سنو سنو!!
امن معاہدہ ، فریب سے سراب تک
(ناصرالدین مظاہری)
میں قرآن کریم ہاتھ میں لے کر بقسم کہہ سکتا ہوں کہ یہود روز اول سے اپنی فطرت ، شیطنت، خباثت ، رذالت اور ضلالت و بدعہدی میں سر مو نہیں ہٹے ہیں ، یہ دنیا کا وہ ذلیل ترین رذیل ترین طبقہ ہے جس کے کسی عہد و معاہدہ اور ان کی قسم پر مجھے یقین ہی نہیں آتا ، یہ وہ دجالی طبقہ ہے جس کے اثبات میں نفی اور جس کے نفی میں اثبات پوشیدہ ہے ، یہ جس کو جنت کہیں سمجھ لو کہ وہ جہنم ہے اور جسے جہنم کہیں یقین کرلو کہ وہ جنت ہے ،ان کی الٹی سیدھی اور ان کی سیدھی الٹی ہوتی ہے ، یہ شمال کو جنوب اور مغرب کو مشرق اتنی کثرت کے ساتھ کہتے ہیں کہ لوگ خواہی نخواہی یقین کرنے لگتے ہیں کہ ممکن ہے یہ سچ ہو حالانکہ یہود آسمان کے نیچے سب سے مبغوض ، سب سے مغضوب اور سب سے بدعہد قوم ہے اس کی نظروں میں اپنے علاوہ کوئی انسان کہے جانے کے لائق نہیں ہے ، یہ اپنے سوا سبھی ادیان ومذاہب کو کتے بلی اور خنزیر سے بد تر سمجھتے ہیں یہی حقیقت ہے یہی ان کا مشن اور یقین ہے یہی سب ان کے پروٹوکول کا حصہ ہے۔ یہ ہر موقع پر اپنا مفاد مدنظر رکھتے ہیں ان کے نزدیک اپنے مفادات کے حصول کے لئے کسی بھی انتہائی قدم اور اقدام کی اجازت ہی نہیں بلکہ تعلیم ہے ، واحد مذہب ہے جس کے یہاں اپنے علاوہ سبھی کا خون بہانا جائز ہے ، انھوں نے سب سے زیادہ عیسائیوں کو دبایا اور مٹایا ہے ،یہی وہ طبقہ ہے جس نے حضرت زکریا علیہ السلام ، حضرت یحی علیہ السلام تک کو شہید کردیا، وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا ورنہ انھوں نے تو اپنی دانست میں انھیں سولی پر چڑھادیا تھا۔ عیسائیت ایک ایسا مظلوم طبقہ ہے جو شروع ہی سے ان کے پھن سے ڈسا جاتا رہا ہے اور شاید اسی لئے پوری عیسائی قوم نے ان یہودیوں کے آگے گھٹنے ٹیک دئے ، سر تسلیم خم کردیا ، یہود کی ہاں میں ہاں ملانے میں ہی اپنی عافیت اور عاقبت سمجھی اسی لئے یہود کے خونیں پنجے آج کی تاریخ میں ہرعیسائی کی گردن پر ہیں علامہ اقبال نے بالکل درست فرمایا ہے کہ فرنگیوں کی رگ جان پنجۂ یہود میں ہے۔
یہود سے چھٹکارہ پانے کے لئے ہی تو عیسائی قوتوں نے عرب کے قلب میں اسرائیل کو آباد کرایا تاکہ بقیہ تمام عیسائی ممالک سکون کا سانس لے سکیں اور اسلامی ممالک کا جینا اور سکون سے رہنا مشکل ہوجائے۔
ہٹلر بہت اچھا انسان تھا اس نے وہ کیا جس کی اس وقت ضرورت تھی آج قوم یہود کے یہاں ہٹلر کانام لینا اسی لئے جرم ٹھہرا کہ ہٹلر کانام آتے ہی عیسائیت کا یہود پر تفوق ظاہر ہوتا ہے۔
کل تقریبا ڈیڑھ سال کے بعد امریکہ ، مصر اور قطر کی کوششوں سے بھلے ہی غزہ پر جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا ہو لیکن میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں یہود کی کسی بات پر بھروسہ کرنا ایسا ہی جرم ہے جیسے دجال پر ایمان لانا جرم ہے۔
یہ کبھی بھی اپنے وعدوں اور عہد پر قائم نہیں رہے اس نے تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بار بار بدعہدی کی ، اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عہد کیا تھا کہ جنگ کی صورت میں یہودی قبائل مسلمانوں کا اور مسلمان یہودیوں کا ساتھ دیں گے لیکن اسی موقع پر جنگ بدر میں یہودیوں نے اپنے وعدے وارادے کی مخالفت کی اور غیر جانبدار رہنے کا اعلان کرکے اپنے خبث باطنی کا مکمل مظاہرہ کیا۔
مدینہ منورہ میں ہی بنی قریظہ نامی یہودی قبیلہ رہتا تھا جس کے ساتھ مسلمانوں نے امن کا معاہدہ کر رکھا تھا لیکن غزوۂ خندق میں پھر انھوں نے حسب عادت مسلمانوں کو دھوکہ دیا۔
میں فلسطین کے تعلق سے بھی ، غزہ کے تعلق سے بھی اور مستقبل قریب میں خیبر کے تعلق سے بھی ان کے کسی وعدے پر قطعی یقین نہیں کرتاہوں اور یہ یقین نہ کرنا ان کی دوغلی طبیعت اور منافقانہ خصلت کے باعث ہے۔ قرآن وحدیث میں کہیں بھی ایک جملہ ان کی تعریف وتوصیف میں موجود نہیں ہے ہرجگہ ان کے خبث باطن کو اجاگر کیاگیاہے۔
آپ خوش ہیں کہ غزہ پر بمباری کاڈیڑھ سالہ سلسلہ اب نئے معاہدے کی وجہ سے رک جائے گا نہیں بالکل نہیں رکے گا آپ مصر کے بارے میں خوش فہمی کا شکار ہیں تو رہیں ، امریکہ کی خارجی وداخلی پالیسیوں پر یقین کریں تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے یہ آپ کی بھول ہے ، اکیلا قطر ہے جس میں کچھ دینی حمیت اور اخوت باقی ہے لیکن اس کے تمام تر کارناموں پر پانی پھیرنے کے لئے دیگر عرب ممالک لائن میں لگے ہوئے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس امن معاہدہ میں اب بھی بہت سے اہم نکات موجود ہیں جو اسے مستقل جنگ بندی کا معائدہ بننے سے روک سکتے ہیں۔
اسرائیل کو جنگی سازو سامان پہنچانا صرف امریکہ کی مجبوری نہیں ہے تمام ملکوں کی مجبوری ہے کیونکہ اس کی پالیسی ہی اتنی گہری اور دور رس ہوتی ہے کہ جب چاہے اسرائیل نرخرا دبا سکتا ہے۔
ترکی ، سعودی ،پاکستان ، تمام عرب ممالک بے چین ہیں کہ اسرائیل سے ہاتھ ملائیں لیکن اقدام کون کرے مسئلہ یہ ہے سبھی مقلد بننا چاہتے ہیں مقتدی بننا چاہتے ہیں سب کی نظریں سعودیہ کی طرف اٹھی ہوئی ہیں اور سعودیہ تل ابیب پہنچنے کے لئے اتنا ہی بے قرار ہے جتنا اسرائیل خیبر میں اپنا علم لہرانے کے لئے پر عزم ہے۔