ٹرمپ اور غزہ
آصف محمود
ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر اسرائیلی شہری رہا نہ کیے گئے تو و ہ غزہ کو جہنم بنا دیں گے۔ سوال یہ ہے کہ غزہ اس وقت کون سی جنت کا منظر پیش کر رہا ہے؟ غور فرمائیے ، دنیا کی واحد سپر وار کا نو منتخب صدر ، دھمکی کس کو دے رہا ہے؟غزہ کی پٹی کو جو صرف 41 کلومیٹر لمبی ہے اور جس کی چوڑائی کہیں محض 6 کلومیٹر ہے اور کہیں 12 کلومیٹر۔یاد رہے کہ فیض آباد سے فیصل مسجد کا سفر ساڑھے بارہ کلومیٹر ہے۔ یہ ہے غزہ کی مبلغ چوڑائی ۔ اور پارلیمنٹ ہائوس سے اسلام آباد ایئر پورٹ کا سفر 40 کلومیٹرہے ، بس یہ ہے غزہ کی لمبائی۔یہ امریکی شہر لاس ویگاس جتنا علاقہ ہے مگر اس کی آبادی لاس ویگاس سے تین گنا زیادہ ہے۔ یہ دھمکی اس بے بس آبادی کو دی جا رہی ہے جس کے پاس سمندر تو ہے مگر بحریہ نہیں ہے۔ جس کے پاس فضائی قوت بھی نہیں ، جس کے پاس کوئی بری فوج بھی نہیں۔ جس کے پاس کوئی ٹینک جہاز یا میزائل بھی نہیں۔ جس کے پاس ڈھنگ کی کوئی بندوق بھی نہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں 80 فیصد آبادی ہجرتوں کے دکھ لیے ہوئے ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو 1948 کے قتل عام میں فلسطین کے مختلف علاقوں سے جان بچا کر یہاں آئے اور پناہ گزین کیمپوں میں آباد ہو گئے۔ غزہ کوئی شہر نہیں ، یہ دکھوں کی مالا ہے۔ مہاجروں کے بکھرے کیمپوں کا مجموعی ہے جسے غزہ کہا جاتا ہے۔ دیر البلاح کیمپ، جبالیہ کیمپ ، خان یونس کیمپ، مغازی کیمپ، نصیرات کیمپ ، رفح کیمپ۔ ہجرتیوں کی اس پناہ گزین بستی کو دھمکی کون دے رہا ہے؟ دنیا کی سپر پاور کا نو منتخب سربراہ۔ امریکہ نے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے سار ے عرصے میں افغانستان میں جتنے بم برسائے اس سے زیادہ آتش و آہن چھوٹے سے غزہ پر اسرائیل نے جارحیت کے پہلے ہفتے میں برسا دیا تھا۔جو جان سے گئے ان کی فہرست تو الگ ہے، جو زندہ ہیں ان میں سے 8 لاکھ 70 ہزار لوگ سانس کے امراض کا شکار ہو چکے ہیں۔ غزہ میں جارحیت انسانی تاریخ کی پہلی ایسی جارحیت ہے جس میں پھینکے گئے اور میزائلوں میں سے پچاس فیصد ’ ان گائیڈڈ‘ تھے۔ یعنی ان کا کوئی ٹارگٹ نہ تھا۔ بس اتنا کافی تھا کہ غزہ پر مار دیے گئے۔ اب بچے مریں یا عورتیں ، مقصد پورا سمجھا جائے۔ یہ رپورٹ فلسطینی انتظامیہ کی نہیں ، سی این این کی ہے۔ کانگریشنل ریسرچ سروس میں جیریمی شارپ کی رپورٹ کے مطابق اگر افراط زر کے پیمانوں کو ذہن میں رکھیں تو اب تک امریکہ اسرائیل کو 317 ارب ڈالر سے نواز چکا ہے۔ٹائم میگزین کے مطابق حالیہ جارحیت کے پہلے 10 دنوں میں امریکہ نے پانچ بار اسرائیل کو جنگی امداد بھجوائی۔ اسرائیل کے NOW 14 کے مطابق حالیہ جارحیت کے ابتدائی دو ماہ میں امریکہ سے جنگی مدد لے کر اسرائیل پہنچنے و الے جہازوں کی تعداد 200 تھی۔ 60 دنوں میں ان 200 جہازوں میں جوجنگی سازو سامان اسرائیل پہنچایا گیا اس کا وزن 10 ہزار ٹن تھا۔ وال سٹریٹ جرنل کے مطابق اس جنگ کے پہلے تین ماہ میں امریکہ نے اسرائیل کو 15 ہزار بم دیے جن میں سے 5 ہزار ان گائیڈڈ بم تھے ۔اس کے علاوہ 155ایم ایم کے 57 ہزار آرٹلری شیل فراہم کیے گئے۔یاد رہے کہ یروشلم پوسٹ کے مطابق جنگ کے پہلے دو ماہ میں اسرائیل نے 10 ہزار آرٹلری شیل فائر کیے۔ مارچ تک امریکہ سے اسرائیل کے ساتھ کیے گئے اسلحہ کی ترسیل کے معاہدوں کی تعداد 100سے زیادہ ہو چکی تھی اور بائڈن انتظامیہ نے اس سلسلے میں اتنی بے تابی دکھائی کہ کانگریس کو بھی بائی پاس کرتے ہوئے اسرائیل کو اسلحہ فراہم کیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس اسلحہ کی مالیت 23 ارب ڈالر تک ہو سکتی ہے۔ ماہرین کی جانب سے اندازے اس لیے لگائے جا رہے ہیں کہ اسرائیل کو اسلحہ دینے کے صرف 2 معاہدے منظر عام پر آ سکے باقی سب کو خفیہ رکھا گیا ۔ وال سٹریٹ جرنل کے مطابق جارحیت کے چوتھے دن اس خطے میں 2 امریکی ایئر کرافٹ کیریر پہنچ چکے تھے۔واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکہ کا اینٹی میزائل دفاعی نظام بھی اسرائیل کے دفاع کے لیے نصب کیا جا چکا تھا۔ وال سٹریٹ جرنل ہی کی رپورٹ کے مطابق جنگ کے پہلے ہفتے میں ہی 2 ہزار امریکی فوجی کسی بھی وقت اسرائیل پہنچنے کے لیے تیار کھڑے تھے۔ یہی نہیں بلکہ AXIOS میں باراک ریوڈ کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کے لیفٹیننٹ جنرل جیمز گنز اپنی افسران کی ٹیم کے ساتھ اسرائیل پہنچے اور غزہ جارحیت کے سارے عمل کو خود دیکھا اور اسرائیل کی معاونت کی۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اسرائیل میں دو امریکی ایئر بیس کام کر رہے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق سی آئی اے ، ڈی آئی اے اور ایف بی آئی کے اہلکار تو مستقل بنیادوں پر وہاں موجو رہتے ہیں اور اسرائیل کی معاونت کرتے ہیں۔ یہ ساری طاقت کس کے خلاف استعمال ہو رہی ہے؟غزہ کی پٹی کے خلاف جو صرف 41 کلومیٹر لمبی ہے اور جس کی چوڑائی کہیں محض 6 کلومیٹر ہے اور کہیں 12 کلومیٹر۔ اب آپ تصور کریں کہ ایک علاقہ جو پارلیمنٹ ہائوس سے ایئر پورٹ تک پھیلاہوا ہے اور اس کی چوڑائی کہیں فیض آباد سے فیصل مسجد تک ہے اور کہیں فیض آباد سے راول ڈیم تک۔ اس علاقے میں جنگ کے صرف پہلے 6 دنوں میں اتنے بم اور میزائل مارے جاتے ہیں جتنے ساری وار آن ٹیرر میں افغانستان پر نہیں مارے گئے اور جتنے بم ساری جنگ میں سارے عراق پر نہیں مارے گئے ۔ غزہ میں نہ کوئی گھر بچا ہے نہ سکول، نہ کوئی ہسپتال باقی ہے نہ کوئی کھیل کا میدان۔370 ماہر ڈاکٹر مار دیے گئے ، یونیورسٹیوں کے 160 پروفیسر قتل ہو چکے، 235 فٹ بالر قتل ہو گئے۔ اب لاشوں کے لیے کفن نہیں ، انہیں کتے بھنبھوڑ رہے ہیں اور کھانے کو خوراک نہیں۔ امداد پہنچنے نہیں دی جا رہی۔ کہاں تک کوئئی یہ کہانی بیان کرے؟ اس سے زیادہ کون سی جہنم ہے جس کی دھمکی ڈونلڈ ٹرمپ غزہ کو دے رہے ہیں؟ خاموش ، سہمی ، سمٹی مسلم دنیا کو معلوم ہونا چاہیے ، یہ ساری قوت غزہ کی بستی کے لیے اکٹھی نہیں ہو رہی ۔ یہ طوفان بہت آگے تک جائے گا۔ریت میں سر دینے سے بلا نہیں ٹلے گی۔ باٹم لائن طے کر لیجیے ورنہ باری سب کی آنی ہے ، باری باری آنی ہے۔ ٭٭٭٭٭