عزم و استقلال اور جہد مسلسل کی علامت ذکیہ جعفری
چاہت محمد قریشی قاسمی
جس کو لاکھوں لوگ عزت و اکرام کے ساتھ منتخب کرکے پارلیمنٹ بھیجتے ہیں اور جہاں وہ ایک پورے علاقہ کی نمائندگی کرتا ہے، جو در حقیقت ملک میں ترقیاتی ڈھانچے کا حصہ بن کر وی آئی پی درجہ حاصل کرتا ہے، جس کی محنت لگن اور ایمانداری پر ملک کی ترقی اور تنزلی کا دارومدار ہوتا ہے، جس کے فیصلے قوم کی سمت متعین کرتے ہیں، جس کی نمائندگی سے ساشن بنتا ہے اور انتظامیہ جس کی تعظیم کرتی ہے، اسی اہم شخصیت کو زندہ جلا دیا جائے، بلکہ اس کے پاس پناہ کے لئے جمع ہوئے 68 لوگوں کو بھی آگ کے حوالے کردیا جائے تو اس کے مجرموں کو سزائے موت نہ ہو تو پھر کس کو ہو۔
لیکن افسوس اسی ممبر پارلیمنٹ کی بیوہ ذکیہ جعفری عدالتوں کے چکر پہ چکر کاٹتی رہی لیکن اس کو کوئی انصاف نہ مل سکا۔ کبھی ہائیکورٹ کبھی سپرم کورٹ، کہیں بھی جانا پڑا، کچھ بھی کرنا پڑا، وہ ہمت، جذبہ، عزم، مضبوط ارادے اور جہد مسلسل سے کوشاں رہی، کسی کی پھٹکار، کسی کا انکار یا کسی کا خوف اور ڈر اس کے قدم پیچھے نہ ہٹا سکا۔ لیکن افسوس صد افسوس آج وہی عزم و حوصلہ کی علامت بنی ذکیہ جعفری 86 برس کی عمر میں احمد آباد میں انتقال کر گئیں۔
ذکیہ جعفری کی زندگی عزم و استقلال، قربانی، اور انصاف کی لازوال تلاش کی ایک ایسی مثال ہے جو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ 2002 کے گجرات فسادات میں ان کے شوہر احسان جعفری کے المناک قتل کے بعد انہوں نے جس ہمت اور صبر سے قانونی جنگ کا آغاز کیا، وہ انسانی حقوق کے کارکنوں اور مظلوموں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
ذکیہ جعفری نے اپنے شوہر کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے کبھی ہار نہیں مانی۔ وہ جانتی تھیں کہ یہ راستہ آسان نہیں بلکہ مشکل اور طویل ہوگا، لیکن ان کے دل میں انصاف کا شعلہ کبھی مدھم نہ ہوا۔ ایک مظلوم بیوہ عورت ہوتے ہوئے انہوں نے نہ صرف مقامی عدالتوں بلکہ گجرات ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک اپنی آواز پہنچائی۔ یہ ایک غیر معمولی جرات مندی تھی جو ایک مظلوم خاتون کے اندر موجود تھی۔
ذکیہ جعفری کا عزم و استقلال اس وقت واضح ہوا جب 2006 میں انہوں نے نریندر مودی سمیت کئی اہم شخصیات پر فسادات میں کردار ادا کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے درخواست دائر کی۔ یہ قدم اس وقت کے سیاسی اور سماجی ماحول میں انتہائی جرأت مندانہ تھا۔ ان کی اس جدوجہد نے انصاف کے نظام کو بیدار کیا اور ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (SIT) تشکیل دی گئی۔
اگرچہ عدالتوں نے کئی مواقع پر ان کی درخواستیں مسترد کیں، لیکن ذکیہ جعفری کی ہمت نہیں ٹوٹی۔ وہ ہر ناکامی کو ایک نئے عزم کے ساتھ قبول کرتی رہیں۔ ان کے اس عزم کو انسانی حقوق کی کارکن تیستا سیتلواڑ کا بھرپور تعاون بھی حاصل رہا، جنہوں نے ذکیہ کے ساتھ اس جدوجہد کو آگے بڑھایا۔
ذکیہ جعفری کی زندگی صرف ایک قانونی جنگ نہیں تھی بلکہ یہ حق اور انصاف کی جدوجہد کا ایک عظیم استعارہ ہے۔ ان کی مسلسل محنت اور لگن نے ہمیں سکھایا کہ مشکلات چاہے جتنی بھی بڑی ہوں، اگر عزم پختہ ہو تو کوئی بھی رکاوٹ راستہ نہیں روک سکتی، ان کی کہانی ہمیشہ ہمیں حق کے لیے لڑنے کا درس دیتی رہے گی۔
ان کے عزم و استقلال کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے یہ کہنا بجا ہوگا کہ ذکیہ جعفری صرف ایک فرد نہیں بلکہ انصاف کی جدوجہد کا ایک تاریخی باب ہیں جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔