کرناٹک میں فرقہ واریت کا بڑھتا ہوا سایہ
مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی نئی چالیں
از : عبدالحلیم منصور ,
ٹمکور، کرناٹک
کرناٹک، جو ہمیشہ سے اپنی گنگا جمنی تہذیب کے لیے مشہور تھا، آج فرقہ وارانہ سیاست کا اکھاڑہ بنتا جا رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں زعفرانی سیاست کی جانب سے مذہبی منافرت کو بڑھاوا دینے کی کوششیں مسلمانوں کے لیے نئے چیلنجز پیدا کر رہی ہیں۔یہ ریاست،اب فرقہ وارانہ طاقتوں کی جانب سے ایک تجربہ گاہ بنتی جا رہی ہے۔ ایسے وقت میں جب زعفرانی جماعت کی ریاستی یونٹ داخلی انتشار کا شکار ہے اور اپنی بقاء کی جدوجہد کر رہی ہے، وہیں یہاں فرقہ وارانہ سیاست کو بڑھاوا دے کر ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کی کوششیں تیز ہو چکی ہیں۔
حالیہ تنازعات کے دوران ایک نیا ہتھکنڈہ سامنے آیا ہے، جہاں بی جے پی کی مسلم خاتون ترجمان نازیہ الٰہی خان نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ وزیر اعلیٰ سدارامیا کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ ان کے بیانات نے نہ صرف مسلم کمیونٹی میں گہری مایوسی پیدا کی ہے بلکہ ریاست میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بھی متاثر کیا ہے۔
نازیہ الٰہی خان: ایک نیا فتنہ
نازیہ الٰہی خان، جو کبھی ترنمول کانگریس سے وابستہ رہ چکی ہیں اور عشرت جہاں معاملے میں سپریم کورٹ میں وکالت کا دعویٰ کرتی ہیں، حالیہ دنوں میں بی جے پی کی نمائندگی کرتے ہوئے تنازعات کا مرکز بن گئی ہیں۔ ان کا تعلق مغربی بنگال سے ہے۔ گزشتہ ہفتہ کرناٹک کے بلگاوی ضلع کے سولے بھاوی کے ایک دیہات میں ہندوؤں میں بیداری پیدا کرنے کے مقصد سے منعقدہ “بٹیں گے تو کٹیں گے، ایک ہیں تو سیف ہیں” مہم کے دوران ان کے بیانات نہایت اشتعال انگیز اور مسلمانوں کے خلاف تعصب پر مبنی تھے۔نازیہ الٰہی خان نے اپنی تقریر میں وزیر اعلیٰ سدارامیا کو “بدکردار” کہا، اور مسلم مردوں اور خواتین کے رشتوں کو نازیبا الزامات کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے مساجد کے تقدس پر حملہ کرتے ہوئے غیر مناسب باتیں کیں اور مسلم مردوں کو “شہوت پرست” قرار دینے کی کوشش کی۔ یہ بیانات واضح طور پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جذبات کو ہوا دینے اور ہندوؤں کو اشتعال دلانے کے لیے دیے گئے۔سوال یہ ہے کہ بی جے پی جیسی نظریاتی جماعت نے ایک مسلم خاتون ترجمان کو ایسے بیانات دینے کی اجازت کیوں دی؟ کیا یہ فرقہ وارانہ ایجنڈے کو تقویت دینے کی حکمت عملی ہے؟ اس خاتون نے فخریہ انداز میں اپنے آپ کو سناتنی قرار دیا۔ اس نے ایسی ایسی من گھڑت باتیں کیں اور اشتعال انگیز خطاب کیا جس کے اثرات کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ آخر اس سے وہ کیا حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی تھیں، کیا انہیں اس بات کا اندازہ بھی ہوگا کہ ان کے سخت انداز میں دیے گئے من گھڑت بیانات کے بعد کس طرح کا معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے، زمینی سطح پر اس کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ کس طرح ہم آہنگی اور بھائی چارہ متاثر ہو کر نفرت پر مبنی ماحول بن سکتا ہے ؟
یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم زور پکڑ رہی ہے، موجودہ سیکولر حکومت اور وزیر اعلیٰ سدارامیا اس معاملے پر ٹھوس اقدامات کرنے میں ناکام ہیں۔ کرناٹک کے مسلمانوں نے ہمیشہ فرقہ وارانہ طاقتوں کے خلاف سیکولر جماعتوں کا ساتھ دیا ہے، لیکن بدلے میں انہیں ناانصافی اور تنازعات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وقف بورڈ کے تنازعات میں بھی انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا جس میں حکومت نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اگر کسی وقف املاک پر دیگر مذاہب کی عبادت گاہ بن گئی ہے تو اسے جائز قرار دیا جائے گا۔ مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت، اور فرقہ وارانہ بیانیے کی خاموشی کے ذریعے درپردہ حمایت مسلمانوں کو مزید الگ تھلگ کرنے کی سازش ہے۔ گزشتہ ماہ ہی ریاست میں ایک اور بنیاد پرست تنظیم کے ذریعے جنگی مشقوں کے لیے تربیتی کیمپ بھی منعقد ہوا تھا۔
فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خطرہ
نازیہ الٰہی خان کے بیانات کے بعد مسلمانوں میں غم و غصہ بڑھ گیا اور مقامی سطح پر مظاہرے کے بعد مقامی رہنما افسر ماکٹو صاب جمعدار کی شکایت پر پولیس نے ان کے خلاف مقدمہ تو درج کیا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ کافی ہوگا؟ نازیہ کے بیانات مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنے اور غیر مسلموں کے ذہنوں میں نفرت پیدا کرنے کی سوچی سمجھی سازش معلوم ہوتی ہے۔ اس طرح کے بیانات کا اثر نہ صرف مسلمانوں پر بلکہ پورے معاشرے پر پڑتا ہے۔ اس متنازع خاتون پر پہلے بھی دیگر ریاستوں میں شکایات درج ہو چکی ہیں، اس کے باوجود کرناٹک میں ان کے پروگرام کو کس بنیاد پر اجازت دی گئی، یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔
اس موقع پر مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی کمیونٹی میں اتحاد پیدا کریں، مسلکی اختلافات کو دور کریں اور دیگر مذاہب کے ساتھ مکالمے کا آغاز کریں۔ غلط فہمیوں کو دور کرنے اور اسلام کی اصل تعلیمات کو پیش کرنے کے لیے بین المذاہب مکالمے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ سماجی خدمات اور فلاحی کاموں کے ذریعے اپنی مثبت شبیہ کو پیش کریں تاکہ عوام کے ذہنوں میں موجود منفی تصورات کا خاتمہ ہو۔
ایک سیاسی سازش یا سماجی انتشار؟
حالیہ تنازعات صرف ایک مخصوص طبقے کو نشانہ بنانے تک محدود نہیں ہیں بلکہ یہ پورے معاشرے کو مذہبی اور سماجی خطوط پر تقسیم کرنے کی ایک بڑی سیاسی سازش کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ کرناٹک جیسے ریاست میں جہاں مختلف مذاہب اور تہذیبوں کے لوگ صدیوں سے پرامن بقائے باہمی کی مثال پیش کرتے آئے ہیں، ایسے بیانات اور واقعات ان تمام روایات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
نازیہ الٰہی خان کے بیانات صرف مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کا سبب نہیں بنے بلکہ اس سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مزید دوریاں پیدا ہونے کا خدشہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔ ایسے وقت میں حکومت کی خاموشی اور پولیس کا محدود ایکشن ایک سوالیہ نشان چھوڑتا ہے کہ کیا یہ کسی بڑے سیاسی ایجنڈے کا حصہ تو نہیں؟
“میر کا یہ شعر آج کے حالات کی بہترین عکاسی کرتا ہے:
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں”
اس موقع پر ضروری ہے کہ تمام فرقہ وارانہ بیانات کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے، چاہے وہ کسی بھی مذہب یا کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے ہوں۔ اشتعال انگیزی پر مبنی تقاریر نہ صرف ایک کمیونٹی کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ پورے سماج کے امن اور ترقی میں رکاوٹ بنتی ہیں۔
کرناٹک کے مسلمانوں کے لیے یہ وقت نہایت حساس ہے۔ وقف بورڈ کے مسائل ہوں یا مذہبی جذبات کو مجروح کرنے والے بیانات، ہر سطح پر کمیونٹی کو چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، مسلمانوں کو اپنی ترجمانی کے لیے مضبوط قیادت کی ضرورت ہے جو فرقہ واریت اور منافرت کے خلاف مؤثر طریقے سے آواز اٹھا سکے۔
یہ وقت مسلمانوں کے اندرونی اختلافات کو ختم کرکے یکجہتی کے مظاہرے کا ہے۔ ایک مضبوط، تعلیم یافتہ اور متحد کمیونٹی ہی ان مسائل کا سامنا مؤثر طریقے سے کر سکتی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی تعلیم، معیشت، اور سماجی اصلاحات پر توجہ مرکوز کریں اور اپنے مسائل کے حل کے لیے اجتماعی جدوجہد کریں۔
کرناٹک میں فرقہ وارانہ ماحول کو سازشوں سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ عوام اپنے دماغ اور دل سے کام لیں اور سیاست دانوں کے بیانیوں کے شکار نہ بنیں۔ مسلمانوں کے لیے یہ وقت خود احتسابی اور اتحاد کا ہے تاکہ وہ ان مسائل سے نمٹ سکیں اور اپنی شناخت کو محفوظ رکھ سکیں۔
کرناٹک کے مسلمان اس وقت تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ وہ تعلیم، معیشت، اور سماجی اصلاحات کے ذریعے اپنی کمیونٹی کو مضبوط کریں۔ داخلی اتحاد، مذہبی ہم آہنگی، اور سیاسی شعور ہی وہ عوامل ہیں جو انہیں اس مشکل دور سے نکال سکتے ہیں۔
(مضمون نگار معروف صحافی وتجزیہ نگار ہیں)
haleemmansoor@gmail.com
Mobile number: 9448381282