*بات سے بات: فارسی اردو لغت*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)*
آج اس بزم علم وکتاب میں فارسی اردو لغت کے بارے میں ایک استفسار نظر آیا۔
جہاں تک فارسی زبان کا تعلق ہے، اس میں مختلف لہجے رائج ہیں، جن میں سے مشہور وہ لہجہ ہے جس کی تعلیم برصغیر کے مدارس میں دی جاتی ہے، اور اس میں مثنوی مولانا روم ، گلستان ، بوستان، گلزار دبستان، جیسی کتابیں لکھی گئی ہیں، اور جس میں علامہ اقبال اور دوسرے قدیم شعراء کا کلام پایا جاتا ہے، بنیادی طو رپر یہ وہ زبان ہے جو ایران میں صفویوں کے عروج سے قبل رائج تھی، اور چونکہ ایران اس وقت سنی اکثریتی ملک تھا تو اہل سنت علماء کا لٹریچر اس میں پایا جاتا تھا، ان علماء میں امام غزالیؒ اور امام رازیؒ کا نام شامل کیا جاسکتا ہے، جنہوں نے عربی زبان کے علاوہ اس فارسی زبان میں بھی چند ایک کتابیں یادگار چھوڑی ہیں۔
یہی وہ زبان ہے جو سلطنت عثمانیہ کی سرکاری زبان تھی، عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ عثمانی دور میں عربی رسم الخط میں ترکی کو رائج کیا گیا تھا، لیکن یہ شاید یہ کل حقیقت نہیں ہے، عثمانیوں نے ترکی زبان کو علمی زبان بنانے پر زیادہ توجہ نہیں دی، یہی وجہ ہے کہ ایک صدی سے زیادہ عرصہ گذرنے کے باوجود عثمانی دور میں تصنیف شدہ ترکی زبان میں لکھے گئے علمی ودینی لٹریچر کے عربی یا دوسری زبانوں میں تراجم چراغ لے کر ڈھونڈنے سے نہیں ملتے،(ہماری اس بزم کے رکن جناب شوکت حسین صاحب اس ناچیز کی فرمائش پر موقر علمی وادبی ماہنامہ قومی زبان کراچی پوسٹ کرتے رہتے ہیں، اس کے جنوری کے شمارے میں حافظ صفوان کا ایک مضمون ” ترکی اور اردو زبان کے مشترک الفاظ” شائع ہوا ہے، احباب کو اسے ضرور پڑھنا چاہئے)۔
اگر اس فارسی زبان کو جسے عرف عام میں درہ خیبر کی طرف منسوب کرکے دری کہا جاتا ہے،اس سے اردو میں کسی بہتر لغت کی بات کی جائے تو لغات کشوری اس میں سرفہرست ہوگی، یوں تو یہ فارسی اردو لغت ہے، لیکن کسی اردو لغت کی ضرورت کو بھی یہ ایک حد تک ختم کردیتی ہے۔ ماضی میں اردو کے مقبول ترین ماہنامہ بیسویں صدی کے ہندو ایڈیٹر خوشتر گرامی قارئین کے استفسار پر ہمیشہ لغات کشوری کو ترجیح دے کر اس سے رجوع کرنے کا مشورہ طلبہ کو دیتے تھے۔
اس لہجہ کے علاوہ ایک اور فارسی لہجہ ہے جو صفویوں کے بعد ایران میں پھلا پھولا، اور اسے رضا شاہ پہلوی، اور محمد رضا شاہ پہلوی کے دور میں بہت اچھال آیا، اس دور میں ایرانی قوم پرستی کو عروج حاصل ہوا تھا، اورایرانی فارسی زبان سے عربی ترکی اور دوسری زبانوں کے الفاظ نکالنے کی دانستہ ایک تحریک چلی تھی،جس طرح ہمارے یہاں آزادی کے بعد آل انڈیا ریڈیو نے اس کا ایک نمونہ پیش کیا تھا، اور ایک ایسی زبان پروان چڑھ رہی تھی جسے آج کے دور میں فارسی کا فصیح ترین لہجہ قرار دیا جاتا ہے، اردو میں دکنی لہجے کو جو مقام دیا گیا وہی مقام ایرانی فارسی کے بالمقابل فارسی دری کو دیا جاتا ہے، اور حال یہ ہے کہ سعدی، قدسی، عرفی ۔ملا جامی ، اقبال وگرامی کی فارسی قدیم کلاسیکی اور متروک شمار ہوتی ہے۔ اور ابلاغ میں یہ زبان غیر موثر بن کر رہ گئی۔ اس زبان کی کسی لغت کی تیاری پر ابھی تک توجہ نہیں دی گئی تھی، لیکن تاریخی گورنمنٹ کالج لاہورجواب گونمنٹ کالج یونیورسٹی (جی سی یو) کہلاتا ہے، اس کے زیر سرپرستی فارسی زبان کے مشہور انسائیکلوپیڈیا لغت نامہ دہخدا سے فارسی مفردات کو منتخب کرکے ایک فارسی اردو لغت تیار کرنے کا ایک منصوبہ تیار کرکے ایک بورڈ تشکیل دیا گیا تھا، جس کے مدیران میں حافظ محمود شیرانی کے پوتے ، شاعر رومان اختر شیرانی کے فرزند ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی، اور پروفیسر ڈاکٹر محمد سرور رانا، اور پروفیسر نذر محمد شامل تھے، یہ منصوبہ لغت جامع جی سی یو (فارسی۔ اردو ) کے نام سے پانچ جلدوں میں مکمل ہو چکا ہے، اور اس کی تین جلدیں بالترتیب ۲۰۱۵، ۲۰۱۷، اور ۲۰۱۸ء میں منظر عام پرآچکی ہیں، یہ ابتدائی تین جلدیں حرف (ش ) پر ختم ہوتی ہیں اور ۲۶۰۰ صفحات پر مشتمل ہیں، لیکن بدقسمتی سے سات سال سے اس کی مزید کوئی جلد شائع نہ ہوسکی ہے، اور سنا ہے کہ لال فیتہ کا شکار ہوکر یہ الماریوں میں مہر بند ہوچکی ہے، اگر یہ لغت مکمل قارئین کے سامنے آجائے تو اہل علم طلبہ و اساتذہ کی ایک اہم ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔
(ماخذ: علم و کتاب واٹس ایپ گروپ)