*املی کے درخت کا خیال (لطیفہ)*
مولوی عبد الحق مرحوم نے ١٩٣٦ء کو لکھنؤ میں اپنے ایک خطاب میں قوم کے نوجوانوں کو بیکاری اور کام کی یکسانیت کے درمیان، اعتدال اور تمیز و شعور کی جانب توجہ دلاتے ہوئے، ایک سبق آموز قصہ سنایا، جو اس طرح ہے:
ایک شخص کو تسخیرِ جن کا بہت شوق تھا اور اس کا عمل کرنا چاہتا تھا۔ بہت دنوں کے بعد اسے ایک عامل ملا۔ بڑی خوشامد اور خدمت کے بعد یہ عمل سکھایا، سنا ہے کہ یہ عمل بہت سخت ہوتا ہے اور اکثر اس میں جان کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس نے شوق کی دھن میں یہ سب تکلیفیں سہیں اور جن کو تسخیر کرکے رہا۔ جن دست بستہ حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ فرمائیے کیا ارشاد ہے؟ جو حکم ہوگا اسے بسر و چشم بجا لاؤں گا۔ عامل صاحب بہت خوش ہوئے اور انہوں نے اپنی دانست میں بڑے مشکل مشکل کام اسے بتائے، جن نے جھٹ پٹ کردیے اور وہ کام لینے کے لیے حاضر ہوگیا۔ کہتے ہیں، جن کبھی نچلا نہیں بیٹھتا، ہر وقت اس کے لیے کچھ نہ کچھ کام ہونا چاہئیے۔ اگر کام نہ دیا جائے تو وہ ستانا شروع کرتا ہے اور شرارتیں کرنے لگتا ہے۔ عامل صاحب کچھ نہ کچھ کام دیتے رہے، مگر اس جن کے لیے جو ہر وقت “هل من مزید” کی صدا دیتا تھا، اتنے کام کہاں سے لاتے؟ اب جن نے انہیں ستانا شروع کیا اور وہ بہت پریشان ہوئے، آدمی تھے ذہین، انہیں ایک تدبیر بہت خوب سوجھی، کہا کہ ہمارے صحن میں جو املی کا درخت ہے، اس پر چڑھو اور اترو، اترو اور چڑھو۔ اور جب تک ہم حکم نہ دیں، برابر چڑھتے رہو۔ کچھ دن تو وہ اترتا چڑھتا رہا، لیکن کب تک آخر؟ اس قدر عاجز اور تنگ ہوا کہ چیخ اٹھا اور عامل صاحب کی دہائی دینے لگا کہ خدا کے لیے مجھے اس عذاب سے بچا لیجیے، آپ جو کہیں گے، وہی کروں گا۔ عامل صاحب نے حکم دیا: اچھا اب اترنا چڑھنا بند کردو، جب ہم کسی کام کا حکم دیں، اسے کرو، ورنہ چپ چاپ یہاں بیٹھے رہو۔ بیکار بیٹھے بیٹھے اکتا جاتا تو شرارت کی سوجھتی، مگر معًا املی کے درخت کا خیال آجاتا تو وہیں دبک کے بیٹھ جاتا۔ اب بیکاری کی وجہ سے جن صاحب کا یہ حال تھا کہ بیٹھے اونگھا کرتے اور منہ پر مکھیاں بھنکتی رہتیں۔
برگِ گل، بابائے اردو نمبر/١٦ اگست ١٩٦٣ء/صفحہ: ٣٠٦/٧
(ماخذ : علم و کتاب واٹس ایپ گروپ)