بات سے بات: اردو میں عربی الفاظ کا املا
تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)
ایک استفسار آیا ہے کہ اردو میں “علماء” کا املا ہمزہ کے ساتھ لکھا جائے گا، یا بغیر ہمزے کے، بڑی الجھن ہوتی ہے کہ عربی کے ان الفاظ کو جن میں ہمزہ آتا ہے، اس میں کسی نے کچھ لکھا ہے تو کسی نے کچھ، اس سلسلے میں ہمارے ذہن میں چند باتیں آتی ہیں۔
۔ دنیا کی تمام زبانیں پہلے بولی جاتی ہیں، پھر ان میں گیت ڈھلتے ہیں، اورجب اسے بولنے والوں میں اہل علم کی معتد بہ تعداد پیدا ہوجاتی ہے تو پھر یہ تحریر کی شکل میں یہ ترقی کرنے لگتی ہے۔ جب یہ زبانیں غیر زبان والوں میں رائج ہونے لگتی ہے تو پھر ان کے درست بولنے اور لکھنے کے لئے قواعد وضوابط تشکیل پانے لگتے ہیں، اور انہیں حتمی شکل ملتے ملتے صدیاں بیت جاتی ہیں۔
اردو کے ساتھ بھی کچھ یہی معاملہ ہوا ہے، تقسیم ہند سے قبل اردو کے ساتھ اہل زبان اور غیر اہل زبان کا معاملہ تھا، پاکستان میں پنجاب کے چاروں صوبوں میں گھر کی بولی اردو نہیں تھی، یہی بنگلہ دیش کا حال تھا، ہندوستان میں فیلموں نے ہندی اور اردو کا فرق کم کردیا، اور اسے بولنے والے لکھنے والوں سے کئی گنا بڑھ گئے، اور اہل زبان اور غیر اہل زبان کا فرق مٹنے لگا، تو حالات کے مد نظر اردو کے املا کو منطقی اصولوں کے مطابق ایک حتمی اور معیاری شکل دینے کی ضرورت شدت سے محسوس ہونے لگی ، خاص طور پر ہندوستان کے دو اخباروں قومی آواز لکھنو اور سیاست حیدرآباد نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا، قومی آواز کے اختیار کردہ اصولوں کو عموما پذیرائی ملی۔ املا کو منضبط کرنے کے لئے تحقیقی کام بھی ہوا، جس میں رشید حسن خان کی سات سو صفحات پر مشتمل ضخیم کتاب “اردو املا” کو مرجعیت حاصل ہوئی۔
اس سلسلے میں یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ ہر زبان کا اصول ہے کہ حروف زبان سے نکلنے والے الفاظ کی تصویر ہوتے ہیں، لہذا الفاظ کو ویسے ہی لکھا جانا چاہئے جیسے وہ بولے جاتے ہیں، البتہ ہر زبان میں چند الفاظ سماعی ہوتے ہیں،جو قواعد وضوابط کے پابند نہیں ہوا کرتے، لیکن زبان کے ماہرین کا فرض بنتا ہے کہ قیاس کے مخالف ہر لفظ کو قواعد وضوابط کی کسوٹی پر پرکھیں، اور سماعی الفاظ کی تعداد کم سے کم کرنے پر توجہ دیں۔
چونکہ اردو مصنفین کی ایک بڑی تعداد عربی مکاتب سے پڑھ کر آنے والوں کی رہی ہے، لہذا ابتدا میں عربی حروف کے املا کو من وعن قبول کیا گیا، لیکن محققین اور اہل زبان کے نزدیک جب یہ اصول طے پایا کہ کوئی بھی لفظ جب اردو میں رائج ہوجائے تو پھر یہ عربی قواعد کے بجائے اردو املا کے تابع ہوجائے گا، تو جب اردو کے قواعد املا منضبط ہوئے تو “علماء” جیسے الفاظ کے بارے میں طے پایا کہ یہ بغیر ہمزہ کے لکھے جائیں گے۔ اس سلسلے میں جو الجھن پائی جاتی ہے اس کے چند ایک اسباب یہ ہیں۔
عربی زبان میں حرف الف اور ہمزہ میں فرق پایا جاتا ہے، الف ہمیشہ ساکن ہوتا ہے، اور جس الف پر حرکات زبر زیر پیش لکھے جاتے ہیں ،وہ دراصل الف نہیں بلکہ ہمزہ ہوتے ہیں، ہمزہ ہمیشہ متحرک ہوا کرتا ہے، عربی قواعد کے مطابق علماء کا ہمزہ زبر زیر پیش کی حرکت کے ساتھ ہی آسکتا ہے، اس کا ہمزہ ساکن نہیں ہوسکتا۔
اردو میں جب (علما) بولا جاتا ہے تو الف پر لفظ رک جاتا ہے، الف کے بعد زبر زیر پیش لانے کے لئے ہمزہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔ عربی میں یہ لفظ
اعراب کے ساتھ (علماءُ)، (علماءِ)، (علماءَ) استعمال ہوتا ہے، (علماءْ) سکون کے ساتھ نہیں آتا۔اردو میں علماء ہمزہ پر زبر زیر یا پیش کے ساتھ بولنا غلط ہے۔
اسے واضح طور پر دیکھنے کے لئے آپ کو مصر، سعودیہ اور عرب ممالک میں چھپنے والے مصاحف کو دیکھنا چاہئے، برصغیر میں چھپے مصاحف میں الف پر اعراب ہوتا ہے، جب کہ عرب ممالک کے مصاحف میں الف پر اس کی جگہ ہمزہ (أ) لکھا ہوتا ہے۔
اسی طرح عرب ممالک میں مصاحف میں جہاں ایک مد آتا ہے وہاں الف مد(آ) کی جگہ ہمزہ (ءا) لکھا ہوتا ہے۔ کیوں کہ مد میں ہمزہ کے بعد الف ساکن ہے۔البتہ دو مد میں ہمزہ الف مد (ءآ) فرق کے لئے لکھا جاتا ہے۔
اس وقت اردو املاء میں رشید حسن خان کے بتائے ہوئے قاعدے کو معیار کی حیثیت حاصل ہے، وہ لکھتے ہیں۔
“یہی صورت ہوگی، ایسے عام الفاظ کی جن کے آخر میں عربی میں ہمزہ ہے ، اُردو میں وہ سب ہمزہ کے بغیر لکھے جائیں گے ۔ صرف دو لفظ ” مبدء” اور “سود” مستثنا ہیں کہ یہ مع ہمزہ لکھے جائیں گے ۔ اضافت کی صورت میں ہمزہ مکسور ہو جائے گا ۔ ان کا بیان – ہمزہ اور ی کے تحت آئے گا(اردو املا)
(ماخذ: علم و کتاب واٹس ایپ گروپ)