مسنون تعزیت اور ہمارا غلط رویہ
چاہت محمد قریشی قاسمی
جب کسی شخص پر مصائب، پریشانی اور مشکل حالات آتے ہیں، یا کسی کا قریبی عزیز، اور پیارا اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے تو اس شخص پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں اور وہ شخص حزن و ملال اور رنج و الم کی تصویر بن جاتا ہے، کبھی کبھی تو حال سے بے حال، مجنون اور دیوانے جیسی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اسی لئے اس غمزدہ کی غمخواری اور حزن و ملال میں ڈوبے شخص کی حوصلہ افزائی اور صبر جمیل کی تلقین نیز آخرت میں اجر جزیل کی بشارت کے لئے شریعت مطہرہ نے تعزیت کو مسنون قرار دیا ہے جس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے کسی مصیبت زدہ کی تعزیت کی تو اس کے لئے مصیبت زدہ کے برابر ثواب ہے۔ (ترمذی)
نیز ابن ماجہ شریف میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا جو مومن اپنے بھائی کی مصیبت کے وقت اس کی تعزیت کرے گا ، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن عزت وشرف کا لباس پہنائیں گے۔
ان دو احادیث کے علاوہ بھی تعذیت کی فضیلت نبی کریمﷺ کے اقوال و افعال سے ثابت ہے۔
جب کسی کی تعزیت کے لئے جائیں تو اس بات کا پوری طرح خیال رکھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے مصیبت زدہ مغموم شخص کو نرمی، محبت، اپنائیت اور پیار سے تسلی دیں، صبر جمیل کی تلقین کریں اور آخرت میں اجر جزیل کی بشارت سنائیں خاص طور سے نبی کریمﷺ، صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور بزرگان دین نے جس طرح مصائب پر صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا ہے اس کے واقعات سناکر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں صبر و استقامت کی تلقین کریں جیسا کہ نبی کریمﷺ نے مصیبت کے وقت اپنی پیاری بیٹی کے لئے ان کے لخت جگر کے انتقال کے موقع پر یہ الفاظ ارشاد فرمائے تھے إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ ، وَلَهُ مَا أَعْطَى ، وَكُلَّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُّسَمًّى، فَاصْبِرْ وَاحْتَسِبْ
ترجمہ: یقیناً اللہ ہی کا ہے جو اس نے لے لیا، اور جو اس نے عطا کیا وہ بھی اسی کا ہے، ہر چیز اس کے پاس لکھے ہوئے ایک مقررہ وقت تک کے لیے ہے، اس لیے سو تم صبر کرو اور ثواب کی امید رکھو۔
لیکن افسوس صد افسوس آج ہمارا رویہ اور انداز بدل گیا ہے جس چیز کو اللہ نے دل جوئی کے لئے بنایا تھا وہی دل شکنی کا سبب بن گئی ہے، جس چیز کو حزن و الم دور کرنے کے لئے بنایا تھا وہی غم بڑھانے کا سبب بن گئی ہے، ہم نے اس مسنون تعزیت کا انداز بدل دیا اور ایسے انداز میں تعزیت کرنے لگے ہیں کہ غمزدہ شخص کا اس سے غم مزید بڑھ جاتا ہے اور وہ بے چارہ اپنے آپ کو ایک مجرم تصور کرنے لگتا ہے، کبھی کبھی تو اس سے ملاقاتیوں سے بھی وحشت ہونے لگتی ہے اور وہ ملنے والوں سے ڈرنے لگتا ہے کیوں کہ یہ ملاقاتی اس کا غم ہلکا کرنے کی بجائے مزید بڑھا دیتے ہیں اور فون کرنے والے تو اس سے بھی برے ثابت ہوتے ہیں۔
اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب اہلیہ مرحومہ کا انتقال ہوا یہ وہ وقت تھا جب مجھ پر اور میرے اہل خانہ پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا اور ہم سب مغموم و ملول تھے اس وقت اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ ہمارے عوام تو عوام بہت سے خواص کی تعزیت بھی صبر و استققامت کی تلقین اور تسلی کی بجائے غم کا سبب بنتی ہے، مثلا ایک بات تو تقریبا آنے والے سبھی حضرات کہتے تھے کہ اگر مریضہ کو فلاں جگہ دکھا دیا جاتا تو بچ جاتی یا آپ نے فلاں غلطی کی اگر اس طرح کرتے تو بچ جاتی وغیرہ وغیرہ جس سے اپنی غلطی کا احساس شدید سے شدید تر ہوتا چلا جاتا تھا اور میں اپنے آپ کو مجرم تصور کرنے لگتا تھا، مجھے لگتا کہ میری غلطی کی وجہ سے میری عزیز از جان بیوی مجھے چھوڑ کر چلی گئی اور میرے بچوں کے سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا لہذا یہ باتیں غم، حزن و ملال میں اضافہ کا سبب بن جاتی تھیں، اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا جب تک کئی مہینے بعد میں نے رمضان کے ختم قرآن کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے اس طرف توجہ نہیں دلائی اور لوگوں سے کہا کہ کسی کے مرنے اور دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اس طرح کی بات کہنے والے گویا کہ موت کے مقررہ وقت کا انکار کر رہے ہیں کہ جس کو اللہ مارنا چاہتا ہے اس کو فلاں ڈاکٹر بچا لیتا ہے یا کسی بڑے ہاسپٹل میں پہنچ کر وہ بچ جاتا ہے، یاد رکھیں ایسا بالکل ممکن نہیں ہے کہ جس کی موت جس وقت، جہاں اور جس طرح اللہ نے لکھ دی ہے وہ آکر ہی رہے گی، اس کو نہ کوئی روک سکتا ہے اور نہ ہی اس کو اس کے وقت سے کوئی ٹال سکتا ہے اور رہی غلطیاں تو جب کوئی کام بگڑتا ہے یا مصیبت آتی ہے تو اس میں اپنی غلطیاں اور معصیتیں ہی کار فرما ہوتی ہیں۔ لیکن ایسے غم کے موقع پر مصیبت زدہ کی غلطیاں شمار کرا کر اس کو مزید مصیبت میں ڈالنا اور غم میں ڈبو دینا بے موقع اور بے محل ہے جس سے غم اور حزن و ملال ہلکا ہونے کی بجائے بڑھ جاتا ہے حالانکہ مسنون تعزیت غم ہلکا کرنے اور حزن و ملا دور کرنے کے لئے ہے نہ کہ غم بڑھانے کے لئے۔
تعذیت کا کیا انداز ہونا چاہئے اور اس کا مسنون طریقہ کیسا ہونا چاہئے، یہ ہم نے اوپر مختصرا ذکر کردیا ہے لیکن اب ہم اہلیہ مرحومہ کے انتقال کے وقت اپنے ملول دل کو مزید ملول اور غمزدہ ماحول کو بہت زیادہ غمزدہ کرنے والے غلط انداز میں تعزیت کے چند واقعات مثال کے طور پر ذکر کرنا چاہتے ہیں تاکہ قارئین کو اس سے کچھ سبق حاصل ہو اور سبھی حضرات اس میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
تعزیت ایک مسنون عمل ہے، ایک عبادت ہے، ایک بندہ کا دوسرے بندے پر حق ہے، یہ حسن سلوک ہے جو ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ کرتا ہے، اس سے مصیبت زدہ کی مصیبت کم تو نہیں ہوتی البتہ اس کو مصیبت کے وقت کچھ حوصلہ مل جاتا ہے، پریشان حال مغموم شخص کا غم کچھ ہلکا ضرور ہوجاتا ہے اس لئے سبھی لوگوں کو چاہئے کہ تعزیت ضرور کریں اور بوقت تعزیت نرمی کا سلوک کریں، اپنائیت کا اظہار کریں، صبر جمیل کی تلقین کریں، اجر جزیل کی بشارتیں سنائیں اور جہاں تک ہوسکے ایسی باتوں سے گریز کریں جن سے مصیبت زدہ کی مصیبت بڑھ جائے، اس کا غم زیادہ ہوجائے، اس کی مشکلوں اور پریشانیوں میں اضافہ ہو جائے لیکن کیا کریں ہر چیز میں حد سے تجاوز کر جانا ہماری عادت سی بن گئی ہے اس لئے تعزیت جیسی عظیم سنت کو بھی ہم نے نہیں بخشا ہے اور جانے ان جانے میں ہم مصیبت زدہ مغموم کا غم ہلکا کرنے کی بجائے اور زیادہ کر دیتے ہیں، ہمارے ساتھ اہلیہ کے انتقال کا پرملال سانحہ پیش آیا تو ہمیں نت نئے تجربات ہوئے اور ہم نے لوگوں کے مختلف رویے اور الگ الگ انداز کو دیکھا بہت سے زخم اب بھی تازہ ہیں، بہت سی باتیں نہ چاہتے ہوئے بھی اب تک بھول نہیں پائے ہیں لہذا تعزیت کے چند واقعات ہم بطور مثال لکھ دیتے ہیں۔
1۔ ایک مفتی صاحب سے میرا بہت ہی خاص تعلق ہے، ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے، صاحب علم بھی ہیں اور صاحب نسبت بھی، میں ان کو صالح اور مصلح بھی تصور کرتا ہوں لیکن اہلیہ مرحومہ کے انتقال کے بعد قبرستان ہی میں بوقت تدفین تو ملاقات ہوئی تھی بعد ازاں وہ تعزیت کے لئے تشریف نہیں لاسکے ممکن ہے کچھ عذر ہو، میں ان سے ناراض نہیں ہوں لیکن صحیح بات یہی ہے کہ مجھے اس وقت ان کی بہت زیادہ ضرورت تھی، میرے ان سے گہرے تعلقات تھے، میں نے ان کو اپنا بڑا بھی مانا تھا، وہ میرے مزاج شناس بھی تھے، میں ان کو اپنے دل کی بات کہنا بھی چاہتا تھا تاکہ دل کچھ ہلکا ہو۔
نیز ان کے تعزیت کرنے سے میرا غم ہلکا بھی ضرور ہوسکتا تھا، ان کے تشریف لانے سے میرے چہرے پر مسکراہٹ آسکتی تھی خواہ عارضی ہوتی حتی کہ ایک مرتبہ کی آمد سے بھی بہت سکون میسر آجاتا اور جس طرح کے ان سے میرے تعلقات تھے ان کو کئی مرتبہ بلکہ بار بار میری تعذیت کے لئے تشریف لانی چاہئے تھی لیکن تشریف لانے اور تعزیت کے لئے آنے کی بجائے انہوں نے کسی صاحب کے ذریعہ کہلا بھیجا کہ مبتلائے مصیبت اپنا محاسبہ کریں کہ آخر یہ واقعہ میرے ساتھ ہی کیوں پیش آیا ؟ ان کی اس بات سے مجھے بہت تکلیف پہنچی تھی، میرا غم بہت ہی زیادہ بڑھ گیا تھا، میں ہر وقت اپنا محاسبہ کرتا رہتا، روز گھنٹوں پڑا سوچتا رہتا، تفکرات کے سمندر میں غرق ہوجاتا، اپنے کئے ہوئے گناہوں پر نظر کرتا تو سمندر کے جھاگ کے برابر نظر آتے، لگتا تھا یہ میری پکڑ ہے، میرے گناہوں کی وجہ سے میری عزیز از جان اہلیہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی ہے، میرے ہی گناہوں کی وجہ سے میرے نھنے نھنے بچوں کے سر سے مشفق ماں کا سایا اٹھ گیا ہے، بہر حال یہ تو اللہ رب العزت ہی کو معلوم ہے کہ وہ پکڑ تھی یا امتحان لیکن پکڑ کی اللہ غفور رحیم سے امید نہیں رکھتا ہوں اور آزمائش کے میں لائق نہیں ہوں بہر حال کچھ بھی ہو لیکن یہ بات کہنا اس وقت مفتی صاحب کے بالکل شایان شان نہ تھا، اگرچہ میں معترف ہوں کہ میں گناہ گار ہوں سراپا خطاکار ہوں لیکن تب بھی کسی مصیبت زدہ کو مصیبت کے وقت ایسی بات نہیں کہنی چاہئے چونکہ تعزیت کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ آدمی نرمی، محبت، اپنائیت سے ملاقات کرکے صبر جمیل اور اجر جزیل کی تلقین کرے، جیسا کہ ہم نے مضمون کے شروع میں عرض کیا ہے، نیز حضرت مفتی صاحب تو بڑے آدمی ہیں میں ان کے متعلق اس طرح کا تصور بھی نہیں کر سکتا البتہ میرا ناقص خیال ہے کہ بوقت تعذیت اس طرح کی بات سے ایک تو سوئے ظن کا اظہار ہوتا ہے کہ گویا ایسی بات کرنے والے لوگ مصیبت زدہ کو گناہ گار سمجھ کر اللہ کی پکڑ کا مستحق گردانتے ہیں دوسرے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو گناہگار ہی نہیں سمجھتے یعنی ان کو لگتا ہے کہ دوسروں پر آئے مصائب و آلام ان کی پکڑ کا سبب ہیں، جو ان کے گناہوں کی وجہ سے ہوئی ہے اور وہ لوگ جو خود مصائب و آلام سے محفوظ ہیں (اللہ ان کو ہمیشہ محفوظ رکھے) ان کے گناہگار نہ ہونے کی وجہ سے ہے، واللہ اعلم بالصواب۔
2۔ ایک اور مفتی صاحب جو کسی جامع مسجد کے امام و خطیب اور متعد تنظیموں کے صدر بھی ہیں، انہوں نے اہلیہ مرحومہ کے انتقال پرملال کے دوسرے روز برائے تعذیت فون کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آپ کو اب تو اہلیہ کی زیادہ ضرورت تھی ابھی وہ رخصت ہوگئی، وہ ابھی تو بچوں کی پرورش کرتی، آپ اکیلے کیسے بچے پالیں گے؟ سب کچھ کیسے ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ، یہ ایسی باتیں ہیں جو مسنون تعزیت کے برخلاف ہیں اور ایسی باتوں سے غم ہلکا ہونے کی بجائے مزید بڑھ جاتا ہے لہذا ان سے ضرور بچنا چاہئے۔ لوگ ترس کھانے کے لئے رحم دلی کے نام پر اس طرح کے الفاظ زبان سے نکالتے ہیں جو غمگین کو مزید غم بڑھا دیتے ہین، پریشان حال کو اور زیادہ پریشان کردیتے ہیں اور مصیبت زدہ کی مصیبت میں اضافہ کا سبب بن جاتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ مسنون تعزیت میں سنت کے مطابق احتیاط سے بات کریں اور سوچ سمجھ کر الفاظ منہ سے نکالیں۔
3۔ تعزیت کے تیسرے دل خراش واقعہ پر آپ بھی سر دُھنتے رہ جائیں گے اور کف افسوس ملتے ہوئے نہ تھکیں گے۔
ایک تیسرے مفتی صاحب میرے بہت خاص دوست ہیں، جو صحاح ستہ میں علاوہ بخاری کے شاید سب ہی کتابیں پڑھا چکے ہیں، فون کرکے مذاقا فرمانے لگے، اب تو فرصت ہی فرصت ہے؟ اب تو تمہیں آزادی ہے؟ کوئی روک ٹوک بھی باقی نہیں رہی اب تو ملاقات کے لئے آجائیں۔ ان کی اس بات سے انتہائی تکلیف پہنچی تھی اور ان باتوں نے میرے غم میں بے انتہا اضافہ کردیا تھا، گو موصوف کے لئے یہ ایک مذاق تھا لیکن ان کے اس مذاق سے مجھ مصیبت زدہ پر کیا گذری تھی میں اس کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنا سکتا۔
یہ چند واقعات علما کرام کی تعزیت کے بطور مثال ذکر کئے گئے ہیں وہ بھی اس لئے کہ ہم نصیحت حاصل کریں اور کسی کی تکلیف کا سبب نہ بنیں۔ نیز آپ غور کیجئے کہ خواص کا یہ حال ہے تو عوام کا کیا حال ہوگا؟