مودی حکومت کے پاس درپیش سنگین مسائل کا حل کیوں نہیں ہے؟
سرفرازاحمدقاسمی حیدرآباد
رابطہ: 8099695186
ملک کی معیشت اس وقت ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں ایک طرف روپے کی گرتی ہوئی قدر اور بڑھتی ہوئی افراط زر ہے تو دوسری طرف اقتصادی ترقی کا گرتا معیارہے، ان چیلنجز کے درمیان حکومت کی غیر دانشمندانہ اور غیر ہمدردانہ پالیسی بھی معیشت کو تباہی کی جانب لے جا رہی ہے، گذشتہ کچھ عرصے سے ہندوستانی روپے کی قدر، ڈالر کے مقابلے میں مسلسل گراوٹ کا شکار ہے، جن دنوں روپے کی قدر میں کمی کو اقتصادی بد انتظامی کی علامت سمجھا جاتا تھا،ان دنوں مودی نے منموہن سنگھ کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا،منموہن سنگھ معاشیات کے ماہرتھے،ا نکے دور میں ملک کو کبھی شرمندگی اور ندامت سے دوچار نہیں ہونا پڑا،انھوں نے انتہائی نازک حالات میں ملک کو معاشی بحران سے نکالا تھا،مودی کی موجودہ حکومت اور منموہن کی گذشتہ حکومت میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ انکے پاس درپیش مسائل کا حل تھا اور انکے پاس کسی سنگین مسئلے کا نہیں ہے۔
2014 کے انتخابات میں مودی نے عوام سے یہ کہا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد روپے کو 40 کے مقابلے میں مستحکم کیا جائے گا،لیکن موجودہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، آج ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 86 روپے 69 پیسے تک گر چکی ہے،جو مودی سرکار کے اقتصادی منصوبوں پر سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے،عالمی منڈی میں امریکی معیشت کی بحالی،بے روزگاری میں کمی اور امریکی سود کی شرحوں میں استحکام نے ڈالر کو تقویت دی ہے،اس کے برعکس ہندوستانی معیشت کی ترقی کی رفتار سست روی کا شکار ہوچکی ہے،روزگار کے مواقع میں کمی، قوت خرید میں جمود، اور بازار میں طلب کی کمی نے روپیوں پر دباؤ بڑھا دیا ہے،مزید یہ کہ روسی تیل پر امریکی پابندیوں نے ہندوستان کی تیل کی درآمد لاگت میں اضافہ کردیا ہے جس سے غیر ملکی تجارتی خسارہ مزید بڑھ گیا ہے،یہ تمام عوامل مل کر ایک ایسے چکر کو جنم دے رہے ہیں جس سے نکلنا بہت آسان نہیں ہے،معاشی مشکلات کے درمیان ہندوستان کے زر مبادلہ کے ذخائر پر بھی دباؤ بڑھ رہاہے،مینو فیکچرنگ انڈسٹری کو در آمدی خام مال کی قیمتوں میں اضافے کا سامنا ہے،جس کے نتیجے میں مہنگائی کی شرح میں بےحساب اورہوش ربا اضافہ ہورہا ہے،مہنگائی کا عفریت کیسے سرچڑھ کربول رہاہے،اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں 10 تا 15 فیصد کا اضافہ کر دیا گیا ہے،شہرحیدرآباد کے بیگم بازار جیسے بڑے بازاروں میں جہاں خریدی میں کمی آئی ہے،وہیں دیہی علاقوں میں اشیائے ضروریہ کی خریدی کے ساتھ قیمتوں میں بھی زبردست اضافہ ہوگیا ہے،صرف چار ماہ میں خردنی تیل کی قیمتوں میں فی کلو 10 تا 30 روپے کا اضافہ ہو گیا،ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر جنگی ماحول اور درآمدی تیل پر مرکزی حکومت کی جانب سے وصول کی جانے والی ڈیوٹی بڑھا دینے سے پام آئل کی قیمت اچانک 94 روپے سے بڑھ کر 140 روپے تک پہنچ گئی ہے،اس کی قیمتوں میں بھی ہر دو تین دن میں نظر ثانی ہورہی ہے،سن فلاور آئل فی لیٹر 145 روپے سے 160روپئے، پھلی کا تیل 160 روپے سے زیادہ فروخت ہو رہا ہے،پکوان کے لیے دالیں انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں،تمام اقسام کی دالوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے،مونگ دال 100 روپے فی کلو ،تل 170 روپے ،گڑ 70 روپے ،نیا چاول 60 روپے فی کلو ،پرانا چاول 70 روپئے سے زیادہ فی کلو فروخت ہورہاہے،معیاری لہسن فی کلو 450 سے 500 روپئے فروخت ہورہا ہے،ترکاری کی قیمتوں میں بھی اسی سطح پر اضافہ ہو رہا ہے،شہر حیدرآباد کے علاوہ ریاست کے ہر دیہات میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں،ایک ہفتے کے دوران اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں پانچ تا 10 فیصد کا اضافہ ہو گیا ہے،جس کی وجہ سے عوام مالی بوجھ کا سامنا کر نے پر مجبور ہے،یہ تومہنگائی کی بات تھی،اب ملک میں بے روزگاری کی صورتحال کیاہے؟اسے جاننے کےلئے یہ رپورٹ پڑھئے
“ہندوستان میں ملازمتوں کا بحران لگاتار ایک بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے،لوگوں کو امیدیں تھی کہ نئے سال میں تھوڑی راحت ملے گی، لیکن حالیہ رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ہر 10 میں سے 8 لوگ ملازمت تلاش کر رہے ہیں،نصف سے زیادہ یعنی 55 فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ نئے سال میں ملازمت تلاش کرنا مزید مشکل ہو گیا ہے،لنکڈ ان کے ذریعہ کی گئی ایک تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے،دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستان کے 69 فیصد ایچ آر پروفیشنلز کا ماننا ہے کہ ہنر مند ملازمین کو تلاش کرنا پہلے سے زیادہ مشکل ہو گیا ہے،یاد رہے کہ گزشتہ سال بھی ملازمت تلاش کرنے والے لوگوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا،حالانکہ 37 فیصد لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ سال 2025 میں نوکری تلاش نہیں کررہے،اس کے باوجود 58 فیصد لوگ یہ امید کر رہے ہیں کہ اس سال ملازمت کا بازار بہتر ہوگا اور وہ نئی ملازمت حاصل کرسکیں گے،بہت سے لوگ الگ الگ جگہوں پر ایک ساتھ ملازمت کے لیے درخواست دے رہے ہیں،49فیصد لوگ پہلے سے کہیں زیادہ نوکریوں کے
لئے عرضی داخل کر رہے ہیں، لیکن انہیں بہت کم جواب مل رہے ہیں، 27 فیصد ایچ آر پروفیشنلز روزانہ تین سے پانچ گھنٹے صرف درخواستیں دیکھ رہے ہیں،جبکہ 55 فیصد کا کہنا ہے کہ انہیں جو درخواستیں موصول ہوتی ہیں ان میں مہارت نہیں ہوتی،لنکڈ ان انڈیا کا کیریئر ایکسپرٹ نرجیتا بنرجی کے مطابق ملازمت کا بازار کافی مشکل ہے لیکن یہ ہندوستان کو ان کی ملازمت تلاش کرنے کے طریقوں میں سوچ سمجھ کر بدلاؤ کرنے کی یاد دہانی کراتا ہے،ساتھ ہی اپنا لنکڈ ان پروفائل اپڈیٹ رکھنا اور ایسے رولز پر دھیان دینا جو واقعات آپ کی مہارت سے میل کھاتے ہوں، قابل ذکر ہے کہ ہندوستان میں 60 فیصد لوگ نئے سیکٹر میں کام کرنے کے لیے تیار ہیں،وہیں 39 فیصد اس سال نئی مہارت سیکھنے کی تیاری میں ہے ”
مودی کے اقتدار میں آتے ہی ہندوستانی معیشت کےحوالے سے بڑے بڑے دعوے کیے گئے اور ترقی کے خوابوں کی ایسی تصویر کشی کی گئی جو حقیقت سے کوسوں دور تھی، کہا گیا کہ ہندوستان تیزی سے دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے جا رہا ہے مگر یہ دعوی محض لفاظی اور الفاظ کی بازیگری ثابت ہوئے،قومی شماریاتی دفتر کی حالیہ رپورٹ نے ان خوابوں کی قلعی کھول دی ہے،گذشتہ 7 جنوری 2025 کو جاری ہونے والے تخمینے کے مطابق مالی سال 25۔ 2024 میں ہندوستانی معیشت کی شرح نمو 6.4 فیصد تک سمٹ جانے کا امکان ہے،جو گذشتہ سال کی 8.2فیصد کے مقابلے میں نمایاں کمی ہے،یہ شرح نمو،وبائی بحران کے بعد کی سب سے کم سطح پر ہے اور حکومت کی پالیسیوں کے کھوکھلے پن کا پردہ فاش کرتی ہے،حقیقت یہ ہے کہ مودی حکومت کے بلند بانگ دعوے،عوام کی زندگیوں میں خوشیاں نہیں بلکہ پریشانیوں کا انبار لے کر آئے ہیں،عوام کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں مگر حکومت کے ترقیاتی وعدے محض تقریروں تک محدود ہیں،معیشت کی یہ گرتی ہوئی حالت صرف ایک عدد نہیں بلکہ اس معاشی نظام کی ناکامی کی کہانی ہے جو بلند بانگ دعووں کے سہارے چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے،سوال یہ ہے کہ جن خوابوں کا وعدہ تھا وہ عوام کے لیے اب سراب کیوں ثابت ہورہے ہیں، 6.4فیصد کی شرح نمو کو مثبت سمجھا جا رہا ہے لیکن اگر اس کو تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ صرف ایک سست رفتار ترقی کی علامت ہے،2014 میں جب مودی حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا تو معیشت کی شرح 7.4 فیصدتھی،اس کے بعد معیشت میں سست روی آتی گئی، یہ کبھی 6.8 فیصد تک کم ہوئی اور کبھی 3.9 فیصد تک نیچے چلی گئی،2016 میں مودی کے تغلقی فرمان کے تحت نوٹ بندی،2017 میں غیر منظم طریقے سے جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد معیشت میں جو تعطل آیا وہ ابھی تک مکمل طور پر نہیں ٹوٹ سکا ہے،اس کے علاوہ کرونا وائرس کے دوران کیے گئے حکومت کے احمقانہ فیصلوں نے تو معیشت کو تہ و بالا کر کےرکھ دیا ہے،21۔2020میں معیشت 5.8فیصد تک سکڑ گئی،22۔2021 میں تو معیشت میں 9.7 فیصد کا عارضی اضافہ دیکھنے کو ملا، لیکن اس کے باوجود معیشت کے بنیادی مسائل حل نہ ہوسکے ،اب25 ۔2024 میں ترقی کی شرح کا تخمینہ صرف 6.4 فیصد ہے،یہ معاشی سست روی غریب عوام کےلئے کئی چیلنجز کا سامنا پیدا کرتی ہے،بے روزگاری کا مسئلہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے،نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کا فقدان اور اجرتوں میں کمی سے ان کی زندگی مزید مشکل ہو گئی ہے اور نوجوان خودکشیاں کررہے ہیں،عوام کی قوت خرید میں کمی آرہی ہے جس کے نتیجے میں مارکیٹ میں اشیاء اور روزمرہ کی ضرورتوں کے سامان کی مانگ میں کمی آئی ہے،یہ صورتحال پیداوار اور نجی سرمایہ کاری کی کمی کی وجہ سے مزید پیچیدہ ہو گئی ہے،جب نجی سرمایہ کار خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں تو معیشت میں سرمایہ کاری کی کمی اور پیداوار میں کمی کا سامنا ہوتا ہے،اسی کا نتیجہ ہے کہ عام آدمی کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہو رہی ہے، وزیراعظم مودی نے ہمیشہ پانچ ٹریلن ڈالر کی معیشت کا خواب دکھایا ہے لیکن یہ خواب حقیقت میں تبدیل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے،اگر ہم عالمی سطح پر ہندوستانی معیشت کی پوزیشن کا جائزہ لیں تو اس میں حقیقت اور خواب کے درمیان بہت بڑا فرق نظر آتا ہے،مالی سال 25۔2024میں برائے نام جی ڈی پی کی 9.7 فیصد شرح نمو کے باوجود اسے کوئی غیر معمولی کامیابی نہیں کہا جا سکتا،کسی بھی ملک کےلئے الگ تھلگ رہ کر ترقی کرنا ممکن نہیں ہے،دنیا کے بدلتے حالات اور تجارت کا خیال رکھتے ہوئے کرنسی کی قدرکبھی کبھی گرائی جاتی ہے،اس کے باوجود کرنسی کی قدر کم ہوتی ہے تو تشویش میں اضافہ ضرور ہوتا ہے،آج دنیا جس دور سے گزر رہی ہے اور جوعالمی حالات ہیں،اس میں یہ تشویش فطری ہے کہ ہمارے روپے کی قدر کم کیوں ہورہی ہے؟ روپیے کی قدر اس حد تک گرجانا کہ ایک ڈالر کے مقابلے 86 روپے ہو جانا تشویش کی بات ہے،یہ روپے کی قدر میں اب تک کی سب سے بڑی گراوٹ اور کمی ہے،بدقسمتی سے موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیاں نہ صرف ناقص ہیں بلکہ ان میں مستقبل کےلئے کوئی واضح حکمت عملی نظر نہیں آتی،معاشی اصلاحات کو صرف دعوؤں تک محدود رکھا گیا ہے اورعملی اقدامات میں شفافیت کی بڑی اور واضح کمی ہے،روپے کی گرتی ہوئی قدر اور افراط زر کے سنگین مسائل کے باوجود حکومت کی توجہ صرف انتخابی سیاست پرمرکوزرہی ہے،نجی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے بجائے حکومتی اقدامات نے مزید غیر یقینی کی کیفیت پیدا کی ہے،مالیاتی اصلاحات کے بغیر ملک کی معیشت کو مستحکم کرنا ممکن نہیں ہے،اس کے علاوہ صارفین کے اخراجات کو بڑھانے کے لئے ٹیکس ڈھانچے میں تبدیلی اور کاروباری ماحول کو بہتر بنانا بھی ناگزیر ہے،ہندوستانی معیشت اس وقت ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے،روپے کی گرتی ہوئی قدر افراط زر کی بلند شرح اور معیشت کی سست رفتار ترقی ایسے مسائل ہیں، جنہیں صرف مؤثر اور جامع پالیسیوں کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے،اپوزیشن میں بیٹھی کانگرس پارٹی نے دعوی کیا ہے کہ مودی حکومت کی نامناسب پالیسیوں کی وجہ سے ہندوستان میں سرمایہ کاروں کا اعتمادختم ہوتا جا رہا ہے،مودی حکومت عرصہ دراز سے یہ دعوی کرتی آرہی ہے کہ وہ کاروباری افراد کی سرگرمیوں کو بہتر بنانے کی خواہاں ہے،مرکزی حکومت کا یہ بھی دعوی رہا ہے کہ ہندوستان میں کاروبار یا بزنس کرنے والوں سے متعلق امور میں آسانی پیدا کی جائے گی لیکن ایک دہے کے دوران اس سلسلے میں کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے،ہم دیکھ رہے ہیں کہ صرف پرائیویٹ انویسٹمنٹ سے متعلق امور میں ہی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں،جس کی وجہ سے دوسرے افراد کے لئے مشکلات اور مسائل پیدا ہوتے جا رہے ہیں،جے رام رمیش نے اس سلسلے میں محاصل جی ایس ٹی، اور انکم ٹیکس کا تذکرہ کیا اورکہا کہ ٹیکس ٹریریزم ،ہندوستان کی خوشحالی کےلئے ایک بڑا خطرہ بن گیا ہے،اس کے علاوہ بزنس کرنے والوں کے لئے اس سے مشکلات بھی پیدا ہوتی جا رہی ہیں، 10 برسوں کے دوران جی ڈی پی رینج میں 20 تا 25 فیصد کی کمی ہوئی ہے ،17.5لاکھ ہندوستانیوں نے ایک دہے سے زائد عرصے کے دوران دوسرے ملک کی شہریت حاصل کر لی ہے، 2022 اور 2025 کے دوران تخمینا21 ہزار 300 ڈالر ملین نائرس، ہندوستان سے چلے گئے،اس طرح کے واقعات کی تین وجوہات ہیں،جی ایس ٹی کا پیچیدہ طریقہ کار بھی اس میں شامل ہے،رمیش نے مزید دعوی کیا کہ حکومت کی نامناسب پالیسیوں کی وجہ سے مسائل اور مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور بڑے دولت مند ہندوستان چھوڑ چکے ہیں،مشاہروں میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے ہندوستان کی نمو میں کمی آتی جارہی ہے،وزارت زراعت کے ڈیٹا کے مطابق جب یوپی اے برسراقتدارتھی،ایگریکلچر لیبر کے لئے حقیقی مشاہرے میں 6.8 فیصد ہر سال اضافہ ہوتا رہا،مودی حکومت نے اسے کم کردیا اور اب یہ 1.3 فیصد ہو کررہ گیاہے،اب جبکہ26 ۔2025 کا مرکزی بجٹ عنقریب پیش کیا جانے والا ہے حکومت کو چاہئے کہ وہ نقصانات کی تلافی کےلئے قابل لحاظ اقدامات اور تبدیلیاں عمل میں لائیں۔
اگرحکومت نے فوری طور پر اقتصادی اصلاحات پر توجہ نہ دی تو ترقی کا یہ سست روی کا سفر مزید طویل ہوسکتا ہے،اگر حقیقت میں ہندوستانی معیشت کو پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ہے تو اسے بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے،خاص طور پر مزدوروں کی حالت، چھوٹے کاروباری اداروں کی حمایت اور پیداوار کے شعبے میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی ضرورت ہے،اس پس منظر میں معاشی اصلاحات کی ضرورت اور اقتصادی پالیسیوں کا درست سمت میں ہونے کا سوال مزید اہم ہو جاتا ہے،ان حالات میں مودی حکومت کو اپنے خوابوں کی حقیقت کوتسلیم کرتے ہوئے ایک نئی حکمت عملی اپنانا ہوگی،جس میں حقیقی ترقی کی راہیں ہموار ہو سکےاورمعیشت میں عوام کی شمولیت یقینی بنائی جا سکے،ملک کی معاشی حالت پر توجہ نہیں دی گئی اورخلوص دل کے ساتھ اسکی بہتری کےلئے کام نہیں کیاگیا تو آنے والے دنوں میں حالات مزید بدتر ہونگے،سوال یہ ہے کہ کیا مودی حکومت اس پر سنجیدگی سے غورکرے گی اور اسطرح کے سنگین مسائل کے حل کےلئے مخلص ہوکر کام کرے گی؟سوال یہ بھی ہے کہ سنگین اور بنیادی مسائل کے حل کےلئے اس حکومت کے پاس کون سا پلان ہے؟اورمسائل کے حل کےلئے اب تک اس حکومت نے کیا کام کیاہے؟کیا حکومت کے پاس نااہلی و ناکامی کے سوا اور کچھ نہیں ہے؟
*(مضمون نگار،معروف صحافی اور کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)*
sarfarazahmedqasmi@gmail.com
> ویب سائٹ:
🖼 Photo from Chahat Muhammad Qasmi