سنو سنو!!
شادی کی تقریبات یا فواحش ومنکرات
(ناصرالدین مظاہری)
اگر کبھی کسی بارات گھر ، شادی ہال یا کسی بڑے ہوٹل میں شادی وغیرہ کی کوئی تقریب ہو تو آپ ذرا اپنی بیوی کو ،اپنی بیٹی اور بہن کے سنگار کو دیکھئے ایسا بن ٹھن کر ، میک آپ سے لد کر ، سب سے بہترین ، نقشین اور شاندار سوٹ زیب تن کرکے جائیں گی کہ مانو وہاں سبھی لوگ ان کے سگے آنے والے ہیں۔
آپ نے بھی ایسی تقریبات میں ضرور شرکت کی ہوگی جہاں خواتین ننگے سر ،اپنے شاندار میک اپ کا اظہار کرتے، ہرنی کی چال چلتے، بہانے بہانے سے مردوں کے علاقہ میں آتے جاتے دیکھا ہوگا ، سر سے دوپٹہ تو عموما گھر سے ہی کندھے پر آجاتا ہے اور اتفاق کی بات ہے کہ کندھے سے اوپر سر تک جاتا ہی نہیں ہے ، کیسی ہی سردی ہو یہ خواتین شتر بے مہار کاالشاۃ العائرۃ (گرم بکری کے مانند) پورے ہال میں گھومتی ،ناچتی ،چہکتی ، مہکتی ، اٹکھیلیاں کرتی، آنکھ مچولی ، مسکراتی ، منمناتی اور دندناتی مل جائیں گی ، کبھی سوچا کہ یہ یہ خواتین اپنے گھر میں کیوں بھوتنی بن کر رہتی ہیں اور جیسے ہی تقریبات میں شرکت کا موقع ملتا ہے تو بھول جاتی ہیں کہ ان کا شوہر دیندار ہے یا باپ مولوی اور نمازی ہے یا بھائی حاجی اور جماعتی ہے کچھ بھی ہو انھیں اپنے حسن کی جوت سے لوگوں کے ایمان کو خراب کرنے کا شیطان نے ٹھیکہ دیا ہوا ہے ان کے والدین ، بھائی ، بیٹے اور شوہر سب ایک نمبر کے دیوث ہوتے ہیں جو ساتھ ہونے کے باوجود ہرگز انھیں منع کرنے کی سکت اور ہمت اپنے اندر نہیں رکھتے۔
ان تقریبات میں کیا ہوتا ہے؟حسن کا اظہار ہوتا ہے،
بل کھاتی کمر اور لہراتے بالوں سے جوانوں کے قلوب کو مسخر کیا جاتا ہے ، انکھیوں اور کنکھیوں سے نوجوانوں کا تعاقب کیا جاتاہے ، شکار پھنس گیا تو نمبرات کا تبادلہ ہوجاتا ہے اور پھر شروع ہوتی ہے نہ ختم ہونے والی داستان عشق و مشک۔
کل بہار میں کیا ہوا ، وہ لڑکی پڑھی لکھی تھی، دیندار نمازی تھی، ماں کو قرآن کریم پڑھاتی تھی، شاید عالمہ ہی تھی ، باپردہ تھی ، باحجاب اور باحیا تھی بس ایک غلطی نے ارتداد تک پہنچا دیا اور پھر ایک ہندو لڑکے کے بستر تک پہنچ گئی ، غلطی یہ تھی کہ باپ نے لڑکی کے موبائل کو کبھی چیک کرنے کی کوشش نہیں کی ، ہر باپ کی طرح یہ باپ بھی اپنی لاڈلی کو دودھ کا دھلا اور رابعہ بصری سمجھتا تھا ،مگر لڑکی موبائل پر کسی غیر مسلم ہندو لڑکے سے میسیج کے ذریعہ باتیں شروع کر چکی تھی ، عشق اور مشک اپنا کام دکھاتے ضرور ہیں ایک دن وہ بھی آیا کہ لڑکی نے اپنے آشنا کے ساتھ مرتد ہوکر شادی رچالی۔
اس کا باپ دیندار ہے ، نمازی ہے ، باشرع ہے اور اب منہ چھپاتا پھر رہاہے کہ یہ کیا ہوگیا۔
ہمیشہ یاد رکھیں اگر آپ کی اولاد کے ہاتھ میں موبائل ہے تو ہرگز نہ سمجھیں کہ آپ کی اولاد اپنے گھر کے اپنے بیڈروم میں ہے بلکہ سوچ لیں کہ وہ بازار میں بازاری لوگوں کے ساتھ ہے کیونکہ یہ موبائل موبائل نہیں دہلی کا مینابازار ہے ، یہ نیٹ نیٹ نہیں قحبہ خانے کا راستہ ہے ، یہ چیٹ جی ، واٹسپ ، میسنجر وغیرہ وہ بازار ہیں جہاں عزتوں کے سودے ہوتے ہیں ، عصمتوں کے بھاؤ لگتے ہیں، عفتوں کی تجارت ہوتی ہے ، حیا و شرم کے جنازے اٹھتے ہیں، اور آپ خوش ہیں کہ آپ کی اولاد گھر میں ہے حالانکہ اس کا جسم گھر میں ہے اس کا من کہاں ہے آپ کے فرشتوں کوبھی پتہ نہیں ہے۔
اے بھائی !زمانہ ہی ایسا چل پڑا ہے کہ اب ماں کواپنی بیٹی کے ساتھ سونا اور بار بار اٹھ کر نظر ڈالنا بلکہ نظر گاڑنا ضروری ہوگیا ہے ، باپ کے لئے بھی ضروری ہوچکاہے کہ اس کے بالغ لڑکے اس کے سامنے سوئیں ، موبائل تو آپ ان سے چھڑانہیں سکتے یہ تو ممکن نہیں رہا کیونکہ شروع سے ہی وہ موبائل کے عادی ہوچکے ہیں تو کم ازکم ان کے موبائل پر نظر رکھیں ، ہر گز اپنی بالغ اولاد کو جنید و شبلی اور رابعہ بصری سمجھنے کی خوش فہمی میں مبتلا نہ رہیں۔ اولاد کو تاکید کریں کہ وہ اپنے موبائل میں پاسورڈ نہ لگائیں تاکہ کوئی بھی موبائل کو چیک کرسکے۔
ارتداد صرف کالج کے راستے نہیں آرہا ہے ارتداد آپ کے گھر کے موبائل سے آرہا ہے ، شادی کی بے شرم تقریبات سے آرہا ہے، بے پردگی اور بازاروں سے آرہا ہے، اسکولوں اور مدارس و جامعات کے لئے جاتے آتے آرہا ہے ، خشکی اور تری میں فساد پھوٹ پڑا ہے ، ایمان کو بچانا مشکل اور شیطان سے لڑنا ناممکن ہوتا جارہا یے ، وہ وقت آچکا ہے کہ ایمان کو بچانے کے لئے آپ ہوں ، آپ کی بکریاں ہوں اور پہاڑ کی وادیاں اور چوٹیاں ہوں۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
” يُوشِكَ أَنْ يَكُونَ خَيْرَ مَالِ الرَّجُلِ غَنَمٌ يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ، وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنَ الْفِتَنِ”.
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ایک زمانہ آئے گا جب مسلمان کا سب سے عمدہ مال اس کی وہ بکریاں ہوں گی جنہیں وہ پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش کی وادیوں میں لے کر چلا جائے گا تاکہ اس طرح اپنے دین و ایمان کو فتنوں سے بچا لے۔“ (بخاری)