کتابیں عاریت پر دینے کا فن
تحریر: احمد خالد توفیق
ترجمہ: نایاب حسن
مجھے نہیں لگتا کہ میرے والد نے اپنی زندگی میں کسی کو عاریتاً کوئی کتاب دی ہوگی، اگر کبھی انھوں نے ایسا کیا،تو اس وجہ سے کہ متعلقہ کتاب کی ان کے پاس دو کاپیاں تھیں۔ان کا یہ ماننا تھا کہ کتابیں کسی انسان کی نہایت خاص چیزوں کے مانند ہوتی ہیں،جیسے جامہ ہاے دروں،بیوی اور شناختی کارڈ؛کہ یہ صرف ایک شخص سے خاص ہوتے ہیں،آپ انھیں کسی اور کو نہیں دے سکتے،الا یہ کہ آپ کا دماغ چل گیا ہو۔ ٹھیک اسی طرح ان کا ماننا یہ بھی تھا کہ بچے دنیا میں اس لیے آتے ہیں کہ اپنے باپ کے ذریعے نہایت محنت سے جمع کی گئی دولت کو ضائع کریں اور اس دولت میں کتابیں بھی شامل ہیں۔
مجھے ان کی ان باتوں کی سنجیدگی اور صداقت کا اندازہ تب ہوا،جب ایک دن پتا چلا کہ ان کی چھوڑی ہوئی لائبریری ،جس میں کچھ کتابوں کا میں نے بھی اضافہ کیا تھا، کے کئی شیلف کتابیں عاریت پر دینے کی وجہ سے کلیتاً خالی ہوچکے ہیں۔
اکثر لوگ لفظ ’استعارۃ (عاریتاً لینا)‘ اور ’أخذ (لے لینا، ہتھیا لینا)‘ کو ایک ہی سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک ان میں فرق کرنا محض ایک قسم کا لسانی اضافہ ہے، جس کی کوئی ضرورت نہیں ۔ایسا ہی ایک شخص ایک دن مجھ سے ملنے آتا ہے اور لائبریری میں گھستے ہی اچانک اس کی آنکھیں ایک نئے خیال سے چمک اٹھتی ہیں،اب وہ یک دَم سے دانش ور بننے کا فیصلہ کرلیتا ہے؛چنانچہ وہ ریک میں رکھی کتابوں کی قطاروں کے بیچ چکر لگاتا ہے اور یکے بعد دیگرے کئی کتابیں اٹھاتا ہے… یکلخت اسے لاطینی امریکی ادب، نوبل انعام کی تاریخ، موساد کے انتظامی ڈھانچے ، مالے میں چاول کی کاشت کے طریقوں اور سائبرنیٹکس وغیرہ سے متعلق کتابوں سے دلچسپی پیدا ہوجاتی ہے… بالآخر اسے پلاسٹک کے تھیلے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ شاید بازار سے سبزی خریدنے کے لیے اسے تھیلا چاہیے،مگر تھیلے کے مطالبے کے ساتھ ہی وہ کہتا ہے:
’آپ فکر نہ کریں، میں کتابیں بہت حفاظت سے رکھتا ہوں‘۔
میری لائبریری سے اس گراں مایہ خزانے کو اٹھاکر لے جاتے اور بوجھ سے ہانپتے ہوئے وہ کئی بار یہ جملہ دہراتا ہے۔
اسے کتابیں لے گئے ایک ماہ…دو ماہ گزر گئے ،مگر اب تک اس نے ایک بھی کتاب واپس نہیں کی۔ میں اسے فون کرتا ہوں اور مارے شرم کے صرف اتنا دریافت کرتا ہوں کہ اسے وہ کتابیں پسند آئیں یا نہیں ؟ میرا سوال سن کر پہلے تو وہ حیران ہوتا ہے: کون سی کتابیں؟مگر جلد ہی اسے یاد آجاتا ہے اور پھر وہ خود ترحمی پر اتر آتا ہے کہ اسے تو کھانے پینے کا بھی وقت نہیں ملتا،پڑھنے کا وقت کہاں سے ملے گا! البتہ وہ مجھے یقین دلاتا ہے کہ ’ آپ کی کتابیں واپس مل جائیں گی،کسی اندیشے کا شکار نہ ہوں،میں کتابیں بہت حفاظت سے رکھتا ہوں‘۔
اب تو تین مہینے گزر گئے… اب ان کتابوں پر گویا اس کا پیدایشی حق ہو چکا ہے اور میں اس کے لیے گویا زہریلا بچھو بن گیا ہوں…ایک دن وہ ملتا ہے،تو میں اس سے اپنے ماتھے کا پسینہ خشک کرتے ہوئے پوچھتا ہوں :ان کتابوں کا کیا ہوا؟ پہلے تووہ کھسیانی سی ہنسی ہنستا ہے اور ساتھ ہی ایک لمبی، طنزیہ، خشمگیں نظر سے میری طرف دیکھتا ہے اور کہتا ہے’ لوگوں کی طبیعتیں کتنی بدل گئی ہیں، وہ دوسرے انسانوں کو ذرا بھی برداشت نہیں کر سکتے‘۔
میں اس کے نفسیاتی سکون کو ٹھیس پہنچانے اور اپنی کتابوں کے لیے اس قدر باؤلا ہونے پر اپنے آپ سے بہت شرمندہ ہوتا ہوں؛کیوں کہ وہ پہلے ہی لامتناہی مسائل میں گھرا ہوا ہے اور ایسے معمولی کاموں کے لیے اس کے پاس وقت ہی کہاں ہے!
معاملے کی انتہا تب ہوتی ہے جب میں اس کی نظر میں ایک بدمعاش اور ضدی شخص میں بدل جاتا ہوں، جومسلسل ایک ایسی چیز کا مطالبہ کررہا ہے، جو اس کی ہے ہی نہیں۔پھر بھی میرا وہ ’شریف دوست‘ میرے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی کوشش کرتا ہے اور میرے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتا؛ لیکن میں اس پر کتابیں واپس کرنے کے لیے بہت زیادہ دباؤ ڈالتا ہوں؛چنانچہ وہ مجھ پر پھٹ پڑتا ہے:
’یار! کتابیں ہی تو ہیں… کیا آپ چند کتابوں کی وجہ سے ہماری دوستی ختم کرنا چاہتے ہیں؟… سچ کہوں تو مجھے تو یاد بھی نہیں کہ میں نے آپ سے کوئی کتاب لی ہے اور نہ مجھے یہ پتا ہے کہ وہ کہاں ہے، مگر آپ اس کی وجہ سے میری زندگی جہنم بنانے پر تلے ہوئے ہیں!‘۔
اس طرح میں ایک تلخ سبق سیکھتا ہوں..کہ ایک متحمل مزاج انسان کے اعصاب پر ضرورت سے زیادہ دباؤ نہ ڈالو… میں بہت خوش قسمت ہوں کہ ایسے نہایت دانش مند اور برد بار لوگ میرے دوست ہیں۔
حال ہی میں میرا ایک اور دوست مجھ سے ملنے آیا، جو ایک دور دراز کے صحرائی علاقے میں ملازمت کرتا ہے۔ میرے اس دوست کا کتابیں عاریتاً لینے(ہتھیانے) والوں کی ایک دوسری قسم سے تعلق ہے… وہ لوگ جو قسمیں کھا کھاکر یقین دلاتے ہیں کہ انھوں نے آپ سے جو کتابیں عاریتاً لی تھیں، وہ واپس کر دی ہیں، مگر آپ کہتے ہیں کہ نہیں،تم نے واپس نہیں کی… اور چونکہ اس کا کوئی ثبوت بھی نہیں ہوتا اور آپ نے ان سے کوئی رسید بھی نہیں لی ہوتی ،تو بالآخر آپ کو اپنا غصہ پی کر خاموشی اختیار کرنا پڑتی ہے۔
میرے اس دوست نے تقریباً لجاجت آمیز لہجے میں کہا:
’چاہے تم کتابیں عاریتاً دینا پسند کرو یا نہیں،مگر مجھے کچھ اچھے ناول تمھیں دینے پڑیں گے،ورنہ تو میں خالی وقتوں میں بوریت سے مرہی جاؤں گا‘۔
مجھے اس کی حالت پر رحم آ گیا؛ چنانچہ میں نے اپنی لائبریری سے سر والٹر اسکاٹ کا ناول Ivanhoe نکالا، جس کا سائز تقریباً ایک چینی ٹیلی فون ڈائرکٹری کے برابر ہےاور اسے کہا کہ یہ ایک پرلطف ناول ہے اور اسے پسند آئے گا، اس کے ساتھ اس کا اچھا وقت گزرے گا۔
چھ ماہ بعد جب وہ واپس آیا، تو بیگ سے ناول نکالا ، مجھے دیدے پھاڑکر گھورنے لگا اور کہا:
’ابے،کیا تو نے اس ناول کے بارے میں سچ کہا تھا؟ لے ،اپنی ڈراؤنے خواب کی کہانی پکڑ.. میں نے اپنی زندگی کے سیاہ ترین گھنٹے اس کے ساتھ گزارے ہیں.. مجھے اس بہادر سپاہی سے کیا مطلب،جسے بادشاہ سے اپنی وفاداری کا امتحان دینا ہے اور کہانی ختم ہونے کو نہیں آتی…!‘۔
میں نے اس سے کہا:
’میں نے تمھیں جان بوجھ کر یہ ناول دیا تھا.. اگر میں تمھیں کوئی اچھا سا تفریحی ناول دے دیتا،تو وہ تین دن میں مکمل ہو جاتا، جبکہ اِس ملعون اور بورنگ ناول کو ختم کرنے کے لیے عمر قید کی سزا درکار ہے..مجھے پتا تھا کہ چھ ماہ میں تم اس کے سو صفحات سے زیادہ مکمل نہیں کر پاؤگے۔مزید یہ کہ مجھے خود بھی یہ ناول پسند نہیں اور اسے کھونے سے مجھے کوئی نقصان بھی نہیں ہوگا؛ اس لیے تمھیں تھما دیا تھا‘۔
بہرکیف اب صورتحال یہ ہے کہ میری لائبریری میں صرف Ivanhoe جیسی بورنگ، پژمردہ اور معمولی قسم کی کتابیں ہی رہ گئی ہیں ؛ اس لیے مجھے ایک قسم کا نفسیاتی سکون حاصل ہے، کہ اب کوئی مجھ سے کتاب مانگنے نہیں آتا۔
کیا آپ ویتنام میں ربڑ کی صنعت کے ارتقا کے حوالے سے کتابیں عاریتاً لینا چاہیں گے؟تشریف لائیے،آپ تو میرے دوست،میرے بھائی ہیں،میں یہ کتابیں آپ کو ضرور دوں گا!
(مصنف مشہور مصری ادیب ، فکشن نگار ،ڈراما نویس،اسکرین رائٹر، مترجم اور مضمون نویس ہیں، 2018میں انتقال ہوا ہے)