عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار،انصاف کی فراہمی کیسے ہو؟
سرفرازاحمدقاسمی حیدرآباد
رابطہ: 8099695186
ملک میں عدالتیں اس لیے قائم ہیں کہ اسکے ذریعے سماج کے دبے کچلے لوگوں،کمزوروں اور مظلوموں کو بروقت انصاف فراہم کیا جا سکے اور انہیں انصاف دلایا جا سکے،لیکن عدالتوں کے رہتے ہوئے سماج اورمعاشرے کو انصاف نہیں مل سکتا یا متاثرین انصاف سے محروم رہیں تو اسے نظام عدلیہ اور جمہوری نظام کی بڑی ناکامی ہی کہا جا سکتا ہے،انصاف کی فراہمی میں تاخیر،انصاف کا قتل اور اس سے انکار کے مترادف ہے،ایک کامیاب جمہوری اورمثالی نظام کے لئے یہ ضروری ہے کہ متاثرین کو بروقت انصاف فراہم کیا جائے،ملک میں فوری انصاف رسانی کا عمل ایک سنگین بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے، گذشتہ کئی برسوں سے لوگوں کو بروقت عدالتوں سے انصاف نہیں مل رہا ہے اورشاید اسی وجہ سے عدلیہ سے لوگوں کا اعتماد اور بھروسہ بہت حد تک ختم ہوتا جا رہا ہے،جویقینا تشویشناک اور افسوسناک ہے،اس وقت ملک کی مختلف عدالتوں جیسے ڈسٹرکٹ کورٹ،ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ وغیرہ جیسے اہم اداروں میں پانچ کروڑ 19 لاکھ سے زائد مقدمات عدالتوں میں زیر دوراں ہیں اورالتوا کا شکار ہیں،ان معاملات کے تصفیہ اوراسکے حل کے لئے کم ازکم 300 سال درکار ہوں گے وہ بھی اس صورت میں جب کہ ان کی سماعت تسلسل کے ساتھ ہوتی رہے،اتنی بڑی تعداد میں مقدمات کا زیر التوا رہنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ عدلیہ سے وابستہ افراد انصاف کے عمل کو یقینی بنانے کے تئیں حساس اور فکرمند نہیں ہیں،گذشتہ دنوں حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب نے لوک سبھا میں وقفہ سوالات کے دوران،ملک کی مختلف عدالتوں میں زیر دوراں مقدمات سے متعلق مرکزی وزیر قانون و انصاف ارجن رام میگھوال سے سوال کیا کہ ملک بھر کی عدالتوں میں اب تک کتنے مقدمات زیر دوراں ہیں؟ اراضیات سے متعلق کتنے مقدمات التوا کا شکار ہیں اور حکومت کی جانب سے ان مقدمات کی یکسوئی کےلئے اگر آپ نے فاسٹ ٹریک کے اقدامات کئے ہیں تو اسکی تفصیلات بتائی جائیں اگر نہیں تو اسکی وجوہات بتائی جائیں؟ اس پر مرکزی وزیر قانون و انصاف ارجن رام میگھوال نے نیشنل جوڈیشل ڈاٹا گرڈ کے حوالے سے بتایا کہ سپریم کورٹ میں 82922 مقدمات، ہائی کورٹس میں 62 لاکھ 28980 مقدمات،جبکہ ضلعی اور اس کے ذیلی عدالتوں میں 4کروڑ،56 لاکھ 17477 مقدمات زیرالتوا ہیں،مرکزی وزیر نے ایوان کو بتایا کہ عدالتوں میں زیر دوراں مقدمہ کی معلومات مرکزی سطح پر نہیں دیکھی جاتی ہیں زیر التوا مقدمات کو مقررہ مدت میں ختم کرنے کے لئے معاملہ عدلیہ کے اختیار میں ہے تاہم حکومت کی جانب سے عدلیہ کو ماحول فراہم کیا جا رہا ہے کہ وہ مقدمات کی تیزی کے ساتھ یکسوئی کریں اور زیر التوا مقدمات کو کم کریں،انھوں نے ایوان کو بتایاکہ “2011 کی مردم شماری کے مطابق آبادی کی بنیاد پر،جو کہ 1210.19 ملین تھی،اور سال 2024 میں سپریم کورٹ،ہائی کورٹس،ڈسٹرکٹ اور ماتحت عدالتوں میں ججوں کی منظورشدہ تعداد کے بارے میں دستیاب معلومات کے مطابق،ملک میں ججوں کی آبادی کا تناسب تقریباً 21 جج فی ملین آبادی کے برابر ہے،ہائی کورٹس میں ججوں کی تقرری کی تفصیلات بتاتے ہوئے،میگھوال نے کہا کہ 2024 میں،تازہ تقرریوں کی تعداد 34 تھی؛2023 میں یہ 110تھی؛ 2022 میں یہ 165 تھی،2021 میں یہ 120 تھی؛ 2020 میں یہ 66 تھی؛ اور 2019 میں یہ 81 تھا، سال2024 میں سپریم کورٹ میں تعینات ہونے والے ججوں کی تعداد چار تھی۔ 2023 میں،یہ 14 تھا؛ 2022 میں، یہ تین تھا؛ 2021 میں، یہ نو تھا؛اور 2019 میں، یہ 10 تھا۔ 2020 میں کوئی تقرری نہیں ہوئی تھی”
چند مہینے قبل آر ٹی آئی کی ایک رپورٹ میں یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا تھا کہ گذشتہ 30 سال سے ہندوستان کے کسی بھی ہائی کورٹ میں ججس کی مکمل تعداد دستیاب نہیں ہے،مرکزی وزارت انصاف نے تلنگانہ کے کتہ گوڑم کے رہنے والے حقوق انسانی کے ایک کارکن کو آر ٹی آئی کے تحت کئے گئے سوال پر یہ بات بتائی گئی،قانون کے طالب علم منی دیپ نے اس تعلق سے مرکزی وزارت قانون سے معلومات طلب کی تھیں، مرکزی محکمہ نے بتایا کہ یکم جنوری 2021 تک ملک میں 25 ہائی کورٹس میں 411 ججس کی جائیدادیں مخلوعہ ہیں،جبکہ ان ہائی کورٹس میں منظورہ تعداد 1079بتائی گئی ہے،ہائی کورٹ میں فی الوقت ججز کی تعداد 668 ہے،یہاں اس بات کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ 1991 سے ہی ججز کی مخلوعہ جائیدادوں میں اضافہ ہوتا رہا ہے،2001 میں ججس کی مخلوعہ جائیدادوں کی تعداد 99 تھی،جو 2011 میں بڑھ کر 286 ہو گئی جبکہ اس وقت یہ تعداد بالترتیب 647 اور 895 ہونی چاہیے تھی،انسانی حقوق کارکن نے بتایا کہ ہندوستان کے کسی بھی ہائی کورٹ میں فی الوقت ججس کا مکمل کورم موجود نہیں ہے اور تقریبا 30 سال سے یہی صورتحال برقرار ہے،الہ آباد ہائی کورٹ میں مخلوعہ جائیدادوں کی تعداد 64 بتائی گئی ہے،جبکہ کلکتہ ہائی کورٹ میں 36 ،پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں ججس کی 36 جائیدادیں مخلوعہ ہیں،انسانی حقوق کارکن نے مزید بتایا کہ ہائی کورٹس میں اگر ججس کی اتنی قلت پائی جاتی ہے توضلعی عدالت اورمجسٹریٹ کورٹ کا حال تو اس سے بھی برا ہوگا،پھر بروقت مقدمات کی یکسوئی میں یقینی طور پر تاخیر ہوگی،انہوں نے بتایا کہ مرکز ججس کی مخلوعہ جائیدادوں کو پر کرنے میں ناکام رہا ہے،جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں شمار ہوتا ہے،حقوق انسانی کے اس کارکن نے مزید بتایا کہ مقدمات کی عدم یکسوئی کی وجہ سے کمزور طبقات کے تقریبا پانچ لاکھ زیر دریافت قیدی ملک کی مختلف جیلوں میں بندہیں،ہرسال اس تعداد میں ایک لاکھ سے زیادہ کا اضافہ ہورہاہے،تقریبا ڈیڑھ لاکھ لوگ ایک برس سے زائد عرصے سے مقید ہیں،جبکہ 80 ہزار سے زائدلوگ پانچ برس سے زیادہ عرصے سےجیلوں میں بند ہیں اور ہر سال اس تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے،انہوں نے بتایا کہ کئی مواقعوں پر ایسی شکایات ملتی ہیں کہ زیر دریافت قیدیوں کو جھوٹے مقدمات میں ماخوذ کیا گیا ہے اور یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے،انہوں نے کہا کہ کئی زیر دریافت قیدی ضمانتوں کے لئے پیسوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے بھی جیلوں میں ہوتے ہیں،انہوں نے کہا کہ ملک کی کئی عدالتوں میں حتی کہ ٹائلٹ تک کی مناسب سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں، ان سہولتوں کی عاجلانہ فراہمی کےلئے اقدامات کئے جانے چاہئے،اور حکومت کو مکمل منظورہ تعداد کے مطابق ججوں کا تقرر کرناچاہئے”
چند ماہ پہلے کی یہ رپورٹ ایک بار پھرسے پڑھئے اور غور کیجئے کہ ملک کے عدالتی نظام میں کس قدر خامیاں اور کمیاں ہیں اور کیسے عدالتی نظام کو اصلاح کی ضرورت ہے؟ کیا اصلاح کے بغیر بروقت انصاف کی فراہمی ممکن ہے؟
ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ میں ایسے مقدمات کا ذکر بھی ملتا ہے کہ انصاف کے حصول کی آس لگائے افراد،عدالتوں کا چکر کاٹتے کاٹتے اکثر اس دار فانی سے رخصت ہو گئے اور ان کے مقدمات عدالت میں زیر غور ہی رہے،عدالتوں میں ججوں کی خالی جگہوں کو پر کرنے کےلئے سنجیدہ اور فوری اقدام وقت کا اہم تقاضا ہے،لیکن اس ضمن میں ارباب حل و عقد کا رویہ بہت افسوسناک ہے، ججس کی تقرری کا عمل بھی مقدمات کو فیصل کرنے کے عمل میں برتی جانے والی سست رفتاری کی مانند ہے، جنوری 2024 کے ڈیٹا کے مطابق ملک کے ہائی کورٹس میں ججوں کی مقررہ تعداد 1114 ہے،جس میں 783 جج ہی اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں،331 ججوں کی بحالی کے عمل میں اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے،ججوں کی تقرری کے تئیں یہ غیر سنجیدگی ظاہر کرتی ہے کہ ارباب اقتدار صرف زبانی طور پر انصاف کی فراہمی کے دعوے کرتے ہیں،ان دعوؤں کو عملی شکل دینے کے لیے جو اقدام لازمی ہے،انھیں بروئے کار لانے کی مطلق پرواہ نہیں ہے،اقتدار کے علاوہ نوکر شاہی بھی اس عمل کو متاثر کرتی ہے،ججوں کی تقرری کی فائلیں کئی کئی مہینوں تک ان افسروں کی میز پر پڑی رہتی ہیں جن کی دستخط کے بغیر یہ عمل مکمل نہیں ہو سکتا، مختلف سطحوں پر عدلیہ سے وابستہ افراد کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ اپنی منصبی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں وہ غیر جانبداری اور دیانتداری کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ انصاف کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے لیکن اگر اس اصول کا تجزیہ معاصر عدالتی نظام کے تناظر میں لیا جائے تو بعض دفعہ حالات اس کے برعکس نظر آتے ہیں،گذشتہ ایک دہائی کے دوران فسطائیت نے جس طرح مختلف عوامی شعبوں پر اپنے اثرات ظاہر کیے ہیں اس سے عدالتی نظام بھی مبرا نہیں رہا ہے حالیہ برسوں میں کئی ایسی مثالیں سامنے آئی ہیں جن میں ججوں کے ذریعے کسی خاص مذہب یا طبقہ کی حمایت کی گئی،ججوں کا یہ رویہ انصاف کے عمل کو بہرحال متاثر کرتا ہے اور اس کے سبب جائز فریق انصاف سے محروم رہ جاتے ہیں،عدالتوں میں ججوں کی کمی کے علاوہ بعض ریاستوں میں ضلع اور ہائی کورٹ سطح پر موزوں انفراسٹرکچرکی کمی بھی معاملات کے زیر التوا رہنے کی ایک وجہ ہے یہ کمی اکثر مقدمات سے وابستہ فائلوں اور دیگر اہم دستاویزات کو محفوظ رکھنے اور عدالتوں میں بروقت انہیں پیش کرنے کے عمل کو متاثر کرتی ہے،اس کے علاوہ عدالتی ریکارڈ سے جج کی میز تک کسی مقدمے کی فائل کے پہنچنے کے عمل میں مختلف سطحوں پر جو ملازمین شامل ہوتے ہیں وہ بھی اکثر اپنے فرائض کی تکمیل میں اس ایمانداری کا مظاہرہ نہیں کرتے جو مقدمات کے بروقت فیصل ہونے کے لیے ناگزیر ہے،عدالتی حکام اور کورٹ کے ملازمین کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ معاملات کی نوعیت کیا ہے اور کسی معاملے کو تادیر زیر التوا رکھنے سے انصاف کا عمل کس حد تک متاثر ہوگا،جو اصولی تصورات عدلیہ سے وابستہ ہیں اگر انہیں پوری دیانتداری کے ساتھ روبہ عمل لایا جائے تو انصاف کی فراہمی کے عمل کو بڑی حد تک بروقت نتیجہ خیز بنایا جا سکتا ہے۔لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ سیاسی رسوخ یا مالی تونگری اس عمل کو پیچیدہ بنا دیتی ہے اس کے سبب ان حساس معاملات میں بھی فوری انصاف کی راہ طویل ہو جاتی ہے جو کسی فرد تنظیم یا جماعت کے کیریئر اور مستقبل سے وابستہ ہوتے ہیں ہندوستان کے عدالتی نظام میں جو اصلاحات فوری درکار ہیں ان میں سب سے ضروری یہ ہے کہ مقدمات کی نوعیت کے لحاظ سے ان کی سماعت کی فہرست ترتیب دی جائے،عدالت عظمی اور بعض ہائی کورٹ کے ججوں نے بھی اس پہلو پر زور دیا ہے لیکن اس کے باوجود اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ سیاسی اغراض یا مالی منفعت کا دباؤ صورتحال کو اس قدر پیچیدہ بنا دیتا ہے کہ نوعیت کے اعتبار سے اہم اور غیر اہم معاملات کی تفریق ختم ہوجاتی ہے، اس ضمن میں عمر خالد کی ضمانت اور سنبھل کی جامع مسجد کے سروے والے معاملات کی مثال ہی یہ ظاہر کر دیتی ہے کہ انصاف کی فراہمی کے عمل میں دیانتداری اور شفافیت کو یقینی بنانے کے تئیں عدلیہ سے وابستہ افراد کس حد تک سنجیدہ ہیں قانون کی رو سے ضمانت حق اور جیل استثنی ہے لیکن اس کے باوجود گذشتہ چار برسوں سے عمر خالد کی ضمانت کی عرضی پر سماعت نہیں ہو سکی ہے،اس کے برعکس جامع مسجد سنبھل کے سروے معاملے میں عدالت نے مثالی تیز رفتاری کا مظاہرہ کیا،اسی طریقے سے گیان واپی معاملے میں بھی حد سے زیادہ تیز رفتاری کا مظاہرہ کیا گیا،ان مثالوں کے علاوہ ایسی کئی دیگر مثالیں آسانی سے پیش کی جا سکتی ہیں جو انصاف کے عمل میں دیانتداری اور شفافیت کو متاثر کرتی ہیں،اس ضمن میں تازہ مثال سابق چیف جسٹس چندر چوڑ کے اس بیان سے بھی ملتی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ایودھیا تناظر میں فیصلہ کرنے کی قوت انہیں بھگوان نے عطا کی تھی،اس معاملے میں آستھاکے نام پر جس طرح قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ دیا گیا،وہ صریح طور پر انصاف کے عمل کو کمزور بناتا ہے،اس فیصلے میں آستھا کو انصاف پر ترجیح دینے والے ججوں کو اقتدار نے جس انداز میں نوازا وہ بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ انصاف کی فراہمی کے لئے عدالتیں اب اس حد تک خود مختار نہیں رہیں جن پر بلا چوں چرا اعتماد کر لیا جائے،ججوں کی کمی،انفراسٹرکچر کا فقدان، سیاسی دباؤ اور مذہبی بنیاد پر جانبداری والا رویہ انصاف کے عمل کو متاثر کرنے والے ایسے عوامل ہیں جو ہندوستانی عدلیہ کی مایوس کن سچائی بیان کرتے ہیں،ان عوامل میں اصلاح کے بغیر نہ تو انصاف کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی مقدمات کے تصفیہ کی رفتار کو بڑھایا جا سکتا ہے،عدالتوں میں زیر التوا کروڑوں معاملات،انصاف میں تاخیر ناانصافی کے مترادف کی بڑی مثال ہے،1993 میں ریلیز ہونے والی فلم دامنی میں سنی دیول کا مشہور ڈائیلاگ عدالتی نظام کی بہترین عکاسی کرتا ہے،جس میں وہ بطور وکیل جج سے کہتا ہے می لارڈ! تاریخ پر تاریخ تاریخ پر تاریخ تاریخ پر تاریخ تو ملتی رہی لیکن انصاف نہیں ملا،اس وقت عدالتوں میں زیر التوا معاملات سے متعلق افراد بھی اسی کیفیت سے دوچار ہیں اور یہ صورتحال یقینا انصاف کی فراہمی پر سوالیہ نشان لگاتی ہے۔
کچھ دنوں قبل ہی بابری مسجد کےخلاف فیصلے سنانے والے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی جنھیں سبکدوشی کے فورا بعد حکومت نے انعام کے طور پر راجیہ سبھا بھیج دیاتھا، نے ایک بیان میں کہاتھا کہ اب عدالتوں میں انصاف نہیں ملتا اسلئے لوگ عدالت جانا نہیں چاہتے،اسکا مطلب اسکے علاوہ اور کیا ہوسکتاہے کہ اب ملک میں قانون کی حکمرانی کا عمل بد سے بدتر ہوتا چلا جارہاہے،معروف صحافی راج دیپ سردیسائی نے انصاف کی موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب حکومت تبدیل ہوتی ہے تو ثبوت بھی بدل جاتے ہیں،الزامات بدل جاتے ہیں،تفتیش کار تبدیل ہوجاتے ہیں اور فیصلے بھی بدل جاتے ہیں،ان حالات میں جب ہر اہم مقدمے کو سیاسی رنگ دے دیا جاتاہے تو پھر انصاف کے نظام پر کس طرح یقین کیاجائے؟ملک کے عدل و انصاف کے نظام کو تنازعات اور شکوک سے پاک رکھنے کے لئے ججوں کی تقرری سے لے کر انصاف کے عمل تک ہر پہلو میں شفافیت لانے کی ضرورت ہے،عدلیہ کی غیر جانبداری اور خود مختاری کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اسے ہر طرح کی سیاست اور مداخلت سے پاک رکھا جائے تاکہ بروقت انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے،انصاف کے عدم فراہمی کی ایک بڑی وجہ عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار بھی ہے پھر ایسے میں لوگوں کوانصاف کیسے ملے گا مقدمات کا انبار عدالتوں سے کیسے کم کیاجائے اسکی کیاصورت ہوسکتی ہے حکومت کو بھی اس معاملے میں لائحہ عمل طےکرنا ہوگا لیکن ہم آپ بھی اس پرغورکریں۔
(مضمون نگار،معروف صحافی اورکل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
sarfarazahmedqasmi@gmail.com