سات جنوری اور لکھنؤ کا ایک قدیم سفر اور اس کی یادیں
محمد نوشاد نوری قاسمی
07/01/2025
آج سات جنوری 2025 ہے، لکھنؤ کے لیے پا بہ رکاب ہوں، دیوبند میں جیسے ہی ٹرین پر سوار ہوا، انہی تاریخوں کے اپنے ایک پرانے سفر کی گہری یاد نے مجھے اپنی آغوش میں جکڑ لیا۔
آج سے ٹھیک 16 سال پہلے(2009) کی بات ہے،میں دار العلوم دیوبند میں عربی ادب کا طالب علم تھا، النادی العربی کے افتتاحی پروگرام کی تیاریاں زوروں پر تھیں، والد صاحب پر 4 / جنوری کو فالج کا حملہ ہوا تھا، اس خبر سے میرے اوسان خطا تھے، نہ دانہ نہ پانی، بس ایک آہ و بکا اور گریہ و زاری، میرے بڑے بھائی جناب ماسٹر محمد مختار عالم نوری صاحب میری ڈھارس بندھانے کی کوشش کر رہے تھے، اور سفر سے بھی روک رہے تھے، ساتھیوں کی ایک جماعت مستقل میرے ساتھ تھی، جو باصرار کھلانے پلانے اور غم گساری کے فریضے ادا کر رہی تھی، اگلے دن ساتھیوں کے اصرار پر دوپہر بارہ بجے، دستر خوان پر بیٹھا، ابھی پہلا لقمہ اٹھایا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بجی، میں گھبرا گیا، ایک روتی اور گھبراتی آواز نے یہ کہہ کر فون کاٹ دیا کہ “اگر آپ والد صاحب کو زندہ دیکھنا چاہتے ہیں تو بلاتاخیر ٹرین پکڑیں اور کسی کی بات نہ سنیں” ۔ یہ میری اہلیہ کی آواز تھی، میں نے اس کو ہاسپیٹل بھیجا تھا تاکہ وہ صحیح صورت حال کی اطلاع دے۔
اس کے بعد بے خودی کے عالم میں، میں نے مختصر سا سامان اٹھایا اور سہارنپور کی بس پکڑنے کے لیے کمرے سے بھاگ نکلا، میرے ساتھی جن میں مفتی محمد طیب قاسمی(استاذ حدیث جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت، کیرانہ شاملی) مولانا احمد اللہ موتیہاری شہید (سابق استاذ حدیث دارالعلوم رحمانیہ حیدرآباد)، اور جناب مولانا مظفر عالم صاحب دہلوی(استاذ وناظم تعلیمات دار العلوم نیمچ ایم پی ) اور دیگر کچھ ساتھی میرے پیچھے بھاگے، میری زبان بند تھی، کچھ کہنے کا یارا نہیں تھا، سڑک پر پہونچتے ہی بھاگ کر ایک بس پکڑی، ساتھیوں سے دعا کی درخواست کی، ساتھیوں نے بھی سہارنپور جانے کے لیے اصرار کیا، میں نے سب کو روک دیا، مفتی طیب گنگوہی صاحب سے کہا: بھائی! اب النادی کا پروگرام آپ کے حوالے، میں سہارنپور پہونچا، ٹھیک دس منٹ پہلے سہرسہ بہار جانے والی جن سیوا ایکسپریس، سہارنپور اسٹیشن سے نکل چکی تھی، غالبا اس کا وقت ایک بجے دن میں تھا ، کچھ تاخیر سے چل رہی تھی، میں دو بجے پہونچا جب وہ نکل چکی تھی۔ انکوائری آفس سے پتہ چلا کہ بہار کی طرف جانے والی ٹرین، اب رات میں ساڑھے آٹھ بجے ہے، میں اسٹیشن کے قریب ایک مسجد میں جاکر بیٹھ گیا، آنسو زار و قطار جاری تھے، دعا اور نماز میں مصروف تو ہوگیا مگر ضبط گریہ نہیں ہوسکا، بعد نماز عصر میں مصروف دعا تھا، ایک صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے : بیٹا کیا ہوا ہے؟ کیوں اتنا رو رہے ہو؟ میں نے حالات بتائے اور بتایا کہ ٹرین بھی نہیں ہے، انہوں نے کہا: ایک ٹرین ابھی آنے والی ہے، جو صبح لکھنؤ پہونچے گی، میں بھی اسی سے لکھنؤ جاؤں گا،یہ ٹرین صبح پانچ بجے لکھنؤ پہونچ جائے گی، وہاں سے کسی ٹرین سے بہار کی طرف چلے جانا، لکھنؤ میں میرے ماموں زاد بھائی جناب مفتی سیف الرحمان ندوی صاحب (جو اس وقت دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں عالمیت کے آخری سال میں تھے اور اب جامعہ رحمانی مونگیر میں باوقار استاذ ہیں) بھی میرے ساتھ شریک سفر ہونے والے تھے، وہ خود بھی بہت نڈھال تھے، والد صاحب مرحوم کو ان سے بڑی محبت تھی، انہیں صورت حال بتائی، ان کا بھی اصرار ہوا کہ جو ٹرین بھی لکھنؤ کے لیے پہلے آرہی ہے اسے پکڑ لیں، میں صبح ہی اسٹیشن پہونچ جاؤں گا، یہ ٹرین جو چھ تاریخ کی صبح پانچ یا چھ بجے پہونچنے والی تھی وہ دن کے دو بجے لکھنؤ پہونچی، میرا بھی حال خراب تھا اور مفتی سیف الرحمان صاحب بھی انتظار کرتے کرتے ، بخار کی زد میں آگئے تھے، اسٹیشن پر مفتی صاحب کے بھی چند ساتھی تھے جو ان کی ہم دردی میں ساتھ تھے، وہاں پہونچ کر ہم دونوں گلے لگ کر رونے لگے، انہوں نے خود کو ضبط کیا اور مجھے فورا کچھ کھانے پر اصرار کرنے لگے ، میں نے دو دن سے کچھ کھایا ہی نہیں تھا، کچھ کھانے کے بعد مفتی صاحب نے یہ تکلیف دہ خبر سنائی کہ یہاں سے بھی کوئی ٹرین اب بہار جانے والی نہیں ہے، مگر ایک ٹرین ہے جو چھ بجے لکھنؤ سے کھلے گی اور رات میں دس بجے گورکھپور پہونچ جائے گی، ہم کچھ مسافت اس طرح طے کرتے ہیں، صورت حال تو انتہائی خراب تھی، سخت سردی تھی مگر موسم کی سختی سے لاپروا ، ہم دونوں نے وہی ٹرین پکڑی ، یہ ٹرین دس بجے کے آس پاس گورکھپور پہونچی، معلوم ہوا کہ ایک ٹرین ایک بجے آنے والی ہے جو صبح آٹھ بجے کے قریب برونی یا سمستی پور پہونچ جائے گی، جیسے ہی رات کے ایک بجے، معلوم ہوا یہ ٹرین سات گھنٹے لیٹ ہے، اب یہ ٹرین صبح آٹھ بجے گورکھپور پہونچے گی، وہ سات جنوری کی رات تھی اور کیسی وحشت ناک تھی بیان سے باہر ہے، اندر سے والد صاحب کی بگڑتی صورت حال پورے وجود کو سلگائے ہوئے تھی اور باہر سے سخت ہواؤں کے جھونکے، لگ رہا تھا کہ ہمارے وجود کو ختم کرکے رکھ دیں گے، پلیٹ فارم پر، بے خودی کے عالم میں ہم دونوں بھائی بیٹھے ہوئے تھے، مفتی سیف الرحمان ندوی صاحب اپنی بیماری اور بخار کو بھول کر، میری ہمت بڑھانے اور خیال رکھنے میں مصروف تھے، جلد بازی میں ایک چادر بھی، میں ساتھ نہیں رکھ سکا تھا، مفتی صاحب نے اپنی چادر مجھے اوڑھا دی تھی، سچ یہ ہے کہ اس سفر میںں اگر وہ ساتھ نہ ہوتے تو شاید سفر کی طوالت، میری بے چینی اور بے سروسامانی، مجھے ہلاک ہی کر دیتی، اس سفر نے ان کی محبت اور حوصلہ مندی کا تازہ نقش قائم کردیا اور وقت کے ساتھ ان کی شخصیت کے کمالات سامنے آتے گئے
بڑی کرب اور بے چینی میں وہ رات گزاری، رات کے تین بجے کے قریب اگلے دن کی جن سیوا ایکسپریس گورکھپور آنے والی تھی، سوچا دو گھنٹے مزید انتظار کرلیں گے تو انتظار کا یہ جاں گسل مرحلہ شاید ختم ہو جائے گا، مگر جوں ہی تین بجے، اعلان ہوا یہ ٹرین بھی پانچ گھنٹے لیٹ ہے، ساری امیدوں پر پانی پھر گیا، اب صبح آٹھ بجے تک بیٹھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، رات دعا اور تلاوت قرآن میں گزاری، صبح آٹھ بجے تو ایک پلیٹ فارم پر جن سیوا تھی اور دوسرے پلیٹ فارم پر ایک بجے والی ٹرین تھی، ہم جن سیوا میں بیٹھے کہ یہ گھر تک جانے والی تھی، سیوان سے نکلے تھے کہ معلوم ہوا: سہرسہ کے ڈاکٹر نے والد صاحب کو پٹنہ پی ایم سی ایچ ریفر کردیا ہے، سہرسہ میں رشتے داروں اور علاقوں کے لوگوں میں صف ماتم بچھ گئی، لوگ سمجھ گئے کہ یہ آخری دیدار ہے، ایمبولینس سے والد صاحب کو پٹنہ لے جایا جارہا تھا، پانچ بجے ہم لوگ حاجی پور پہونچے، وہاں سے بذریعہ بس پٹنہ اسٹیشن کی جامع مسجد پہونچے ، اس طرح تین دنوں میں ہم صرف پٹنہ تک پہونچ سکے، اس مسجد میں ہمارے ایک رشتے دار جناب عبد الہادی صاحب مؤذن تھے اور جناب مولانا اکرام صاحب قاسمی امام تھے ، وہ بھی ہمارے اقارب میں تھے، اب دونوں اللہ کو پیارے ہوگئے، اللہ تعالیٰ دونوں کو جنت الفردوس نصیب فرمائے، انہوں نے بہت محبت سے اپنے گھر اتارا، ہمت دلائی، عبد الہادی صاحب کی اہلیہ میرے پیارے ماموں جان، میرے پیارے ماموں جان بول بول کر ، اپنی پریشانی کا اظہار کرنے لگی اور والد صاحب کو یاد کرنے لگی، ہم وہاں عشاء تک رہے، بعد نماز عشاء جناب عبد الہادی صاحب ہمیں پی ایم سی ایچ لے کر پہونچے، والد صاحب ایمرجنسی وارڈ کے آئی سی یو میں تھے، وہ غالبا بے ہوش تھے، سانس اکھڑی ہوئی تھی، بڑے بھائی دوا لینے باہر گئے ہوئے تھے، میرے چچازاد بھائی جناب مولانا سرفراز احمد مظاہری (المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد)، چچا زاد بھائی جناب فضیل احمد صاحب اور کچھ لوگ وہاں تھے، مولانا سرفراز صاحب نے والد صاحب کو میری آمد کی اطلاع دی، انہوں نے معمولی حرکت کی، میں اور مفتی سیف الرحمان ندوی صاحب ان کے دونوں طرف بیٹھ کر مصروف تلاوت ہوگئے، کچھ وقفے کے بعد انہوں نے ہمت کرکے اپنا ایک ہاتھ میری پیٹھ پر پھیرا مگر وہ جلد ہی نیچے گر گیا، بڑے بھائی تشریف لائے، جو بمشکل اپنی حالت کو ضبط کیے ہوئے تھے، میں انہیں کیا حوصلہ دے سکتا تھا، مجھے انہوں نے گلے لگایا اور پیٹھ تھپتھپا کر ہمت کی تلقین کی، آٹھ جنوری کی رات والد صاحب کے برابر میں گزری، ایک لمحے کے لیے الگ ہونا گوارہ نہیں تھا، میں ان کی شفقتوں اور تربیت کے انوکھے، پیارے اور مؤثر انداز میں گم سم تھا، ایک ایک بات یاد آرہی تھی۔
یہ تو معلوم نہیں کہ میری پیدائش پر انہوں نے کس طرح اپنی خوشی کا اظہار کیا تھا،
مگر یہ اچھی طرح یاد ہے کہ میرے حفظ کی شروعات پر کس طرح ان کا چہرہ کھل رہا تھا، وہ کس طرح اپنے دوستوں میں اس خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔
یہ بھی یاد ہے کہ کس طرح میں نے ایام حفظ میں ان سے کہہ دیا تھا کہ اب بعد نماز عصر مسجد میں فضائل اعمال میں پڑھوں گا، گاؤں کے لوگوں نے تعجب کیا مگر میں اپنی ضد پر قائم رہا اور یہ ذمے داری مجھ سے متعلق ہوگئی۔
یہ بھی یاد ہے کہ حفظ کی تکمیل پر، خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی کے ہاتھوں میری دستار بندی پر، وہ اپنی قسمت پر نازاں تھے۔
حفظ کے بعد جامعہ رحمانی مونگیر بھیجتے وقت ان کی یہ نصیحت کیسے بھلائی جاسکتی ہے کہ وہاں پہونچ کر جناب مولانا عبد الدیان صاحب رحمانی(اب حضرۃ الاستاذ بھی خلد آشیانی ہیں) کو میرا سلام عرض کرنا اور میرا یہ پیغام پہونچا دینا کہ مجھے کس طالب علم کے ساتھ کھانا کھانا چاہیے ، یہ آپ ہی متعین فرما دیجیے، اس طرح اچھی صحبت میسر ہوگی اور اس کے اثرات پڑیں گے، حضرت مولانا عبد الدیان صاحب نے اس انوکھی درخواست پر تعجب کیا اور مجھے داؤد بھائی (مفتی محمد داؤد صاحب قاسمی سہرساوی بانی مدرسہ اسلامیہ پانی پت) کے ساتھ کردیا۔
میری تراویح پر ان کا مچلنا اور پھولے نہ سمانا کیسے بھول سکتا ہوں۔
جامعہ رحمانی کے بعد میرا دار العلوم دیوبند آنے کے لیے اصرار، اور ان کا پے در پے انکار بھی نہیں بھول سکتا ہوں، جب میں نے انہیں اپنی ضد کے آگے بے بس کردیا تھا، انہیں کسی نے بتایا تھا کہ وہاں داخلہ مشکل سے ہوتا ہے، اس کا داخلہ نہیں ہوسکے گا، میں پوری قوت سے کہتا تھا کہ اگر امتحان کتاب کا ہوتا ہے تو میرا داخلہ ہوگا، مجھے کتاب پانی کی طرح یاد ہے، سب سے مشکل کتاب شرح مائۃ عامل مجھے زبانی یاد یے، بالآخر وہ راضی ہوگئے، داخلے کے لیے تہجد میں دعائیں کرتے تھے،
دار العلوم دیوبند میں داخلہ امتحان کے لیے روتے ہوئے رخصت کرنا اب تک یاد ہے، داخلہ ہوا اور پوزیشن کے ساتھ ہوا، خبر دی تو معلوم ہوا کہ خوشی سے چہرہ تمتما رہا ہے، گھر والوں کو جمع کیا، خوشی اور شکر کے ساتھ داخلے کی خبر سنائی۔
اسی سال بقرعید میں گھر آنے کے لیے کہا، میں نے صاف کہہ دیا، دیوبند چھوڑ کر گھر نہیں جاؤں گا ، اس بات پر ان کا مسکرانا یاد ہے۔
دیوبند کے زمانے میں ان کے نصیحت بھرے خطوط نہیں بھول سکتا ہوں۔
میری تعلیمی یکسوئی اور کامیابی پر ہمیشہ ان کا خوش ہونا یاد ہے، ، امتحانات میں اول پوزیشن کی خبر کے بعد، ہمیشہ ان کا یہ کہنا کہ یہ فخر کی بات نہیں شکر کی بات ہے، اس کا زیادہ تذکرہ مناسب نہیں، یہ پیاری نصیحت تو ہمیشہ یاد اور پیش نظر رہتی ہے۔
پھر ایسا ہوا کہ مجھے اپنی پوزیشن کی خبر دینے میں ہی شرم آنے لگی، انہیں کسی اور واسطے سے پوزیشن کی خبر ملتی۔
یہ بھی یاد ہے کہ پنجم عربی کے بعد گھر پہونچا اور بتایا کہ اب پورے قرآن مجید کا ترجمہ مکمل کرلیا، اب میں قرآن کی کسی بھی آیت کا ترجمہ کرسکتا ہوں ، اس بات پر انہیں یقین نہیں آیا، امتحان کی غرض سے چند مقامات کے ترجمے پوچھے اور حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے ترجمے سے ، میرا ترجمہ ملایا، میں نے ٹھیک ٹھیک ترجمہ کردیا اور ساتھ میں کچھ تشریحی باتیں بھی، اس بات پر ان کے چہروں کا چمک اٹھنا اب تک یاد ہے، اس کے بعد تراویح میں ہر روز تراویح کے بعد تفسیر کی مجلس منعقد کرنا اور اس میں قدرے فخر کے ساتھ، اپنے دوستوں کو جمع کرنا خوب یاد ہے،
ہائے ہم کہاں سے کہاں پہونچ گئے،
اور نہ جانے کتنی یادیں ہیں، جو اس وقت ذہن کے پردے پر گھومنے لگیں۔
انہی یادوں میں ، اپنے ابا کی شفقتوں، محبتوں، اپنائیوں اور سایہ عاطفت کی روشن یادوں میں وہ رات ہم نے بسر کی، آٹھ جنوری کی صبح دس بجے پٹنہ کے بڑے بڑے ڈاکٹروں کی ایک میٹنگ ہوئی، ایک ڈاکٹر صاحب جو مسلم تھے، میٹنگ کے بعد ہم سب بھائیوں سے مخاطب ہوئے ، انہوں نے قضا و قدر پر تقریر کی اور بتایا کہ علاج یہی یے ، آپ سب دعاؤوں میں اضافہ کردیں، ہم سمجھ گئے کہ ابا جان اب اپنی سانسیں پوری کر رہے ہیں ، تمام بھائی دعا اور تلاوت میں مصروف ہوگئے ، ظہر کی نماز وہیں پڑھی، خوب اہتمام سے دعا کی، اس کے بعد ہم سب بھائی آس پاس بیٹھ کر دعائیں کرنے لگے ، میں اور مفتی سیف الرحمان ندوی صاحب سورہ یس پڑھنے لگے ، فبشرہ بمغفرۃ وأجر کریم اور دوسری آیت سلام قولا من رب رحیم کو بار بار پڑھتے تھے، دل میں آرزو تھی کہ دنیا میں والد صاحب انہی آیتوں کو آخری بار سنیں، اللہ کے کرم کا کیا ٹھکانا ہے کہ فبشرہ بمغفرۃ وأجر کریم کو میں بار بار پڑھ رہا تھا کہ والد صاحب نے ایک ہچکی لی ، “اللہ” بولنے کی آواز سب نے سنی ، اس کے بعد اپنی جان جان آفریں کے حوالے کردی، یہی آیت آخری آواز تھی جو انہوں نے دنیا میں سنی، سارے بھائی وہیں نڈھال ہوگئے، پتہ نہیں کس چیز نے مجھے صبر دیا شاید اسی آیت نے کہ میں نے بھائیوں کو سنبھالا، انہیں ہمت دی, صبر کی تلقین کی، حالاں کہ سارے بھائیوں میں، سب سے زیادہ میری حالت ہی غیر تھی، میں نے محسوس کیا اب شفقت کا وہ شجر سایہ دار گر گیا ہے، جس کی ٹھنڈی چھاؤں میں ہم نے زندگی کے 24 ہنستے اور مسکراتے سال گزارے، اب وہ مکان بلا مکین ہوگیا، جس گھر میں ان کے رعب کا پہرا تھا، جس گھر میں ان کے تعلیم یافتہ دوستوں کا ہجوم رہتا تھا، جہاں ان کے وجود سے رحمت ہی رحمت تھی۔ وہ جمعرات کا دن تھا اور دس محرم کی تاریخ، اسی دن النادی کا پروگرام ہونا طے تھا، ساتھیوں کو جب یہ خبر ملی تو وہ سب بھی کافی پریشان یوگئے، ساتھیوں نے میرے غم میں اس مثالی انداز میں شرکت کی کہ پروگرام ملتوی کردیا، النادی کے دفتر اور دار الحدیث میں قرآن خوانی اور ایصال ثواب کا اہتمام کیا، اس کے لیے میں ہمیشہ اپنے ساتھیوں کا شکر گزار ریوں گا،
والد صاحب بذریعہ ایمبولینس گاؤں لائے گئے میں ان کی لاش کے پاس بیٹھ کر ان کے لیے مصروف دعا تھا، میرے اساتذہ اور ساتھی فون کر کر کے مجھے تعزیت مسنونہ پیش کر رہے تھے، اور اگلے دن بعد نماز جمعہ آبائی قبرستان میں مدفون کیے گئے، حضرت مولانا عبد المتین صاحب نعمانی رحمہ اللہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور اعلی علیین میں مقام کریم عطا فرمائے آمین یارب العالمین۔
سولہ سال کے بعد ٹھیک سات جنوری کو، آج میں لکھنؤ کی طرف محو سفر ہوں، دیوبند میں، پانچ بج کر پچاس منٹ پر جیسے ہی میں ٹرین میں بیٹھا ، اچانک خیال آیا کہ آہ آج سے سولہ سال قبل بھی انہی تاریخوں میں ایک سفر ہوا تھا، دیوبند سے پٹنہ جانے میں ہمیں تین دن لگ گئے تھے، شاید اللہ کو منظور تھا کہ والد صاحب کو اس بے کسی کی حالت میں دیکھنے کا دورانیہ کم سے کم رہے, لیکن اس سفر میں نہ تو جناب مفتی سیف الرحمان ندوی صاحب ساتھ ہیں اور نہ ہی وہ کرب اور بے چینی ہے، بس یادیں ہیں، جو درد انگیز بھی ہیں ، فکر انگیز بھی ہیں، پھولوں کی طرح شاداں وفرحاں بھی ، کانٹوں کی طرح غلطاں وپیچاں بھی۔
سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق، دل کی وہی تنہائی
اک لحظہ بہے آنسو، اک لحظہ ہنسی آئی
سیکھے ہیں نئے دل نے انداز شکیبائی
ہر درد محبت سے الجھا ہے غم ہستی
کیا کیا ہمیں یاد آیا جب یاد تری آئی
*ٹھہر اے درد کہ اب ضبط کا یارا نہ رہا*
آج 8/1/2025 صبح آٹھ بجے کے قریب سیدی مرشدی حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب دامت برکاتہم العالیہ سے واپسی کی اجازت لیتے ہوے وداعی ملاقات کے وقت جذبات اس قدر بے قابو ہو گئے کہ خود کو سنبھالنا مشکل ہو گیا۔
ہچکیوں کے ساتھ روتا دیکھ کر سیدی مرشدی نے کمال شفقت کے ساتھ ناچیز کے سر کو مبارک ہاتھوں میں تھام کر دم کیا اور مزید دعائیں دیتے ہوے یہ کہ کر رخصت کیا: اللہ سفر کو قبول فرمائے!۔
*عاجز نہایت شکر گزار ہے برادر گرامی جناب مفتی محمد نوشاد نوری صاحب کا* جن کے قصۂ الم و روداد غم نے درد کی لذت کو سوا کرنے میں نوکِ سوزن کا کردار ادا کیا۔
گذشتہ رات بارہ بجے کے قریب سرما کے لوازمات سے خود کو آزاد کرتے ہوے شب گذاری کی پوشاک صرف بنیان وتہبند میں سونے کے ارادے سے بستر پر بیٹھ کر جب رفیقِ گرامی کے حسین اسلوب وخوبصورت پیراہن میں سجی ہوئی حزیں یادوں کا دیدار کرنے لگا تو محسوس ہوا کہ یہ صرف بھائی مفتی نوشاد نوری صاحب کے دردِ تنہا کا اظہار نہیں ہے؛ بلکہ یہ تو ان کی طرح مجھ جیسے ان تمام دکھیاروں کے غمِ زمانہ کی ترجمانی جنہوں نے والدین میں سے کسی ایک یا……………۔
رات ہی دل کے ٹانکے ادھڑ چکے اور زخم کھل گیا تھا صبح جب حضرت مرشدی کی خدمت میں پہنچا تو ضبط کا یارا نہ رہا……
🤲🏻🤲🏻🤲🏻🤲🏻🤲🏻🤲🏻🤲🏻🤲🏻🤲🏻
رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ
رَبَّنَا اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابُ
آمین یارب العالمین
مفتی عبد الرشید قاسمی مظاہری
فیض منیر ایجوکیشن ٹرسٹ کالینا ممبئی
خادم خانقاہ حلیمیہ ممبئی