سنو سنو!!
دستر خوان بچھانے اور بیٹھنے کا سلیقہ
(ناصرالدین مظاہری)
میں کسی صاحب کے گھر یا کسی مدرسہ میں گیا وہاں کھانے سے پہلے دسترخوان کے نیچے پہلے ایک کشادہ سی چادر بچھائی گئی ، چادر کے اوپر دستر خوان بچھایا گیا ، دستر خوان کی چوڑائی چادر سے کم تھی دونوں طرف چادر کا کافی حصہ باہر تھا لوگ دونوں طرف سے کھانے کے لئے بیٹھ گئے ، کھانے سے فارغ ہوکر پہلے دسترخوان اٹھایا گیا ، دسترخوان کے بعد وہ چادر اٹھائی گئی ، یہ عمل میں نہایت تیقظ اور بیداری کے ساتھ دیکھتا رہا، میری عادت ہے کہ جہاں کہیں سے کوئی چیز سیکھنے کی ہوتی ہے سیکھنے کی کوشش ضرور کرتا ہوں، یہاں سے میں نے یہ سیکھا کہ ہر دسترخوان پر کچھ نہ کچھ لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیں جو دسترخوان کی رعایت کے بجائے اپنی ناخواندگی کی روایت پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور کھانے کے کچھ نہ کچھ ذرات اور اثرات ورنہ کم ازکم سالن کے کچھ قطرات ضرور دسترخوان سے باہر گرادیتے ہیں اس کی وجہ سے پہلے سے جو فرش بچھا ہوتا ہے وہ آلودہ اور داغ دار ہوجاتا ہے یہ اکلوتا داغ پورے فرش اور چادر کو بدنما کردیتاہے، تکلیف تب ہوتی ہے جب چادر یا فرش مہنگے ڈرائی کلین سے دھلوایا گیا ہو اور موصوف نامحترم نے اپنی عدم تربیت کے زریں اثرات چھوڑدیے ہوں۔
بڑی چادر کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر دسترخوان سے باہر کوئی چیز گرگئی ہے تو بھی نیچے والی چادر اور فرش محفوظ رہے گا۔
دریا گنج نئی دہلی فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفرحسین کی دعوت تھی کئی خدام ہمراہ تھے ، سب سے پہلے ایک خوبصورت تولیہ دیا گیا تاکہ اپنے اپنے دامن پر بچھالیا جائے تاکہ خدا نخواستہ اگر کوئی چیز گرے تو دامن خراب نہ ہو۔ لطف کی بات یہ تھی یہ مہنگا تولیہ سب کو گفٹ یعنی ہدیہ تھا واپس نہیں کرنا تھا۔
مجھے حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی کا واقعہ یاد آرہا ہے جو بڑا سبق آموز اور بصیرت افروز ہے اور سچ بات تو یہ ہے کہ یہ واقعہ ان لوگوں کے لئے بھی مفید ہے جو اپنے آپ کو تربیت یافتہ سمجھتے ہیں۔
حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ:
” ایک مرتبہ میرے والد ماجد میاں جی حضرت مولانا سید اصغر حسین دیوبندی کے گھر ملاقات کے لیے گئے ، کھانے کا وقت آگیا تو بیٹھک میں دسترخوان بچھا کر کھانا کھایا گیا، کھانے سے فارغ ہونے پر والد صاحب دسترخوان سمیٹنے لگے ؛ تاکہ اسے کہیں جھٹک آئیں، حضرت میاں صاحب نے پوچھا: ”یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟ والد صاحب نے عرض کیا: حضرت دسترخون سمیٹ رہا ہوں؛ تاکہ اسے کسی مناسب جگہ پر جھٹک دوں ، میاں صاحب بولے ، کیا آپ کو دسترخوان سمیٹنا آتا ہے ، ؟ والد صاحب نے عرض کیا: کیا یہ بھی کوئی فن ہے؟ میاں صاحب نے جواب دیا : جی ہاں ، یہ بھی ایک فن ہے اور اسی لیے میں نے آپ سے پوچھا کہ آپ کو یہ کام آتا ہے یا نہیں ، والد صاحب نے درخواست کہ حضرت ! پھر تو یہ فن ہمیں بھی سکھا دیجیے، میاں صاحب نے فرمایاکہ آیئے ! میں آپ کو یہ فن سکھاوٴں ۔یہ کہہ کر انہوں نے دسترخوان پر بچی ہوئی بوٹیاں الگ کیں ، ہڈیوں کو الگ جمع کیا، روٹی کے جو بڑے ٹکڑے بچ گئے تھے ، انھیں چن چن کر الگ اکٹھا کر لیا، پھر فرمایاکہ میں نے ان میں سے ہر چیز کو الگ جگہ مقرر کی ہوئی ہے ، یہ بوٹیاں میں فلاں جگہ اٹھا کر رکھتا ہوں ، وہاں روزانہ بلی آتی ہے اور یہ بوٹیاں کھالیتی ہے ، ان ہڈیوں کی الگ جگہ مقر ر ہے ، کتے کو وہ جگہ معلوم ہے اور وہ وہاں آکر یہ ہڈیاں اٹھا لیتا ہے ،اور روٹی کے یہ ٹکڑے میں فلاں جگہ رکھتا ہوں ، وہاں پرندے آتے ہیں اور یہ ٹکڑے ان کے کام آتے ہیں اور یہ جو روٹی کے بہت چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہیں یہ میں چیونٹیوں کے کسی بل کے پاس رکھ دیتا ہوں اور یہ ان کی غذا بن جاتی ہے ۔اور پھرفرمایا : یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کا رزق ہیں ، ان کا کوئی حصہ اپنے امکان کی حد تک ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ (ذکر وفکر:۴۳)۔
ایک مدت پہلے میرے ایک عزیز میرے گھر آئے وہ بے چارے دسترخوان سے ہی ناواقف تھے ، میں نے دسترخوان بچھایا تاکہ کھانا کھلاؤں لیکن وہ صاحب دسترخوان کو بیٹھنے کی چادر سمجھے اور آرام سے دسترخوان پر چڑھ کر شان سے بیٹھ گئے ، مجھے غصہ تو بہت آیا لیکن صبر اور رحم بھی فورا آگیا اور سوچا کہ ان بے چاروں کو جب ایسے مواقع اور محل سے واسطہ ہی نہیں پڑا ہے تو انھیں کیا پتہ کہ دسترخوان کیا چیز ہوتی ہے اور اس کا کیا مصرف ہے ۔انسان مختلف مواقع ، علاقہ ، تہذیبوں سے بہت کچھ سیکھ لیتا ہے کنویں کے مینڈک کو کیا پتہ کہ دنیا کتنی بڑی اور پانی کی دنیا کیسی ہے۔
آپ جب بھی دسترخوان پر بیٹھیں تو اپنے کپڑوں سے زیادہ نیچے بچھے فرش اور چادر کا خیال ضرور رکھیں کیونکہ بعد میں خواتین مدت تک ہماری اس غلطی کا تذکرہ کرتی ہیں کہ فلاں صاحب آئے تھے کھانا کھاگئے اور ہماری چادر گندی کرگئے۔
یکم رمضان المبارک چودہ سو چھیالیس ھجری )