سب کچھ بننا آسان ہے مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از: جاوید اختر بھارتی
javedbharti.blogspot.com
نمازی بننا آسان ہے ، حاجی بننا آسان ہے ، روزہ رکھنا آسان ہے ، لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ معاملات کی درستگی بہت مشکل کام ہے ،، لیکن مشکل سمجھ کر اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ معاملات کی درستگی ہر حال میں ضروری ہے کیونکہ یہ معاملہ حقوق العباد سے جڑا ہوا ہے ،، اصلی گھی میں ڈالڈا کی ملاوٹ نہیں کی جاسکتی، امانت میں خیانت نہیں کی جاسکتی ، جھوٹ بول کر تجارت نہیں کی جاسکتی ، اچھے مال میں ہلکا مال ملانے کی اجازت نہیں ، دودھ میں پانی ملانے کی اجازت نہیں ، ناپ تول میں کمی کرنے کی اجازت نہیں ،جھوٹ بول کر مال بیچنے و خریدنے کی اجازت نہیں ، لیکن آج سب کچھ ہورہاہے اصلی میں ڈالڈا بھی ملایا جارہا ہے ، ناپ تول میں کمی بھی کیا جارہاہے ، جھوٹ بول بول کر مال خریدا اور بیچا بھی جارہا ہے ، امانت میں خیانت بھی کیا جارہاہے ، دودھ میں پانی بھی ملایا جارہا ہے آج کا مسلمان جھوٹ کے معاملے میں تو حدیں پار کرچکا ہے رشتہ داروں سے ، دوست و احباب سے ، اپنے ماتحتوں سے اور مزدوروں سے دن رات جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ کی بنیاد پر اپنے آپ کو چالاک سمجھتا ہے جبکہ مذہب اسلام کے اندر جھوٹ کی رائی کے دانے کے برابر بھی گنجائش نہیں ہے کیونکہ جھوٹ کو گناہوں کی جڑ کہا گیاہے لیکن آج بہت سے انسانوں کے ساتھ بہت سے مسلمان بھی بلا جھجک یہ بات کہتے ہیں کہ جھوٹ کے بغیر کام ہی نہیں چل سکتا ،، یاد رکھیں اگر مسلمان ہوکر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہوکر جھوٹ کے معاملے میں مذکورہ نظریہ ہے تو ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا گیاہے (فی قلو بہم مرض فزادہم اللہ مرضا) یعنی جو حقائق کو ٹھکرا کر جھوٹ پریقین رکھتاہے تو اس کو اسی مرض میں مبتلا کردیا جاتاہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم اللہ پر بھروسہ رکھیں کیونکہ رزق دینے والی ذات پروردگار کی ہے اللہ رب العالمین کے علاوہ کوئی روزی نہیں دے سکتا ،، ایک پرندہ صبح سے شام تک اڑتا ہے کبھی درخت پر، کبھی کسی کے مکان پر ، کبھی میدان میں تو کبھی جنگل میں مگر شام کو جب وہ اپنے گھونسلے میں واپس آتا ہے تو اس کا پیٹ بھرا ہوتا ہے اور اپنے بچوں کے لئے منہ میں گھاس دبائے ہُوئے ہوتاہے کیا کوئی انسان اس پرندے کے منہ میں گھاس دیتا ہے؟ دریا سے لے کر سمندر تک میں رہنے والی مچھلیوں کو کھانا کون کھلاتا ہے ؟ خالق ومالک اللہ ہے ،، وہ قادر مطلق ہے ،، وہ اپنے بندوں سے اتنا قریب ہے اتنا قریب ہے کہ شہہ رگ سے بھی قریب ہے اس کا قانون بہت واضح ہے وہ نہ تو کسی پر ظلم کرتا ہے اور نہ ظلم کرنے والے کو پسند کرتاہے کھجور کی گٹھلی کے باریک چھلکے کے برابر بھی اس کے دربار میں ناانصافی کی گنجائش نہیں ہے یہاں تک کہ دنیا میں کسی سنگھ والی بکری کسی بغیر سنگھ والی بکری کو مارے گی تو حساب وکتاب کے دن بغیر سنگھ والی بکری کو رب ذوالجلال سنگھ عطا کرکے کہے گا کہ آج تو بھی مار جس طرح دنیا میں اس نے تجھے مارا تھا –
آج پوری رات جلسے ہوتے ہیں لیکن معاشرے کی اصلاح نہیں ہوتی سوسائٹی کے اندر تبدیلی نہیں آتی ،، اصل بات یہ ہے کہ اللہ پر بھروسہ کمزور ہوچکاہے ، دلوں سے خوف خدا نکل چکا ہے سبزی پر پانی چھڑکنے کا مطلب تو سمجھ میں آتا ہے کہ دھوپ لگے گی تو سبزی سوکھ جائے گی مگر کھجوروں کے ڈھیروں پر پانی کیوں چھڑکا جاتاہے وہ بھی کھجوروں کے ڈھیروں کے اوپر نیچے نہیں بلکہ درمیانی حصے میں پانی چھڑک کر وزن پکڑانے کی غرض سے عوام کو دھوکا دیا جاتاہے ، اچھے کپڑوں کے بنڈلوں میں چھیر چھاپہ والے کپڑے بھی فروخت کردئیے جاتے ہیں اور بے عیب مالوں اور کپڑوں کی قیمت وصول کی جاتی ہے ،، سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے ہمراہ ایک بار کھجور کے بازار سے گذر رہے تھے کہ اچانک کھجور کے ایک ڈھیر میں ہاتھ ڈال دیا اور جب نکالا تو ہاتھ بھیگا ہوا تھا فرمایا نبی اکرم نے کہ یاد رکھو جو تجارت میں دھوکا دے وہ ہم میی سے نہیں ،، آج کے تاجر ذرا غور کریں کہ تجارت کے میدان میں ہمارا دامن کتنا صاف ہے ؟ مسلم معاشرے میں آج بھی تعلیم کا وہ ماحول نہیں ہے جو ہونا چاہئے یاد رکھیں مذہب اسلام کے اندر علم حاصل کرنا فرض قرار دیا گیا ہے قرآن کی پہلی آیت ہی اقرأ ہے اسی سے تعلیم کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے تعلیم ترقی کا ذریعہ ہے تعلیم قوموں کے عروج و زوال کا سبب بنتی ہے ، تعلیم سے ہی جائز اور ناجائز کی پہچان ہوتی ہے ، بھلے اور برے کی تمییز ہوتی ہے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تعلیم دینی ہو یا عصری قوم و ملّت کے لئے اور انسانیت کے لئے نفع بخش ہے تو وہ بہتر ہے اور جس تعلیم سے انسانیت کو نقصان پہنچے وہ تعلیم غلط ہے اسی لئے جادو کا علم حاصل کرنا اور رقص و سرور و موسیقی کا علم حاصل کرنے کی مذہب اسلام میں اجازت نہیں ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آج کا انسان اور آج کا مسلمان دنیاوی رنگینیوں میں ڈوبتا جارہا ہے ہر چیز کو ہربات کو ہر پہلو کو بس رسم ورواج سمجھ رکھا ہے چالیس چالیس سال تک نعت نبی پڑھنے والے بڑی تعداد میں ایسے ملیں گے کہ جن کی شکل وصورت مسلمانوں جیسی نہیں ، بیٹا بیٹی کو پڑھاکر عالم دین تو بنادیا لیکن باپ کے چہرے پر ڈاڑھی تک نہیں یہ حال ہے ہمارے معاشرے کا اور یہ حال ہے آج کے مسلمانوں کا ،، فجر کی اذان ہوتی ہے مسلمان سکون سے سویا رہتاہے ، ظہر کی اذان ہوتی ہے اور مسلمان کاروبار میں مصروف رہتاہے ، عصر کی اذان ہوتی ہے اور مسلمان چائے خانوں میں قہقہے لگاتا رہتاہے ، مغرب کی اذان ہوتی ہے اور مسلمان سیر وتفریح کرتا رہتاہے ، عشاء کی اذان ہوتی ہے اور مسلمان دنیاوی بحث و مباحثہ میں مست رہتاہے ، اب رات ہوگئی ناجائز تعلقات کی بنیاد پر لڑکے اور لڑکیاں موبائل پر گھنٹوں گھنٹوں باتیں کرنے میں مصروف ، بیوی بچوں کے خیال سے منہ موڑ کر ڈھابوں پر کھانا کھانے میں مصروف ، اس کے بعد سیریل دیکھنے مصروف رات کا آخری حصہ جو قرب خداوندی پانے کا وقت ہوتاہے ، اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھانے کا وقت ہوتاہے ، آنکھوں سے آنسو بہانے کا وقت ہوتاہے ، اللہ رب العالمین سے لو لگا کر مانگنے کا وقت ہوتاہے تو نیند کا غلبہ ہوتا ہے جمائی اور انگڑائی آنا شروع ہوجاتی ہے بستر پر گیا اور سوگیا ابھی سویا ہی تھا کہ مسجد سے مؤذن اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرنے لگا مگر ہم ہیں کہ کھرانٹے مارتے ہوئے سوتے ہیں فجر کی جماعت ہورہی ہے اور ہم سورہے ہیں ، روزی تقسیم ہورہی ہے اور ہم سو رہے ہیں یہی ہمارا مشغلہ بن چکا ہے اور اسی وجہ سے آج ہم پوری دنیا میں ذلیل وخوار ہورہے ہیں اسرائیل کی جتنی آبادی ہے اس سے زیادہ مسلمانوں کے پاس مولانا موجود ہیں لیکن پھر بھی اسرائیل نے پوری دنیا کو پریشان کررکھا ہے ،، جبکہ مسلمان یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حالت بیماری میں روزہ معاف ہے ، مالک نصاب نہیں تو زکاۃ معاف ہے ، استطاعت نہیں ہے تو حج وعمرہ کے لئے بھی نہیں جانا ہے لیکن جنگ کا میدان ہو یا الیکشن کا میدان نماز معاف نہیں ، حالت بیماری میں کھڑے ہوکر پڑھنے کی طاقت نہیں تو بیٹھ کر پڑھیں لیکن نماز معاف نہیں ، بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتے تو لیٹ کر پڑھیں اور اشارے سے پڑھیں لیکن نماز معاف نہیں ، پانی نقصان پہنچا سکتاہے تو تیمم کریں اور نماز پڑھیں گھر پر ہوں یا سفر میں ہوں ہر حال میں نماز پڑھنا ہے اذان ہوگئی تو کام بند کرنا ہے اور نماز پڑھنا ہے صرف کھانا کھاتے وقت اذان ہونے لگی تو کھانا پورا کھانے کی اجازت ہے اور رفع حاجت کے دوران اذان ہونے لگی تو فارغ ہونے کی اجازت ہے دونوں کاموں کو پورا کرکے نماز پڑھنا ہے یعنی نماز ایک ایسی عبادت ہے جو کبھی معاف نہیں لیکن پھر بھی مسجدیں ویران نظر آتی ہیں جبکہ نماز سے غافل رہ کر کوئی دوسری عبادت قابل قبول نہیں ہے ،، چاہے امیر ہو یا غریب ، سرمایہ دار ہو یا مزدور ، عربی ہو یا عجمی، گورا ہو یا کالا ، شہر کا ہو یا دیہات کا، محل میں رہنے والا ہو یا جھونپڑی میں ، لیڈر ہو یا ووٹر، مسافر ہو یا ڈرائیور، مخمل کے بستر پر سونے والا ہو یا اخبار بچھاکر فٹ پاتھ پر سونے والا ہو موت تو آنی ہی آنی ہے آج نہیں تو کل ،، پھر کس بنیاد پر ہم غافل ہیں ،، آج سارا بگاڑ مسلمانوں کے اندر ، سارا اختلاف مسلمانوں کے اندر ، مسلک کے نام پر جھگڑا، فرقہ بندی کے نام پر جھکڑا، ذات برادری کے نام پر جھگڑا ، مساجد ومدارس کے نام پر جھگڑا، پڑوسی کا پڑوسی سے جھگڑا، قدم قدم پر مشکلات لڑائی جھگڑا جبکہ حکم تو یہ ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو ، متحد رہو اور شیشہ پلائی دیوار بن جاؤ ، ایک دوسرے کے خلاف زبان درازی نہ کرو،زمین پرفساد برپا نہ کرو ، اپنے جسم کے اعضاء سے کسی دوسرے انسان کے جسم کے اعضاء کو تکلیف نہ پہنچاؤ ، پڑوسیوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کرو ، کسی کا کچھ بنا نہیں سکتے تو بگاڑنے کی کوشش نہ کرو، اپنے بڑوں کی عزت کرو اور چھوٹوں کے ساتھ پیار ومحبت اور شفقت کا معاملہ کرو یعنی اپنے اخلاق کو بلند رکھو ، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور یاد رکھو محبت میں آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کا بھرم رکھنے والا اللہ ہی ہے دوسرا کوئی نہیں یہی اسلامی تعلیمات ہے اب ہم اپنا محاسبہ کریں کہ اسلام کی تعلیمات پر ہم کتنے عمل پیرا ہیں اور اسلام کی شیتل چھایا میں ہم پورے کے پورے داخل ہیں یا نہیں –
javedbharti508@gmail.com
+++++++++++++++++++++
جاوید اختر بھارتی (رکن مجلس شوریٰ جامعہ فیض العلوم) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی