*حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے کارنامے*
علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے تاریخی مضمون، “ہندوستان میں علمِ حدیث” میں ایک جگہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: حضرت شاہ صاحبؒ کے کارناموں کی تفصیل کے لیے ایک مستقل دفتر کی ضرورت ہے، لیکن ہم نہایت اختصار کے ساتھ اہلِ ہند (غیر منقسم ہندوستان) پر ان کے علمی و دینی احسانات کا ذکر کرتے ہیں۔
۱- مغلیہ دربار پر ہمایوں سے لے کر اب تک تشیع کا رنگ غالب تھا، دربار میں ایرانی امراء کی کثرت ہمیشہ رہی، ان کا اثر نیچے تک درجہ بدرجہ نمایاں تھا اور شاہ صاحبؒ کے عہد میں لکھنؤ کی نوابی کے سبب سے مسلمانوں پر اور زیادہ اثر پڑ رہا تھا۔ علمائے اہلِ سنت میں اس اثر کے روکنے کی ہمت اور جرأت نہیں تھی، حضرت مجدد الف ثانیؒ جو اکبر اور جہانگیر کے عہد میں تھے، ان کے مکتوبات اس غم و ماتم سے لبریز ہیں۔ حضرت شاہ صاحبؒ پہلے شخص ہیں، جنہوں نے نہایت تحقیق و کاوش اور نہایت سنجیدگی اور متانت سے اس کام کو انجام دیا اور “ازالة الخفاء عن تاريخ الخلفاء” جیسی عالمانہ اور محدثانہ کتاب تالیف کی، جس میں سینکڑوں ہزاروں حدیثوں کے ذریعہ سے خلفائے راشدینؓ کے مناقب و فضائل کے رموز و نکات کھولے، جو اب تک نہیں کھلے تھے۔
٢- عقائد و کلام کی بے سروپا و لغو تلقینات، جن پر اب تک علمِ دین کا گویا مدار سمجھا جاتا تھا، ان کا بھرم کھول کر رکھ دیا اور ان کے مقابلہ میں قرآن و سنت کے اسرار و مصالح منظر عام پر لائے اور ہندوستان کے علماء کو ان کی سات سو برس کی غلط کاریوں پر متنبہ کیا۔
٣- قرآن پاک جو اصل اسلام کا مرکز و محور ہے اور جو ہندوستان میں اب تک صرف متبرک تلاوت کے لیے مخصوص تھا، اس کے فہم و تعلیم کی طرف لوگوں کو دعوت دی، تفسیر کے اصول لکھے، قرآن کا فارسی میں مختصر لغت لکھا، قرآن پاک کے درس کا حلقہ قائم کیا اور اس کو پڑھنے اور سمجھنے کی کتاب بتایا۔
۴- عربی زبان کی ناواقفیت قرآن و حدیث کے سمجھنے میں عام لوگوں کے لیے عائق تھی، اس کو دور کرنے کے لیے اپنے عہد کی علمی زبان فارسی میں قرآن پاک کا ترجمہ کیا اور موطا کی فارسی میں شرح لکھی۔
۵- اب تک ہندوستان میں جو فقہ حنفی مروج تھی، وہ تمام تر فتاویٰ کی نقل در نقل کورانہ تقلید تھی اور ہر وہ کتاب جو کسی حنفی عالم نے پہلے لکھ دیا ہو، وہ استناد کے قابل سمجھی جاتی تھی اور خاص امام ابوحنیفہؒ کا مسلک بن جاتی تھی، شاہ صاحبؒ نے اس تقلیدی فقہ کی جگہ تحقیقی فقہ کا رواج دیا، ہر مسئلہ میں وہ ہر امام و مجتہد کی مختلف رایوں اور اجتہادوں اور ان کی دلیلوں اور سندوں سے واقف تھے، وہ ان میں باہم تطبیق دیتے تھے اور ترجیح دیتے تھے، مجتہدین کے اختلاف کے اسباب بتائے، اجتہاد و تقلید کی تشریح کی اور کتاب و سنت کی اتباع و پیروی کی دعوتِ عام دی۔
٦- شاہ عبدالحقؒ کی کوششوں کی تکمیل کی، تالیف و تحریر کے ذریعہ کتبِ حدیث کو عام کیا، حدیث کی اولین اور صحیح ترین کتاب موطا امام مالک کی فارسی اور عربی میں مجتہدانہ دو شرحیں لکھیں، صحیح بخاری کے تراجم کی شرح کی اور “الفضل المبين في مسلسل من حديث النبي الامين” ایک رسالہ لکھا، فقہ و اسرارِ حدیث میں “حجة الله البالغة” جلد دوم لکھی۔
٧- خود ہندوستان میں حدیث کے درس و تدریس کے باقاعدہ حلقے قائم کیے اور ان کے بعد ان کے تلامذہ نے تمام ملک میں پھیل کر اس فیض کو عام کیا۔
٨- اللہ تعالیٰ نے ان کے حسنِ نیت کا ثمرہ ان کو یہ دیا کہ ان کو ایسی لائق اور فائق اولادیں عطا کیں، جنہوں نے اپنے والد بزرگوار کے ناتمام کاموں کی پوری تکمیل کی اور ہندوستان کے گوشہ گوشہ کو پیغامِ نبوی کے آوازہ سے معمور کردیا۔ آج ہندوستان (برصغیر) میں جہاں بھی “قال قال رسول اللہ” کی کوئی آواز سنائی دیتی ہے، وہ اسی خانوادۂ فضل و کمال کی خیر و برکت کی صدائے بازگشت ہے۔
حوالہ: معارف: نومبر: ١٩٢٨ء/صفحہ: ۳۴۲/۴۳/انتخاب و پیشکش: طارق علی عباسی
(ماخذ : علم و کتاب واٹس ایپ گروپ)