، اپنا مستقبل مٹا بیٹھیں۔
(بشیر بدر)
کرناٹک کی ثقافتی راجدھانی میسور میں حالیہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک نفرت انگیز پوسٹ نے ماحول کو کشیدہ کر دیا ہے۔ یہ واقعہ محض ایک آن لائن پوسٹ تک محدود نہیں بلکہ اس کے اثرات سماجی ہم آہنگی پر گہرے ہوسکتے ہیں۔ کرناٹک جو پہلے ہی کئی مذہبی اور سماجی تنازعات کا سامنا کر چکا ہے، اس بار میسور جیسے تاریخی اور رواداری کے لیے مشہور سیاحتی شہر میں اس طرح کے واقعے سے سوالات اٹھنے لگے ہیں کہ آیا یہ ریاست میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو مزید بڑھانے کی ایک منظم کوشش ہے یا ایک انفرادی معاملہ جس نے غیرمعمولی صورت اختیار کرلی ہے۔میسور جو کہ ہمیشہ سے مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے درمیان ہم آہنگی کے لیے جانا جاتا رہا ہے، گزشتہ کچھ برسوں میں متعدد فرقہ وارانہ تنازعات کا شکار رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں جب ملک بھر میں فرقہ وارانہ سیاست شدت اختیار کر رہی ہے، کرناٹک کے مختلف شہروں میں بھی مذہبی بنیادوں پر پولرائزیشن کے واقعات تیزی سے سامنے آ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا جو کہ نظریات اور اطلاعات کے تبادلے کا ایک بڑا ذریعہ بن چکا ہے، اسے غلط معلومات پھیلانے اور مخصوص طبقات کو بدنام کرنے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ میسور میں سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی اس نفرت انگیز پوسٹ کے خلاف مسلمانوں اور سماج کے دیگر طبقات میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی پوسٹ میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اور سیاسی معاملات کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ دہلی کے انتخابی نتائج کے بعد مخصوص نظریات کے حامل ایک اشرار نے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے راہل گاندھی، اروند کجریوال اور اکھلیش یادو کی نیم عریاں تصاویر پر عربی میں مسلمانوں کے مذہبی و مقدس کلمات ڈال کر سوشیل میڈیا پر شیئر کر دیں۔
یہ کوئی پہلی بار نہیں ہو رہا ہے، بلکہ ایک مخصوص طرز کی سازش مسلسل دہرائی جا رہی ہے۔ پہلے نفرت انگیز مواد وائرل کیا جاتا ہے، پھر جب متاثرہ برادری ردعمل دیتی ہے تو میڈیا اس کے جذباتی احتجاج کو شدت پسندانہ رنگ دے کر پیش کرتا ہے، اور اس کا فائدہ اٹھا کر ریاستی مشینری کو مسلمانوں کے خلاف سرگرم کر دیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ درجنوں بے قصور نوجوان جیلوں میں بند ہو جاتے ہیں، ان کے خاندان پریشان ہو جاتے ہیں، اور قوم کا نام مزید بدنام کیا جاتا ہے۔ میسور کے علماء کرام، قائدین کی کوششیں قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے بروقت مداخلت کرکے حالات کو مزید پیچیدہ ہونے سے بچا لیا اور مشتعل ہجوم پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کر لی۔
میسور میں ہونے والے حالیہ واقعے کو اگر ہم گہرائی سے سمجھیں، تو واضح ہوگا کہ یہ ایک خاص سوچ اور حکمت عملی کے تحت انجام دیا گیا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والی پوسٹس میں اضافہ ہوا ہے۔ کہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے، کہیں قرآن کی بے حرمتی کی جاتی ہے، اور کہیں مسلمانوں کے طرزِ زندگی کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مقصد صرف ایک ہے کہ مسلمانوں کو اشتعال میں لا کر انہیں سڑکوں پر لایا جائے اور پھر ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔یہی کچھ بنگلور میں ہوا تھا۔ کے جے ہلی اور ڈی جے ہلی کے واقعات میں گستاخانہ پوسٹ پر مسلم نوجوان سڑکوں پر نکل آئے، جذبات میں بہک گئے، اور کچھ نے قانون کو ہاتھ میں لے لیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کئی نوجوان آج بھی جیل میں ہیں۔ وہ بے قصور ہیں، مگر نظامِ انصاف کی پیچیدگیوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کے گھر اجڑ چکے ہیں، والدین بے یار و مددگار ہیں، اور قانونی لڑائی ابھی تک جاری ہے۔میسور میں بھی یہی کچھ دہرایا جا رہا ہے۔ تقریباً ایک ہزار افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے، نوجوانوں کو جوش میں لا کر انہیں ایسی حرکتوں پر اکسانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو ان کے مستقبل کے لیے خطرناک ہو سکتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ سازش بار بار کامیاب کیوں ہو رہی ہے؟
نوجوان کیوں جوش میں آ جاتے ہیں؟
“ہر اک موڑ پہ بکھرے ہیں کئی راز زمانے کے
نئی سازش نئی چالیں، نیا انداز دشواری کا!”
ہمارے نوجوان جذباتی ہیں، ان کے دل میں اپنے دین اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے، اور وہ کسی بھی قسم کی گستاخی برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ ایک فطری ردعمل ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے جوش کا اکثر غلط استعمال ہوتا ہے۔اس کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو قانون، سیاست، اور میڈیا کی چالاکیوں کا مکمل شعور نہیں ہے۔ وہ نہیں سمجھ پاتے کہ انہیں کس طرح ایک سازش کے تحت استعمال کیا جا رہا ہے۔ ملی و مذہبی قیادت کا فرض تھا کہ وہ نوجوانوں کو حکمت و تدبر سکھاتی، انہیں قانونی لڑائی لڑنے کے راستے بتاتی، مگر بدقسمتی سے وہ اس میں ناکام نظر آتی ہے۔ مسلمانوں میں پچھلے کچھ عرصے سے ایک بے یقینی کی کیفیت ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کی آواز دبائی جا رہی ہے، ان کے مسائل کو نظرانداز کیا جا رہا ہے، اور وہ ریاستی مشینری کے رحم و کرم پر ہیں۔ اس احساسِ محرومی کا فائدہ سازشی عناصر اٹھا رہے ہیں۔ آج کے دور میں سوشل میڈیا ایک بڑا ہتھیار بن چکا ہے۔ نفرت پھیلانے والے اس کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں، اور مسلم نوجوان بھی بغیر سوچے سمجھے اس کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔
ایسے نازک حالات میں قوم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھے اور ہوش و حکمت کے ساتھ آگے بڑھے۔ جذباتی احتجاجوں کے بجائے قانونی راستے اپنائے۔ اگر کوئی گستاخانہ پوسٹ سامنے آتی ہے تو فوری طور پر پولیس اور عدالتوں سے رجوع کیا جائے۔ وکلا، صحافیوں اور دانشوروں کو ساتھ لے کر مضبوط قانونی جنگ لڑی جائے۔
یہ وقت خود احتسابی کا ہے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہمارے نوجوان کیوں بہک رہے ہیں؟ ان کی تعلیم پر کیوں کام نہیں ہو رہا ہے؟ دینی اور سماجی قیادت انہیں راستہ دکھانے میں ناکام کیوں ہے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں اپنی حکمت عملی کس طرح بہتر بنانی چاہیے تاکہ دشمن ہماری معصومیت کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔
یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھی بڑی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نفرت پھیلانے والوں کے خلاف فوری کارروائی کریں۔ سوال یہ ہے کہ جب گستاخانہ پوسٹ کی جاتی ہے، تب پولیس خاموش کیوں رہتی ہے؟ جب تک ہنگامہ نہ ہو، مجرموں کو پکڑا کیوں نہیں جاتا؟ اور اگر مسلمانوں کا کوئی نوجوان کسی ردعمل میں ملوث ہو جائے تو اس پر فوراً مقدمہ کیوں درج کر لیا جاتا ہے؟
اگر انصاف کا ترازو ایک طرف جھک جائے تو سماج میں بداعتمادی بڑھ جاتی ہے، اور یہی انتشار دشمنوں کا اصل ہدف ہوتا ہے۔ ریاستی مشینری کو اپنی غیرجانبداری ثابت کرنی ہوگی۔ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے، تاکہ کسی بھی برادری میں بے چینی نہ پیدا ہو۔میسور کا واقعہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم کب تک سازشی عناصر کے جال میں پھنستے رہیں گے؟ کیا ہم ہمیشہ اپنے ہی جذبات کے ہاتھوں شکست کھاتے رہیں گے؟ یا اب وقت آ گیا ہے کہ ہم حکمت، دانشمندی اور قانونی جنگ کے ذریعے اپنے حقوق کی حفاظت کریں؟یہ ایک فیصلہ کن لمحہ ہے۔ اگر ہم نے اس موقع پر ہوش سے کام لیا تو ہم اپنی آنے والی نسلوں کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ ورنہ دشمن ہماری جذباتیت کا فائدہ اٹھاتا رہے گا، اور ہم بار بار نقصان اٹھاتے رہیں گے۔اب یہ ہمیں طے کرنا ہے کہ ہم جوش میں بہک کر مزید نقصان اٹھائیں گے، یا ہوش میں رہ کر اپنے حق کے لیے مضبوط اور پائیدار حکمت عملی اپنائیں گے!۔
haleemmansoor@gmail.com