سنو سنو !!
جھاڑو
(ناصرالدین مظاہری)
جھاڑو کو فارسی میں خاک روبہ، عربی میں مکنسہ اور جھاڑو والے کو فارسی میں خاک روب اور عربی میں کناس بولتے ہیں، جھاڑو دینا اور جھاڑو پھیرنا میں بڑا فرق ہے ، گھروں میں جھاڑو دی جاتی ہے اور گھروں پر جھاڑو پھیری جاتی ہے۔جھاڑو اپنی ذات میں بڑا مسکین واقع ہوا ہے، یہ نہ ہو تو گھر گندے ، گلیاں گندی، نالیاں گندی بلکہ شیر کے شہر گندے، ہمارے بھارت میں نانی کی کہاوتوں میں جھاڑو بھی بہت بدنام ہے ، جھاڑو لگایا بھی جاتا ہے اور ہلکی پھلکی غلطیوں پر جھاڑو سے مارا بھی جاتا یے، ہر دور میں جھاڑو کی ضرورت اور اہمیت تسلیم کی گئی ہے۔
میں نے بچپن میں اپنے ہی گھر میں سنا تھا کہ رات میں جھاڑو لگانا منع ہے ،یہ بھی بکثرت سننے میں آیا کہ جھاڑو کو اللہ تعالی نے اس لئے سب سے ذلیل کام سپرد فرمایا کیونکہ نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالنے کے لئے جب لکڑیاں جمع کرکے آگ لگائی تو جھاڑو کی لکڑی نے سب سے پہلے آگ پکڑی ،اسی کی پاداش میں اللہ تعالی نے جھاڑو کو یہ ذلیل ترین کام سپرد فرمایا۔ یہ بات سراسر غلط ہے ، جو چیز قرآن و حدیث سے ثابت نہ ہو وہ قابل رد ہے ، ایسی واہیات باتیں آج بھی ہمارے معاشرہ میں رائج ہیں۔
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے اغلاط العوام میں لکھاہے کہ یہ جو مشہور ہے کہ رات میں یا عصر بعد جھاڑو نہیں لگانی چاہئے یہ غلط ہے شریعت میں ایسا کچھ نہیں ہے ، ہاں البتہ بعض بزرگوں کی کتابوں میں پڑھاہے کہ جھاڑو لگانے کے بعد جو گرد و غبار ہوتا ہے اس کو دروازے کے پاس اوٹ میں یا قالین اٹھاکر اس کے نیچے کردینا غلط یے، یہ بھی درست ہے کہ جھاڑو کو لٹا کر نہ رکھیں اور الٹا نہ رکھیں کہ بہرحال یہ چیز اچھی معلوم نہیں ہوتی البتہ جواز اور عدم جواز کی بحث نہیں کی جارہی ہے۔
ایک صاحب کو دیکھا کہ کھانا کھانے کے بعد جھاڑو کی ایک سینک نکالی اور توڑ کر دانتوں میں خلال کرنا شروع کردیا یہ بات بھلے ہی جائز ہو لیکن سچی بات یہ ہے کہ پاک و پاک باز انسان ہرگز ایسی حرکتوں اور مناظر کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے ۔
بعض بریلوی حضرات کی تحریرات میں اتنا ضرور پڑھاہے کہ
” بزرگانِ دِین رحمۃُ اللہ علیہم نے رات میں جھاڑو نکالنے ( لگانے ) کو تنگدستی اور غربت آنے کا سبب لکھا ہے۔ ( سنی بہشتی زیور ، ص600ماخوذاً ) البتہ رات کو جھاڑو نکالنا جائز ہے۔” (ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2023)
جھاڑو لگانا کتنا باعث برکت ہوسکتا ہے اس واقعہ سے اندازہ کیجیے کہ مسجد نبوی میں ایک بڑھیا رہتی تھی ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مسجد میں نہیں پایا تو اس کی بابت پوچھا لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ بڑھیا تو رات کو فوت ہو گئی تھی اس لیے ہم لوگوں نے اپ کے راحت و ارام میں خلل ڈالنا مناسب نہیں سمجھا اور رات ہی کو اس کی نماز جنازہ پڑھنے کے بعد تجہیز و تکفین اور تدفین کر دی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اطلاع دینی چاہیے تھی مجھے اس کی قبر بتاؤ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بڑھیا کی قبر پر تشریف لے گئے نماز جنازہ پٹھی اور اس کے لیے دعائے مغفرت کی۔(بخاری )