قربانی فضائل ومسائل کی روشنی میں۔
قربانی ایک اہم ترین عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے
یہی وجہ ہے کہ باری تعالی عز اسمہ نے اپنے آخری اور مقدس ترین کلام قرآن کریم میں بار بار قربانی کا تزکرہ کرکے اس کی اہمیت وافادیت کو اجاگر کیا ہے
چنانچہ ایک جگہ حق جل مجدہ اپنے لاڈلے اور آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہیں ، پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے ، (سورہ کوثر )
دوسری جگہ ارشاد خداوندی ہے۔
اے نبی کہیے کہ میری نماز اور قربانی اور جینا ومرنا سب کچھ رب العلمین کے لیے ہے ۔(سورہ انعام)
ایک جگہ فرمایا : اللہ تعالی کے پاس نہ ان (جانوروں کا) گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون بلکہ تمہارا تقوی پہنچتا ہے ۔(سورہ حج )
اسی طرح سے اللہ تبارک وتعالی کے محبوب اور آخری رسول تاجدار بطحامحمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات گرامی کثیر تعداد میں موجود ہیں جن کے اندر قربانی کے فضائل قربانی کی ترغیب اور اہمیت وقدرومنزلت کو بیان کیا گیاہے جن میں سے چند کو ذکر کیا جاتا ہے۔
بنی آدم کا کوئی عمل بقرہ عید کے دن خدا وند قدوس کو قربانی سے زیادہ محبوب نہیں اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں بالوں وکھروں کے ساتھ (زندہ ) ہوکر آئیگا ۔
نیز قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی جناب الہی میں قبول ہوجاتاہے ۔
پس اے خدا کے بندوں دل کی پوری خوشی سے قربانیاں کیا کرو ۔(سنن ترمذی)
دوسری روایت میں ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے اللہ کے رسول ؐ سے سوال کیا کہ قربانیاں کیا ہیں آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے صحابہ ؓ نے پھر معلوم کیا ہمارے لیے ان میں کیا ہے اللہ کے رسول ؐ نے ارشاد فرمایا کہ ہربال کے بدلہ ایک نیکی ہے صحابہ کرام نے پھر عرض کیا کہ جن جانوروں پر گویاکہ اون ہے تو اون پر کیا ملتا ہے اللہ کے رسول ؐ نے ارشاد فرمایا اون میں بھی ہر بال کے عوض ایک نیکی ہے۔ (سنن ابن ماجہ)
ایک حدیث پاک میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ آپ ؐ کا عمل مبارک بیان کرتے ہوۓ فرماتے ہیں کہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی دس سالہ ہے اور آپ علیہ السلام نے ہمیشہ قربانی کی ہے۔(سنن ترمذی)
قربانی نہ کرنے پر سخت وعید
جس طرح سے آپ علیہ السلام نے قربانی کرنے کی ترغیب دی ہے اور قربانی کے بہت سے فضائل بیان کیے ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے بارے میں بڑی سخت وعید بیان کی ہے جو استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے۔
ارشاد فرمایا : کہ جو شخص استطاعت رکھتا ہو اور قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ میں نہ آۓ ۔(سنن ابن ماجہ )
قارئین کرام ان تمام آیات واحادیث مبارکہ سے قربانی کی فضیلت واہمیت روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
آئیے ذیل میں قربانی کے کچھ مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں اس لیے کہ جب ہم اپنی اس اہم عبادت قربانی کو شریعت مطہرہ کی جانب سے ذکر کردہ مسائل کی روشنی میں انجام دیں گے تو ان شاءاللہ ہم پورے پورے اجروثواب کے مستحق ہونگے ۔
بارگاہ صمدی میں دعا گو ہوں کہ اللہ تبارک وتعالی ہمیں تمام اعمال وعبادات اپنے حکم اور اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے طریقہ کے مطابق انجام دینے کی توفیق نصیب فرماۓ۔
قربانی کی شرعی حیثیت
قربانی ایک اہم عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے اسی لیے جمہور علماء اسلام کے نزدیک قربانی واجب ہے ۔(فتاوی رحیمیہ ج 3 ص 178)
قربانی کے بجاۓ صدقہ کافی نہیں۔
ایام قربانی میں جانور کا ذبح کرنا ہی لازم ہے جانور کی قیمت کے صدقہ کرنے سے کام نہیں چل سکتا ہے اور جو شخص وسعت کے باوجود قربانی نہیں کرے گا وہ سخت گنہگار ہوگا کیوں کہ وہ واجب کا تارک ہے۔ (کتاب المسائل ج 2 ص 294)
قربانی کس پر واجب ہے ؟
قربانی کے وجوب کی شرائط حسب ذیل ہیں۔
(1)آزاد ہونا (2) مسلمان ہونا (3) ایام قربانی میں مقیم ہونا (4) ایام قربانی میں بقدر نصاب مال کا مالک ہونا (ساڑھے باون تولہ چاندی یا اسکی قیمت کا مال ،روپیہ پیسہ ،سوناچاندی یامال تجارت یا ضرورت سے زائد سازوسامان کا ہونا۔
اسی طرح رہنے کے مکان کے علاوہ زائد کوئی مکان یا پلاٹ وغیرہ کا ہونا جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے بقدر ہو۔(اور مارکیٹ میں فی الحال رائج تولہ کے حساب سے چاندی کا نصاب 61 تولہ، 2 گرام ، 360 ملی گرام ہوگا)
اور اس مال پر سال کا گزرنا بھی شرط نہیں۔
اسی طرح قربانی صاحب نصاب پر ہر سال واجب ہے عوام میں جو مشہور ہے کہ سات سال تک قربانی کرنا ضروری ہے اس کے بعد ضروری نہیں یہ بات غلط ہے۔
(کتاب المسائل ج 2 ص300
آپ کے مسائل اور ان کا حل ج 4 ص173)
اگر خواتین صاحب نصاب ہیں تو ان پر بھی قربانی واجب ہے اب عورتیں اپنے پیسے سے کریں یا شوہر سے لیکر یا شوہر اپنی بیوی سے اجازت لیکر بیوی کی طرف سے قربانی کرے۔(فتاوی رحیمیہ ج 3 ص 180)
اگر باپ بیٹے بیٹیاں سب برسرروزگار ہیں اور صاحب نصاب ہیں تو ہر ایک کے ذمہ الگ الگ قربانی واجب ہے خواہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ہو ۔(آپ کے مسائل اور ان کا حل ج 4 ص 177)
قربانی کی قضا
اگر وقت پر قربانی نہ کی جا سکی ہو اور جانور پہلے سے موجود ہو تو وقت گزرنے کے بعد اسی جانور کو زندہ صدقہ کرنا ضروری ہے۔ اور اگر جانور موجود نہ ہو تو پورے جانور کی قیمت کا صدقہ کرنا لازم ہے۔ (کتاب المسائل ج 2 ص 309)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کرنا۔
(صاحب نصاب اپنی قربانی کے بعد)اگر کوئی شخص اپنی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے قربانی کرنا چاہے تو کرسکتا ہے ، بلکہ یہ سعادت کے حصول کا ذریعہ ہے۔
(کتاب المسائل ج 2 ص 309)
وہ جانور جن کی قربانی جائز ہے ۔
(1) بکرا بکری ان کا پورے ایک سال کا ہونا ضروری ہے اگر ایک دن بھی کم ہوگا تو قربانی نہ ہوگی ۔
بھیڑ دنبہ ان کا بھی ایک سال کا ہونا ضروری ہے۔
البتہ اگر بھیڑ یا دنبہ ایک سال سے کم ہے لیکن اتنا موٹا تازہ ہے کہ دیکھنے سے سال بھر کا معلوم پڑتا ہے تو اس بھیڑ یا دنبہ کی قربانی جائز ہے ۔
یہ بھی خیال رہے کہ بکرا بکری بھیڑ یا دنبہ صرف ایک آدمی کی طرف سے ہوسکتا ہے ۔
(2)بھینس کٹڑے جن کی عمر دو سال ہونا ضروری ہے ۔
(3) اونٹ اس کی عمر پانچ سال ہونا لازمی ہے ۔
بھینس کٹڑا اونٹ اونٹنی سات آدمیوں کی طرف سے ایک کافی ہے ۔
بشرطیکہ سب کی نیت ثواب کی ہو محض گوشت کھانے کی نہ ہو۔
جس جانور کے پیدائشی سینگ نہ ہواس کی قربانی درست ہے ۔
گابھن جانور کی قربانی جائز ہے ۔ لیکن اگر ولادت کا وقت قریب ہے تو مکروہ ہے ۔
اسی طرح رسولی والے جانور کی قربانی بھی جائز ہے ۔
خصی بکرے ومینڈھے کی قربانی جائز ہے بلکہ افضل ہے۔
قربانی کے جانور کا موٹا تازہ ہونا افضل اور بہتر ہے ۔
(آپ کے مسائل اور ان کا حل،فتاوی رحیمیہ ج 3 ص183
بہشتی زیور حصہ 3 ص 164 165 166)
وہ جانور جن کی قربانی جائز نہیں ۔
جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں ۔
جس جانور کے سینگ جڑ سے اکھڑ گیے ہوں جس کا اثر دماغ تک پہنچ گیا ہو ۔
جو جانور اندھا ،کانا،یا ایک آنکھ کی تہائی روشنی جاتی رہی ہو اسی طرح ایک کان تہائی یا تہائی سے زیادہ کٹ گیاہو۔
تہائی یا تہائی سے زیادہ دم کٹ گیی ہو ۔
ایسا لنگڑا کہ فقط تین پاؤں ہی زمین پر رکھتا ہے چوتھا پاؤں زمین پر رکھتا ہی نہیں یا چوتھا پاؤں زمیں پر رکھتا تو ہے لیکن اس سے چلتا نہیں ۔
ایسے ہی اتنا دبلا پتلا مریل جانور کہ جس کی ہڈیوں میں بالکل گودا نہ ہو ایسے جانور وں کی قربانی درست نہیں ہوگی۔
اسی طرح جس جانور کے دانت بالکل یا اکثر نہ ہو اس کی قربانی جائز نہیں ہے ۔(بہشتی زیور حصہ 3 ص 164 ،آپ کے مسائل اور ان کا حل)
بکری کے دو تھنوں میں سے ایک تھن خشک یا کٹ جاۓ تو اس کی قربانی درست نہ ہوگی۔
اور اگر بھینس یا اونٹنی کے دوتھن کٹ جائیں یا سوکھ جائیں تو ان کی قربانی بھی جائز نہ ہوگی۔
لیکن اگر بھینس یا اونٹنی کے چار تھنوں میں سے صرف ایک کٹ جاۓ تو اس کی قربانی درست ہے ۔ (کتاب المسائل ج 2 ص 319)
جو جانور صرف گندگی اور غلاظت کھاتا ہو دیگر چارہ نہ کھاتا ہو اس کی قربانی درست نہیں ۔
وحشی اور جنگلی جانور وں کی قربانی جائز نہیں ہے ۔
(کتاب المسائل ج 2ص320)
ایام قربانی اور وقت
جمہور علماۓ اسلام کے نزدیک قربانی کے صرف تین دن ہیں ۔
10۔11۔اور 12 ذی الحجہ اس سے پہلے یا بعد میں قربانی معتبر نہیں۔
البتہ 10 ذی الحجہ کو قربانی کرنا سب سے افضل ہے۔(آپ کے مسائل اور ان کا حل ج4ص186)
جن گاؤں یا شہروں میں نماز جمعہ وعیدین کی نماز جائز ہے وہاں نمازعیدسے پہلے قربانی کرنا جائز نہیں اگر کسی نے کرلی تو اس پر دوبارہ قربانی کرنا لازم ہے۔ جواہرالفقہ ج 1 ص 449)
اگر شہر میں ایک جگہ عید کی نماز ہو گیی ہے لیکن دوسری جگہ ابھی نماز نہیں ہوئی تب بھی اس شہر کے اندر قربانی کرنا جائز ہے ۔(فتاوی محمودیہ ج 1ص 77)
چھوٹے گاؤں جہاں نماز جمعہ وعیدین کی نماز نہیں ہوتی وہاں کے لوگ 10 ذی الحجہ کی صبح صادق کے بعد قربانی کرسکتے ہیں ۔(آپ کے مسائل اور ان کا حل ج 4ص187)
اگرعید کی نماز کے بعد خطبہ سے قبل قربانی کی تو درست ہوجائیگی،لیکن ایسا کرنا اچھانہیں ہے، بہتریہ ہے کہ خطبہ کے بعد ہی قربانی کی جاۓ ۔(کتاب المسائل ج 2ص 295)
ذبح کے مسائل
جانور ذبح کرتے وقت قبلہ رخ لٹانا سنت مؤکدہ ہے عملا اس کے خلاف کرنا مکروہ ہے۔
قربانی کاجانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے اور اگر دوسرے سے کراۓ تو وہاں حاضر رہنا افضل ہے۔
مسلمان ذبح کرتے وقت اگر بسم اللہ اللہ اکبر پڑھنا بھول گیا تو وہ ذبیحہ حلال ہے۔لیکن اگر جان بوجھ کر بسم اللہ اللہ اکبر چھوڑدے تو وہ ذبیحہ حلال نہ ہوگا ، اس لیے کہ جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ اللہ اکبر پڑھنا فرض ہے۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل ج 4 ص 200۔201)
جب قربانی کا جانور قبلہ رخ لٹائے تو پہلے درج ذیل آیت پڑھنا بہتر ہے:
“إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا ۖ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ”.
اور ذبح کرنے سے پہلے درج ذیل دعا اگر یاد ہو تو پڑھ لے:
“اللّٰهُم َّمِنْكَ وَ لَكَ”
ورنہ بس ’’بسم اللہ اللہ اکبر‘‘ کہہ کر ذبح کرے اس لیے کہ ذبح کرتے وقت بسم اللہ اللہ اکبر پڑھنا لازمی اور ضروری ہے۔
، اور ذبح کرنے کے بعد اگر درج ذیل دعا یاد ہو تو پڑھ لے:
“اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْهُ مِنِّيْ كَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِيْبِكَ مُحَمَّدٍ وَ خَلِيْلِكَ إبْرَاهِيْمَ عليهما السلام”.
اگر کسی اور کی طرف سے ذبح کر رہا ہو تو “مِنِّيْ” کی جگہ ” مِنْ ” کے بعد اس شخص کا نام لے لے۔
جو شخص جانور کو ذبح کرانے میں چھری چلانے والے کا معاون ہو مثلا چھری میں ہاتھ لگا رہا ہو تو اس پر بھی بسم اللہ اللہ اکبر پڑھنا واجب ہوگا ۔
مسلمان عورت کا ذبیحہ حلال ہے ، اگر باشعور بچہ بسم اللہ اللہ اکبر پڑھ کر ذبح کرنے پر قادر ہے تو اس کا ذبیحہ حلال ہے ، گونگے مسلمان کا ذبیحہ بھی حلال ہے۔
جانور کے گلے میں چار شہہ رگیں ہوتی ہیں۔
(1) حلقوم :جس سے سانس لیا جاتا ہے ۔
(2)مری : جس سے کھانا پانی اندر جاتا ہے ۔
(3۔4) دوران خون والی دو رگیں ۔
ان چار رگوں میں سے اگر تین رگیں کٹ جائیں تو جانور حلال ہوجاتا ہے اور شرعی طور پر ذبح کا تحقق ہوجاتا ہے۔
(کتاب المسائل ج 2 ص 326،325 327)
قربانی کاگوشت اور حصے ۔
بڑے جانور میں حصہ لینے والے سبھی شرکاء کا قربت وعبادت کی نیت کرنا لازم ہے،مثلا قربانی ،ولیمہ ،عقیقہ کی نیت ہو۔
(کسی کی نیت محض گوشت کھانے ،یا گوشت بیچنے کی نہ ہو اگر نیت ایسی ہوگی تو تمام شرکاء کی قربانی درست نہ ہوگی)
بڑے جانور میں قربانی کے ساتھ عقیقہ کا حصہ رکھنا بھی درست ہے۔
جس جانور میں کیی حصے دار ہوں تو گوشت تول کر تقسیم کرنا چاہیے۔
افضل یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرکے ایک حصہ اپنے لیے ، ایک دوست واحبا ب ورشتہ داروں کے لیے،
اور ایک حصہ فقراء ومساکین میں تقسیم کردے۔
قربانی کا گوشت فروخت کرنا حرام ہے۔
قربانی کا گوشت بلاعوض غیر مسلم کو بھی دیا جاسکتا ہے۔
ذبح کرنے والے کو اجرت میں گوشت یا کھال دینا جائز نہیں ہے۔
اجرت علیحدہ سے دے (بہشتی زیور ،آپ کے مسائل اور ان کا حل )
جس شخص کے اہل وعیال زیادہ ہوں تو وہ تمام گوشت خود بھی رکھ سکتا ہے۔
اگر تمام حصے دار سب گوشت کو آپس میں تقسیم نہ کرکے یکجاہی فقراء واحباب کو تقسیم کرنا یا پکاکر کھلانا چاہے تو اس طرح کرنا جائز ہے۔
اگر قربانی کرنے والے کو ضرورت ہے تو سارا گوشت اپنے استعمال میں بھی لا سکتا ہے، اوراگر چاہے تو سارا گوشت صدقہ بھی کرسکتا ہے۔
قربا نی کا گوشت دوست واحباب کو ولیمہ کی دعوت میں بھی کھلا سکتے ہیں ۔(کتاب المسائل ج2 ص 329)
اگر اونٹ یا بھینس وغیرہ میں سات کے بجاۓ دو حصے دار ہیں اور دونوں کے حصے برابرہوں تو اس طرح قربانی کرنادرست ہے۔(فتاوی رحیمیہ ج 3 ص 185 بہشتی زیور )
بڑے جانور میں کچھ حصے زندوں کی طرف سے اور کچھ مردوں کی طرف سے ہوں اس طرح قربانی کرنا جائزہے۔
بڑے جانور میں پانچ یا چھ آدمی شریک ہوں اور کسی کا حصہ ساتویں حصہ سے کم نہ ہو تب بھی سب کی قربانی درست ہے ۔
،یعنی بڑے جانور میں سات حصوں سے کم بھی ہوسکتے ہیں البتہ سات سے زیادہ نہیں کرسکتے۔(بہشتی زیور حصہ 3 ص 163)
قربانی کی کھال
قربانی کی کھال یا تو خیرات کردے یا بیچ کر اس کی قیمت صدقہ کردے۔
قربانی کے جانور کی رسی جھول وغیرہ سب کو صدقہ کردے۔
قربانی کی کھالیں فروخت کرنے کے بعد ان کا حکم زکوۃ کی رقم کا ہے جس کی تملیک ضروری ہے بغیر تملیک کے رفاہی کاموں میں اس کا خرچ کرنا درست نہیں ہے۔
قربانی کی کھال یتیم خانہ مدرسہ کے طلباء یا محتاج معزور عزیزوں یا مساکین پر صرف کی جاسکتی ہے۔(مسائل عیدین وقربانی بحوالہ کفایت المفتی ج 8 ص 168،بہشتی زیور ،آپ کے مسائل اور ان کا حل ج4 ص 213)
مذبوحہ جانور کے سات اجزاء حرام ہیں۔
جس جانور کا گوشت کھایا جاتاہے اس کی سات چیزیں کھانی حرام ہیں ۔ (1) بہنے والا خون (2) پیشاب کی جگہ یعنی ذکر (3)دونوں خصیے (فوطے )یعنی کپورے (4) پاخانہ کی جگہ یعنی مقعد (5)غدود(6)مثانہ یعنی وہ جگہ جس میں پیشاب رہتاہے (7) پتہ۔(مسائل عیدین وقربانی ص 186 بحوالہ بدائع الصنائع ج8 ص61)
ایک روایت کے مطابق حرام مغز کو بھی حرام لکھا ہے ۔ حرام مغز وہ ایک ڈوری سفید دودھ کی طرح پیٹھ کی ہڈی کے اندر سے لیکر گردن تک ہوتی ہے ۔
اور بعض علماء نے مقعد یعنی پاخانہ کی جگہ پر جو تین گرہیں ہوتی ہیں ان کو بھی حرام لکھا ہے ۔(مسائل عیدین وقربانی ص 186 بحوالہ خلاصۃ المسائل ص 108)
مکروہات قربانی
(1) جانور کو بھوکا پیاسا ذبح کرنا (2)جانور کو مذبح تک گھسیٹ کر لےجانا(3)گراتے وقت بے جا سختی کرنا (4) قبلہ رخ کے خلاف لٹانا (5) چاروں پیر باندھنا یعنی تین پیر ہی باندھنے چاہیے (6) کند چھری سے ذبح کرنا (7) چھری کو جانور کے سامنے تیز کرنا (8) جانور کو لٹانے کے بعد چھری تیز کرنا (9)ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح کرنا (10) ذبح کے بعد جانور کے ٹھنڈا ہونے سے قبل گردن علیحدہ کرنا و چمڑا اتارنا۔ نیز یہ تمام امور ہر ذبیحہ کے لیے بھی ہیں ۔ (مسائل عیدین وقربانی ص171 تا 172 بحوالہ فتاوی رحیمیہ ج 1 ص 98)
قربانی کے موقع پر صفائی کا خصوصی خیال رکھنا ۔
قارئین کرام اس مبارک موقع پر صفائی ستھرائی کا بھی خاص طور سے دھیان رکھنا ہے
اسلام میں اس پر بہت اہمیت اور خصوصیت کے ساتھ توجہ دی ہے۔
اپنے بدن کپڑوں اور اپنے گھروں کے ساتھ ساتھ اپنے محلے اور گلیوں کو صاف ستھرا رکھنا یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔
قربانی کے جانور کے فضلہ وآلات اور خون پانی کو بستی سے باہر کہیں گڑھے میں دبا جاۓ
اور گوشت کو بھی جب ایک جگہ سے دوسری جگہ لیکر جاۓ تو کپڑے سے ڈھانپ کر لے جایا جاۓ۔
مولانا سلیم احمد قاسمی بن الحاج شفیق احمد صاحب بھنیڑہ ضلع بجنور یوپی