دیوبند کا سفر اور کئی اہم شخصیات سے ملاقات
چاہت محمد قریشی قاسمی
ہمارے خاص دوست، ماہنامہ صدائے حق گنگوہ کے مدیرِ محترم مفتی ساجد کھجناوری کی معیت میں ہمارا چہار رکنی قافلہ شہر دیوبند کے اندر داخل ہوا تو سب سے پہلے مکتبۃ النور کے مالک مولانا بدرالاسلام قاسمی کے یہاں حاضری ہوئی، موصوف نے ابھی 25/دسمبر 2024 میں اپنے والد محترم مولانا محمداسلام قاسمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ(ولادت: 1954ء، وفات: 2023ء) پر ایک کامیاب سیمینار منعقدکیا تھا، جس میں انہوں نے چھ کتابوں کا اجرا کرکے ایک ہونہار مؤلف اور لائق فرزند ہونے کاعملی پیغام بھی جاری کیا ،مولانا محترم سےچوں کہ ہمارےدیرینہ تعلقات ہیں تو ہم ان کی قابلیت کو کافی عرصہ سے جانتے ہیں، مولانا ایک کامیاب تاجر ہونےکے ساتھ ساتھ بہترین معلم اور زود نویس اھل قلم بھی ہیں، تقریب رونمائی کی کامیابی اور کتابوں کی شاندارطباعت پر ہم نے ان کو مبارکباد پیش کی۔ اوراپنی دوسری منزل وقف دارالعلوم کی جانب روانہ ہوگئے، جہاں آج کے ہمارے خاص کرم فرما محترم المقام مولانا ڈاکٹر محمدشکیب قاسمی ہماری آمد سے باخبر تھے بلکہ پرتکلف ظہرانہ بھی ڈاکٹر صاحب نے ہی تیار کرا رکھا تھا۔
وقف دارالعلوم دیوبند کے مہمان خانے کی جدید عمارت میں ہم پہنچے ہی تھے کہ اچانک ایک خوبصورت، خوش لباس اور دیدہ زیب نوجوان عالمِ دین تشریف لائے، سلام کے بعد سب کے ساتھ معانقہ ہوا، بعدِ ازاں مہمان خانے کے خوبصورت ڈرائنگ روم میں ماڈرن قسم کے صوفوں پر سبھی بیٹھ گئے۔ یہ نوواردشخص ہمارے میزبان، ڈاکٹر شکیب قاسمی ہی تھے، موصوف ایک ایسے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں جو علمِ دین کی خدمت کے لیے بہت مشہور ہے اور اپنی جدا گانہ ایک تاریخ رکھتا ہے۔ بڑی شہرت کے حامل اعلی خاندان کا اعزاز و اکرام اپنی جگہ مسلم ہے، لیکن اس سے بھی قطع نظر ڈاکٹر محمد شکیب قاسمی نے اپنی ایک الگ پہچان بنائی ہے، جنہوں نے اپنی ذہانت، فہم و فراست، محنت اور لگن سے وقف دارالعلوم دیوبند کی تعلیمی اور تعمیری ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور آج ان کی کاوشوں اور کوششوں سے وقف دارالعلوم دیوبند ؒتیزی سے ترقیات کے منازل طے کر رہا ہے۔
ڈاکٹر شکیب قاسمی نے درسِ نظامی کی سندِ فراغت دارالعلوم دیوبند سے حاصل کی۔ بعد ازاں آپ نے جامعہ ازہر، قاہرہ (مصر) کا رخ کیا اور وہاں سے اسلامی علوم میں مہارت حاصل کی۔ مزید برآں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملیشیا سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی تکمیل کی، جس کے بعد انہوں نے وقف دارالعلوم دیوبند میں اپنی خدمات کی ابتدا کی، جہاں اعلی اخلاق، حسن کردار، محنت، لگن، ذہانت اور کوششوں سے عوام و خواص، طلبہ اور اساتذہ کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔
ان کے ایک شاگرد کے بقول موصوف قرآن کریم کے ترجمہ تفسیراور مشکات شریف کا نہایت مؤثر درس دیتے ہیں، نیز حجۃ الاسلام اکیڈمی میں ان کے محاضرات بھی بہت مقبول ہیں، تو دوسری جانب انتظام و اہتمام میں بہت ہی حسن و خوبی کے ساتھ ذمہ داریاں نبھاتے ہیں، دارالعلوم وقف دیوبند کی بہت خوبصورت دلکش اور دیدہ زیب نئی تعمیرات ان کی ذہانت و فطانت اور ذوق تعمیر کا شاہجہانی ثبوت ہیں، جب کہ پورے ادارے میں صفائی ستھرائی ان کی نظافت پسندی کی گواہی دیتی ہے۔
دوران ملاقات بہت شائستہ، سلجھی ہوئی اور بے تکلف گفتگو میں انہوں نے مدارس کے متعلق حکومت کی ریشہ دوانیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ حکومت 16 سال سے کم عمر کےبچوں کی بیسک تعلیم کو بہانہ بنا کر مدارس میں دراندازی کا ارادہ رکھتی ہے، اس لئے مدارس کو عصری تعلیم سے جوڑنا ناگزیر ہے، لہذا دارالعلوم وقف کو بی ایس سی بورڈ سے منسلک کرنے کی تیاریاں زوروں پر ہیں، جس کے لئے بہت جلد ایک عمارت بھی الگ سے تعمیر کی جائے گی، اسی چیز کو لیکرکھانے کےدوران بھی تبادلہ خیال جاری رہا، جس میں لذت کام و دہن کے ساتھ ساتھ لذت روح و جگر کا بھی سامان ہوتا رہا ، جس میں کئی حضرات نے حصہ لیا، بہرحال اگر یہ ممکن ہو جاتا ہے تو یہ دیگر مدارس کے لئے بھی بہترین رہنمائی ثابت ہوگی۔
ملاقات کے بعد بندہ نےجو تاثر لیا وہ کچھ اس طرح ہے کہ محترم ڈاکٹر شکیب قاسمی ایک اعلی اخلاق، حسنِ کردار،شائستہ مزاج، ہنس مکھ، عصری علوم سے آراستہ، دور اندیش، زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور تکلف بر طرف مزاج کے حامل ایک زیرک اور متواضع انسان ہیں۔
نیز یہاں پر اپنے ہم درس و ہم سبق رہے محترم مفتی نوشاد نوری صاحب کا تذکرہ کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں، جو دارالعلوم وقف دیوبند کے ایک ذی استعداد، نوجوان، متحرک اور قابل احترام استاد ہیں، جوعربی زبان و ادب کے فروغ کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔ آپ کی شخصیت علمی و ادبی میدان میں ایک روشن مثال ہے، آپ کی کئی تصانیف منظر عام پر آ چکی ہیں، جن میں تعلیم الانشاء” اور تعلیم النحو بھی شامل ہیں، آپ کے علمی خطبات اور محاضرات مختلف مواقع پر پیش کیے جاتے ہیں، جو یوٹیوب کی زینت بھی بنے ہوئے ہیں، ہم نے ان سے اپنی ویب سائٹ اردو مضمون ڈاٹ کام ( urdumazmoon.com ) کے متعلق اہم مشورہ بھی کیا ، خیر ان سے ملاقات کرکے دل مسرور و شاداں ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان کو مزید ترقیات سے نوازے۔ یہیں پر مولانا عبداللہ سلمان ریاض قاسمی ، مولانا نثار احمد قاسمی اور مولانا اسعد پرتاپگڑھی سے پہلی دفعہ ملاقات کا شرف حاصل ہوا حالانکہ اس سے پہلے ان میں سے کئی حضرات بذریعہ مضامین بندے سے غائبانہ متعارف تھے، یہ حضرات بھی بڑے خوش فکر ، زندہ دل اور علم دوست محسوس ہوئے۔
اس کے بعد ہم اپنے تیسرے مرحلہ میں داخل ہوئے جہاں ہم نے مفتی انوار خان قاسمی بستوی سے ملاقات کرکے روح کو فرحت بخشی، چونکہ محترم بہت ہی قابل اور مستند عالم دین ہونے کے ساتھ استاد محترم بحر العلوم حضرت مولانا نعمت اللہ اعظمی صاحب دامت برکاتہم کے خاص شاگرد ہیں اورحضرت سے محبت کا یہ عالم ہے کہ اپنی اکیڈمی کے مین گیٹ کا نام باب نعمت رکھا ہے، نیز کئی زبانوں کے ماہر، عربی انگلش اور اردو کے شاندار ٹرانسلیٹر ہیں، انہوں نے بہت سی کتابوں کا دوسری زبانوں میں ترجمہ کیا ہے، موصوف دیوبند کے اندر ایک شاندار اکیڈمی تعمیر کر رہے ہیں، جس سے اہل ذوق کو بہت سی امیدیں وابستہ ہیں، نیز مستقبل قریب میں ایسے افراد پر ایک سیمینار کا ارادہ بھی رکھتے ہیں جو بڑے ہونے کے بعد گمنام ہوگئے اور ان پر کوئی خاص قلمی کام نہ ہوسکا، جس میں سر فہرست شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی اور علامہ بلیاوی جیسے افراد شامل ہیں۔ موصوف کی اکیڈمی دیکھی جس میں منعقد ہونے والے پروگرام کےلئے پیشگی دعوت دے کر آپ نے ہمیں رخصت کیا۔ حاصل کلام یہ کہ بہت سی صلاحیتوں کے باوجود ان کی سادہ شخصیت اھل فکر کو ان کے قریب اور ان سے متاثر کرنے کے لئے کافی ہے۔ اللہ ان کو کامیابی عطا فرمائے۔
بعد ازاں ہم مادر علمی دارالعلوم دیوبند پہنچے جہاں ہم نے ’’مختصر تاریخ دارالعلوم دیوبند‘‘ کے مصنف اور ویب ایڈیٹر دارالعلوم مفتی محمد اللہ خلیلی صاحب سے ملاقات کی، ان سے میری یہ پہلی شفاہی گفتگو تھی، اگرچہ محترم مجھ سے غائبانہ پہلے ہی متعارف تھے، جب ہم نے اپنی ویب سائٹ اردو مضمون ٹاٹ کام کا ذکر ان سے کیا تو بتایا کہ میں اپنے کمپیوٹر پر پہلے ہی اسے دیکھ چکا ہوں، جس کے بعد انہوں نے ویب سائٹ کھول کر دکھائی اور اپنے اہم مشوروں سے نوازا۔
اخیر میں حضرت الاستاد مولانا شوکت علی بستوی استاد دارالعلوم دیوبند کی عیادت کرکے ہم اپنے وطن گنگوہ کی جانب واپس ہوئے۔ ارادہ تھا کہ اپنے بعض اساتذہ کرام اور کچھ مزید علمی احباب سے ملیں گےلیکن مفتی ساجد صاحب اور دوسرے رفقائے سفر کو کسی تقریب میں جانا تھا اس لئےمزید ملاقاتوں کو ملتوی کرکے جلدی ہی واپسی کی راہ لی۔