🔰رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت عائشہؓ سے نکاح
(قسط-1)
🖋مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
#شمع_فروزاں🕯
نوٹ: یہ تحریر مفتی اشرف عباس قاسمی کی ہے ، جو انھوں نے راقم الحروف کی دعوت پر المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد کے تحت منعقد ہونے والے بین الاقوامی سیرت سیمینار ۲۰۱۶ء میں پیش کیا تھا ، راقم الحروف نے اس میں کہیں کہیں کمی اور اضافہ کیا ہے ،آج کل چوں کہ سنگھ پریوار والوں کی طرف سے اس موضوع پر بہت بدزبانی کی جا رہی ہے؛ اس لئے یہ تحریر ’’ شمع فروزاں‘‘ کالم کے تحت شائع کی جار ہی ہے، اس کو خود پڑھنے اور دوسروں تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ (رحمانی )
اُم المومنین عائشہ بنت ابی بکر صدیقؓ ، رسول اکرم ﷺ کی زوجۂ مطہرہ اور اُمت کی سب سے بڑی خاتون فقیہ ہیں ، آپ کی والدہ : اُم رومان بنت عامر ہیں ، آپ نے براہ راست رسول اکرم ﷺ کے علم کا ایک بڑا ذخیرہ نقل کیا ، اپنے والد ابوبکر نیز عمر ، فاطمہ ، سعد ، حمزہ بن عمرواسلمی اورجذامہ بنت وہب سے آپ نے حدیث روایت کی ہے ۔ (سیر اعلام النبلاء:۲؍۱۳۵)
علم وفضل اورحدیث وفقہ میں امتیاز
ابن شہاب زہر یؒ فرماتے ہیں :
لو جمع علم عائشۃ إلی علم جمیع النساء ، لکان علم عائشۃ أفضل ۔ (سیر اعلام النبلاء :۲؍۱۴۱)
حضرت عائشہ کے علم کا ، جملہ خواتین کے علم سے تقابل کیا جائے توعائشہ ؓکا علم سب سے بڑھا ہوگا ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو غیرمعمولی ذہانت و ذکاوت اور سرعت ِحفظ کی دولت سے نوازا تھا ، ابن کثیرؒ فرماتے ہیں :
لم یکن في الأمم مثل عائشۃ في حفظہا وعلمہا وفصاحتہا وعقلہا ۔
سابقہ اُمتوں میں بھی حضرت عائشہ ؓکی طرح حفظ و ضبط ، علم وفصاحت اور عقل میں کوئی خاتون نہیں تھی۔
عروہ بن زبیر کہتے ہیں :
ما رأیت أحدا أعلم بفقہ ولا بطب ولا بشعر من عائشۃ ۔
فقہ میں ، طب میں اور شعر میں حضرت عائشہ سے بڑھ کر کوئی نہیں ۔
حافظ ذہبی کہتے ہیں :
افقہ نساء الامۃ علی الاطلاق ، ولا أعلم في أمۃ محمد ، بل ولا في النساء مطلقاً امرأۃً أعلم منہا۔
اُمت کی خواتین میں بلاکسی استثناء کے سب سے بڑی فقیہ ہیں اوراس اُمت بلکہ دنیا جہاں کی خواتین میں مجھے ایسی خاتون نظر نہیں آتی ، جو علم وفضل میں آپ سے بڑھی ہوئی ہو۔
آپ نے جو احادیث روایت کی ہیں ان کی تعداد حافظ ذہبی کے بہ قول دو ہزار دوسودس(۲۲۱۰) ہے ، جن میں سے ایک سو ستر احادیث کی تخریج امام بخاری و مسلم نے مشترکہ طور پر کر رکھی ہے ، جب کہ ۵۴ میں بخاری اور ۶۹ میں مسلم منفرد ہیں ، (سیر أعلام النبلاء :۲؍۱۳۹) اس حساب سے بخاری میں آپ کی دو سو اٹھائیس اور مسلم میں دو سو بتیس روایتیں ہیں ۔
رسول اکرم ﷺکی زوجیت میں
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی قسمت کاستارہ اس وقت اُوج ثریّا پر پہنچ گیا ، جب وہ دنیا کے سب سے پاکباز انسان ،محسن انسانیت ﷺ سے منسوب ہوئیں ، رسول اکرم ﷺ کا سب سے پہلا نکاح حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا سے ہوا تھا ، بہ وقت نکاح آپ کی عمر ۲۵ اور حضرت خدیجہ کی ۴۰ برس کی تھی ، حضرت خدیجہؓ نہایت غمگسار اور اطاعت شعاربیوی تھیں ، ہجرت سے تین سال قبل نبوت کے دسویں سال حضرت خدیجہ کی وفات سے آپ کو بڑا رنج ہوا ، جانثار صحابہ نے اس کیفیت کو محسوس کر کے آپ کو نکاح ثانی کامشورہ دیا ؛ چنانچہ حضرت عثمان بن مظعونؓکی اہلیہ حضرت خولہ بنت حکیم نے آپ کے پاس آکر عرض کیا کہ آپ دوسرا نکاح کر لیں ، آپ نے فرمایا : کس سے ؟ خولہ نے کہا : بیوہ اور کنواری دونوں طرح کی لڑکیاںـ موجود ہیں ، جس کو پسند فرمائیں اس کے متعلق گفتگو کی جائے ، فرمایا : وہ کون ہیں ؟ خولہؓ نے کہا : بیوہ تو سودہ بنت زمعہ ہیں اور کنواری ابو بکر کی لڑکی عائشہ ، ارشاد ہوا : بہتر ہے تم اس کی نسبت گفتگو کرو ۔
حضرت خولہ ؓرسول اکرم ﷺ کی مرضی پاکر حضرت ابوبکر ؓ کے گھر آئیں اور ان سے تذکرہ کیا ، جاہلیت میں دستور تھا کہ جس طرح سگے بھائیوں کی اولاد سے نکاح جائز نہیں ، عرب اپنے منھ بولے بھائیوں کی اولاد سے بھی شادی نہیں کرتے تھے، اس بناء پر حضرت ابو بکر ؓ نے کہا : عائشہ تو آنحضرت ﷺ کی بھتیجی ہے ، آپ سے نکاح کیوںکر ہوسکتا ہے ؟ حضرت خولہ نے آکر آنحضرت ﷺ سے استفسار کیا ، آپ نے فرمایا : ابو بکر میرے دینی بھائی ہیں اور اس قسم کے بھائیوں کی اولاد سے نکاح جائز ہے ، حضرت ابو بکر ؓ کو جب یہ معلوم ہوا تو انھوں نے قبول کر لیا ۔
لیکن اس سے پہلے حضرت عائشہ ؓجبیر بن مطعم کے بیٹے سے منسوب ہو چکی تھیں ، اس لئے ان سے بھی پوچھنا ضروری تھا ، حضرت ابو بکر ؓنے جبیر سے جاکر پوچھا کہ تم نے عائشہ کی نسبت اپنے بیٹے سے کی تھی ، اب کیا کہتے ہو ؟ جبیر نے اپنی بیوی سے پوچھا ، جبیر کا خاندان ابھی اسلام سے آشنا نہیں ہوا تھا ، اس کی بیوی نے کہا : اگر یہ لڑکی ہمارے گھر آگئی تو ہمارا بچہ بددین ہو جائے گا ، ہم کو یہ بات منظور نہیں ۔ (مسندا حمد :۶؍۲۱۱، سیرت عائشہ :۲۴)
نکاح اور رُخصتی کے وقت حضرت عائشہ ؓکی عمر
مشہور اور محقق قول یہی ہے کہ بہ وقت نکاح حضرت عائشہ ؓکی عمر چھ سال کی تھی اور بہ وقت رخصتی نو سال کی تھی ، دوسرا قول یہ ہے کہ نکاح کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر ۱۸ سال تھی ؛ لیکن اہل تحقیق کے نزدیک یہ قول صحیح نہیں ہے ۔ (بخاری ، باب تزویج النبی عائشۃ وقدومہا المدینۃ وبنائہا بہا :۳۸۹۴)
اس پر سخت اعتراض کیا جاتا ہے کہ ایک نو سالہ لڑکی کیسے کسی مرد کے قابل ہو سکتی ہے ؟ اوروہ بھی ایسے مرد کے جس کی عمر پچاس سے متجاوز ہو ؟
اِس عمر میں نکاح کا رواج تھا
اس کا جواب یہ ہے کہ در اصل نکاح ایک معاشر تی عمل ؛ بلکہ معاشرتی ضرورت ہے ، اس لئے نکاح میں ہر جگہ کے معاشرے ، وہاں کی تہذیب اور عرف و عادت کو بڑا دخل ہوتا ہے ، اس تناظر میں ہمیں نظر آتاہے کہ حضرت عائشہ ؓجس معاشرے کا حصہ ، اس میں کم سنی میں نکاح قطعاً معیوب نہیں تھا ؛ بلکہ متعارف اور رائج تھا ؛ چنانچہ :
(۱) حضرت قدامہ بن مظعونؓ نے اپنے لڑکے کا حضرت زبیرؓکی نو مولود لڑکی سے اسی دن نکاح پڑھا دیا ، جس دن وہ پیدا ہوئی ۔ (مرقات : ۳؍۴۱۷)
(۲) خود آنحضرت ﷺ نے حضرت اُم سلمہ ؓکے کم سن لڑکے سلمہ کا نکاح حضرت حمزہؓ کی نابالغ لڑکی سے کیا تھا ، (احکام القرآن رازی :۲ ؍۵۵) بلکہ ترکمانی فرماتے ہیں : ’’و زوج غیر واحد من الصحابۃ ابنتہ الصغیرۃ‘‘ ۔ (ترکمانی علی البیھقی :۱ ؍۷۶،۷۹)
بلکہ نو ، دس سال کی عمر اس زمانے اوراس معاشرے میں وہ عمر تھی ، جس میں میاں بیوی کے تعلقات قائم ہو سکتے تھے ؛ چنانچہ بخاری شریف میں حسن ابن صالح کا قول نقل کیا گیا ہے :
أدرکت جارۃً لنا جدۃً بنت احدی وعشرین سنۃ ۔ (بخاری ، باب بلوغ الصبیان وشہادتہم ، کتاب الشہادات)
ہمارے پڑوس میں ایک خاتون تھیں جو اکیس سال کی عمر میں دادی بن گئی تھی ۔
یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس جدہ کا نکاح صغر سنی میں ہوا تھا اور صرف دس سال کی عمر میں اس نے بچہ جنا تھا ، اور یہی صورت حال اس کی بیٹی کی بھی رہی ۔
(۳) امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ انھوں نے بھی ایک خاتون کو دیکھا ہے جو نو سال کی عمرمیں بالغ ہوگئی تھی اور دس سال کی عمر میں اس کے یہاں بیٹی کا تولد ہوا ۔ (دیکھئے : فتح الباری :۵ ؍۳۱۲)
اسی لئے فقہاء نے بھی رخصتی کے لئے کسی خاص عمر کی تحدید نہیں کی ہے ؛ بلکہ اس کا مدار عورت کی طاقت اورجسمانی ساخت پر ہے ؛ چنانچہ ہدایہ میں ہے :
أ کثر المشائخ علی أنہ لاعدۃ للسن في ھذا الباب ، وإنما العدۃ للطاقۃ إن کانت ضخمۃ سمینۃ تطیق الرجال ، ولا یخاف علیہا المرض من ذٰلک ، کان للزوج أن یدخل بہا و إن لم تبلغ تسع سنین ۔
اکثر مشائخ کی رائے یہ ہے کہ لڑکی سے جماع کے سلسلہ میں عمر کا کوئی اعتبار نہیںہے ؛ بلکہ طاقت و قوت کا اعتبار ہے ، اگر بھاری بھرکم اور موٹی ہو ، مردوں کو برداشت کر لیتی ہو اور صنفی تعلق کی وجہ سے مرض کا اندیشہ نہ ہو تو شوہر صحبت کرسکتا ہے اگرچہ وہ نو سال کی بھی نہ ہو ۔
اور خود حضرت عائشہ ؓ کے نکاح میں بھی یہ اہم حقیقت ملحوظ تھی ؛ چنانچہ ان کا عقد اگرچہ چھ سال کی عمر میں ہو گیا تھا ؛ لیکن رخصتی کے لئے مزید تین سال انتظار کیا گیا ، اور اس دوران ان کی والدہ ان کی صحبت کا خاص خیال رکھتی تھیں اورمختلف غذاؤوں کے ذریعے تدبیر کرتی تھیں کہ جسم کسی قدر فربہ ہو جائے ؛ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ خود فرماتی ہیں :
أرادت أمی ان تسمننی لدخولی علیٰ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فلم أقبل علیہا بشیئ مما ترید حتی اطعمتنی القثاء بالرطب ، فسمنت علیہ کأحسن السمن ۔ (أبو داؤد، ابن ماجہ)
میری والدہ رُخصتی سے قبل مجھے فربہ کرنے کی تدبیریں کیا کرتی تھیں ؛ لیکن ان کی تدابیر ناکام ہوجاتی تھیں ، ہاں جب انھوںنے مجھے ککڑی اور کھجور ملاکر کھلایا تو میں موٹی ہوگئی ۔
اس لئے اس عرب معاشرے کو ہمارے اس معاشرے پر قیاس کرنا فضول ہے ، جس میں کمسن لڑکیوں سے نکاح کو معاشرتی جرم سمجھا جاتا ہے ۔
عرب معاشرے میں آج بھی یہ قابل قبول ہے
بلکہ آج بھی عرب معاشرہ اس کو قبول کئے ہوئے ہے ؛چنانچہ العربیۃ نیٹ نے ۱؍نومبر۲۰۱۰ء کو ایک رپورٹ شائع کی تھی جس کا عنوان ہی تھا : صغیرات یفضلن کبار السن والمتزوجین ( کم عمر لڑکیاں معمر اور شادی شدہ مردوں کو ترجیح دے رہی ہیں ) ، اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ذہنی سکون اور مالی منفعت کی خاطر بہت سی عرب لڑکیاں کبیر السن مردوں کو ترجیح دیتی ہیں ، مثال کے طور پر ایک سولہ سالہ طالبہ کہہ رہی ہے کہ اسے اس پر اطمینان اور مسرت ہے کہ اس کا نکاح ایک چھیاسٹھ سالہ مرد سے ہونے جارہا ہے ، ۲۰سالہ ’’حفان‘‘ کا کہنا ہے کہ اس کی پانچ بہنیں ہیں ، اور پانچوں کا نکاح شادی شدہ مردوں سے ہوا ہے اور وہ پانچوں آسودگی اور عافیت کی زندگی گزار رہی ہیں ۔ (دیکھئے : alarbiya.net www)
حضرت عائشہؓ سے نکاح کے بارے میں یہ بات قابل توجہ ہے کہ :
= حضرت عائشہ ؓ سے نکاح کا مشورہ سب سے پہلے ایک قریشی خاتون حضرت خولہ بنت حکیم نے آپ ﷺ کو دیا تھا ، اگر کمسنی کا نکاح معاشرتی اعتبار سے معیوب ہوتا تو یقیناً وہ خاتون کبھی آپ ﷺ کو اس کا مشورہ نہیں دیتیں ۔
= اگر یہ بات معتبر ہوتی تو نہ ہی حضرت عائشہؓ کے والد حضرت ابوبکرؓ اس کے لئے تیار ہوتے نہ ان کی والدہ اُم رومانؓ کبھی اس کے لئے آمادہ ہوتیں ۔
= نیز مخالفین کو بھی ایک موقع ہاتھ آجاتا اور وہ آپ کی شخصیت کو داغدار کرنے اور آپ کے خلاف پروپیگنڈے میں کوئی کسر باقی نہیںرکھتے ؛ لیکن سب کو معلوم ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا ۔
= حضرت عائشہ ؓاس سے پہلے جبیر بن مطعم کے بیٹے سے منسوب ہوچکی تھیں ، بیٹے کی ماں کی طرف سے رشتے کا انکار کئے جانے کے بعد ہی حضرت ابوبکر ؓنے آپ ﷺ سے رشتہ منظور کیا تھا ۔
موسم کا اثر
دوسری اہم بات یہ ہے کہ کمسنی کے نکاح کو معاشرتی طور پر قبول عام حاصل ہونے میں وہاں کی آب وہوا کا بھی بڑا دخل ہے ، جس کے نتیجہ میں لڑکیاں جلد مردوں کے قابل ہو جایا کرتی ہیں ، خاص کر ایسی لڑکیاں جن میں ذہنی نشوو نما کی صلاحیت ہوتی ہے ، قامت اور جسم کے اعتبار سے بھی وہ جلد بڑھتی ہیں ۔ (سیرت عائشہ : ۲۵) (جاری)