دیوبند کی مختصرحاضری اوریادگارلمحات
محمدساجدکُھجناوریمدیرماہ نامہ صداۓ حق گنگوہ
( آج سے ایک سال پہلے 27/ نومبر 2023 کو قلم بند کی گئی داستان سفر)
اپنی دیرینہ خواہش کے باوجود یادوں کی نگری ” دیوبند ” حاضری کا اتفاق کم ہی ہوتا ہے ، جبکہ دیوبند گنگوہ کی مسافت بھی چالیس پینتالیس کلومیٹر سے زیادہ نہیں ہے مگراپنی بے ہنگم مصروفیات اور کام سے کام رکھنے کی عادت کے سبب کہیں آنے جانے کیلۓ کئی بارسوچنا پڑتا ہے۔
اس کے باوصف دیوبند ایک ایسا مرکزعقیدت ہے جہاں کی حاضری کا شوق کبھی پورا نہیں ہوتا۔جس کی بنیادی وجہ مادرعلمی دارالعلوم دیوبند اوروہاں کےاپنے اساتذۀ ذی شان ہیں جن کے سایہ میں بیتے اپنی طالب علمی کے وہ دس سال ہیں جنھیں اپنی حیات عزیز کا قیتمی سرمایہ سمجھتا ہوں ، آج اگر کسی بھی حیثیت سے ہلکی پھلکی اپنی کوئی شناخت ہے یا قلم وکتاب سے براۓ نام ہی سہی کچھ تعلق ہے تووہ دیوبند کا فیضان ہے جس کے چشمۀ صافی سے حسب توفیق استفادہ رہا ہے والحمدللہ علی ذالک۔
کل 26 /نومبر 2023 اتوار کی شام ” ہیراگارڈن ” دیوبند میں حضرة الأستاذمولاناعبدالخالق سنبھلی مرحوم سابق استادحدیث ونائب مہتمم دارالعلوم دیوبند کے بیٹے عزیزی محمدزبیرسلمہ کے عقدمسنون
کے بعد دعوت ولیمہ کی تقریب تھی جس میں شرکت کیلۓ برادرعزیز مفتی عزیرعبدالخالق سنبھلی مدرس مفتاح العلوم جلال آباد نے ازراہ تعلق بندۀ ناچیزکو بھی دعوت نامہ بھیج کرکچھ رفقا کی معیت میں حاضری کا پابند کررکھاتھا، مع ھذا ہمارے ایک مشفق دوست قاری محمدامجد قاسمی ان دنوں ریاض سے دیوبند آۓ ہوۓ ہیں جن سے علیک سلیک کا وعدہ بھی مؤخرہورہا تھا اس لۓ موقعہ کو غنیمت جانتے ہوۓ اپنے دوسرے احباب جناب قاری محمدطالب ہریانوی اور مولانامحمدادریس رشیدی ندوی اساتذۀ جامعہ اشرف العلوم رشیدی کے ہمراہ عصر سے ذرا پہلےدیوبند کیلۓ رخت سفر باندھ لیا ، عصر کی نماز قصبہ نانوتہ میں اداکرلی تھی ، چنانچہ ایک گھنٹے کے بعد ہم لوگ دیوبند میں تھے ۔
چوں کہ تین چارروز پہلے ہی مشفقم مولانامفتی عمران اللہ قاسمی زیدمجدھم استاذ دارالعلوم دیوبند کافون آیاتھا کہ اگردیوبند آنا ہوا تو ملاقات کی کوئی سبیل ضرور نکالنا اس لۓ بندہ نے سہولت کی خاطردیوبند سے پہلے ہی ایک عدد کال کے ذریعہ اپنا نظام بتاکرمولانا سے مغرب کے بعد کا وقت لے لیا تھا ، بنابریں احباب کا مشورہ ہوا کہ نماز مغرب چھتہ مسجد میں اداکرکے آپ کے گھرپردستک دی جاۓ چنانچہ یہی ارادہ تھا لیکن افریقی منزل قدیم کے دروازہ پر جیسے ہی پہنچے تو معلوم ہوا کہ استاذمکرم بحرالعلوم حضرت مولانانعمت اللہ اعظمی دامت برکاتھم سردروازہ اپنے حجرہ میں تشریف رکھتے ہیں ، حضرة الأستاذ سے ملاقات ہوۓ یوں بھی ایک زمانہ گزرگیاتھا ،سوچا کیوں نہ زیارت کرکے ڈھیرساری دعائیں لے لیں ،دروازہ کھلاہواتھا ہم لوگ اشارہ ملتے ہی حاضرخدمت ہوۓتو اس وقت غالبا آپ کچھ وظائف واوراد پڑھ رہے تھے ، لیکن سلام وتعارف ہوا تو مہربان سے ہوگۓ بلکہ اشرف العلوم کے احوال وکوائف بھی دریافت کۓ ، کچھ توقف کرکےبندہ نے حضرت کی اس تحریر کا تذکرہ بھی کیا جو چندروز پہلے ہی آپ نے فلسطین کے شاہینوں کو مخاطب کرکے مرتب فرمائی تھی تو چہرہ روشن ہوگیا بولے کیا ہماری یہ تحریر وہاں تک پہنچ گئی ہوگی ؟۔ الجزیرہ وغیرہ پر تو کچھ نہیں ہے ۔
میں نے کہا کہ مولانافضل الرحمان قاسمی صاحب پریس سکریٹری جمعیة علماء ہند نے اسے عربی اور انگریزی وغیرہ کے قالب میں ڈھال کر آگے بڑھادیا ہے جو ان شاءاللہ اپنے اہداف تک پہنچے گی ، جس وقت یہ گفتگو جاری تھی حضرت پر ایک خاص کیفیت طاری تھی یوں محسوس ہورہا تھا کہ آپ کا دل مشرق وسطی میں اٹکا ہوا ہے اور قلب مضطر سے آپ وہاں کے شاہینوں کو ظفریابی کی دعا دے رہے ہیں ، پھر بندہ نے آپ کے ترجمۀ قرآن کا ذکر کیا تو فرمایا کہ اب لوگوں میں قدردانی کا جذبہ محسوس نہیں ہوتا حقیقت یہ ہے کہ آپ کے قرب میں بیٹھنے اور علمی باتیں سننے کا مزہ ہی الگ تھا بہرکیف رخصتی کی اجازت چاہی تو فرمایا کہ” شرح معانی الآثار ” کو ضرور دیکھنا اس سے فائدہ ہوگا محبت اور اخلاص سے بھری یہ نصیحت سننے کے بعد ہم لوگ افریقی منزل کے اوپری حصہ کی طرف بڑھ گۓ جہاں مولانا مفتی عمران اللہ قاسمی صاحب ہمارے منتظر تھے ۔
مفتی عمران اللہ صاحب کے دردولت پر حاضرہوۓ تو آپ نے چاۓ وغیرہ سے ضیافت فرمائی اور دلچسپی کے کئی ایک موضوعات پر اپنی معلومات سے شادکام فرمایا ، آپ تدریس کے ساتھ قلمی کاموں میں بھی اشتغال رکھتے ہیں سردست ” نگارشات مولاناسیدمحمدمیاں دیوبندی ” ترتیب وتھذیب کے مرحلہ میں ہے جبکہ” تذکرہ مولاناعبدالباری فرنگی محلی” زیورطبع سے آراستہ ہوکر شائقین کے ہاتھوں میں ہے ، اس موقعہ پر آپ نے” احاطہ دارالعلوم دیوبند میں اکابرعلماء کےپیش کردہ خطبات کا دوجلدوں پر مشتمل مجموعہ بنام ” خطبات دارالعلوم دیوبند ” ماہ نامہ صداۓ حق گنگوہ ” میں تعارف وتبصرہ لکھنے کیلۓ پیش فرمایا جس کی یقین دہانی کے بعد ہم لوگوں نے باہر کی راہ لی ۔
افریقی منزل سے نکلے تو قاری محمدامجد قاسمی دیوبند میں اپنے مکان پر لے گۓ اور مدینہ منورہ کی کھجوروں اور مغزیات سے ضیافت کی یہاں قاری صاحب سے کچھ دیر باتیں کرکے عشا کی نماز پڑھی اور پھر ہیرا گارڈن کا رخ کرلیا جہاں عشائیہ تناول کرنا تھا پہنچے تو اچھا خاصا رش نظرآیا ، دارالعلوم کے اساتذۀ کرام کے علاوہ دوسرے مدارس ومقامات کے بہت سے معزز اہل علم پروگرام کی رونق تھے ، یہاں حضرت مولانامحمدسلمان بجنوری نقشبندی ، حضرت مولانامفتی عبداللہ معروفی ، حضرت مولانامفتی محمدمزمل مظفرنگری ، حضرت مولانامفتی محمدسلمان منصورپوری ، حضرت مولاناخضرمحمدکشمیری حضرت مولاناقاری آفتاب عالم امروہوی حضرت مولانامحمدعثمان غنی ہاؤڑوی حضرت مولانامفتی فہیم الدین بجنوری حضرت مولانامفتی اشرف عباس قاسمی حضرت مولاناعارف جمیل مبارک پوری حضرت مولاناتوحیدعالم بجنوری حضرت مولانامفتی محمداللہ خلیلی وغیرھم تشریف رکھتے تھے جن میں بعض سے مصافحہ اور معانقہ بھی ہوا ، اسی طرح مکرمی مولاناندیم الواجدی مولانامفتی ریاست علی رام پوری مفتی عزیرسنبھلی ، مولانامفتی رئیس احمددہرادون ، مولاناقاری اجمل بلندشہری ، قاری محمداعظم قاسمی مفتی بلال احمد دیوبندی ، مفتی ذکوان احمدبجنوری ، مولانایادالہی میرٹھی مولاناحذیفہ نجم تھانوی مولاناقاری شعیب احمدمحمدپوری اور قاری محمدانعام تھانوی سے بھی ملاقات رہی۔
اس تقریب مذکور میں شرکت کے بہانے بہت سے نۓ پرانے احباب واکابرسے ملاقات ہوگئی ، دل چاہتا تھا کہ دونوں دارالعلوم سے وابستہ اپنے بعض بے تکلف دوستوں سے بھی رابطہ کرکے شفاہی ملاقات کی جاۓ مگر لیلاۓ شب کی زلفیں دراز ہواچاہتی تھیں اس لۓ دوبارہ حاضری کی تمنا دل میں بساۓ گنگوہ کیلۓ اپنی کار میں بیٹھ گۓ ۔
محمدساجدکُھجناوری
مدیرماہ نامہ صداۓ حق گنگوہ