میری امی —
ودود ساجد
پچھلے سال 12جنوری نے ہمیں بہت رُلایا تھا۔ اسی روز ہم بعد نماز ظہر اپنی والدہ کو منوں مٹی کے نیچے دفناکر آگئے تھے۔ جس ذات نے ہمیں اپنے ہاتھوں سے پالا پوسا اسے اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارنا پڑا۔۔۔
ماں تو ماں ہوتی ہے۔ جس کے سر سے اس کا سایہ اٹھ جائے اور جس کے ہاتھوں سے یہ نعمت چھن جائے بس وہی اس کا دکھ جانتا ہے۔ سہارنپور میں میرے عزیز ترین دوست شبیر شاد اپنی والدہ کے انتقال کا دکھ ان کی وفات کے پچاس برس بعد تک بھی نہیں بھول سکے تھے۔ آج سے 12روز پہلے وہ بھی 66 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وہ محض 13سال کے تھے جب ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا تھا۔
ہماری والدہ کا انتقال اس لئے بھی زیادہ تکلیف دہ تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں بھی ہمیں کوئی تکلیف نہیں دی۔ دسمبر 2023 میں میری چھوٹی بیٹی کا نکاح ہوا تو پہلی بار اتنے دنوں تک وہ دہلی میں میرے اور چھوٹے بھائی حافظ محفوظ محمد کے گھر مقیم ہوئیں۔دہلی میں ان کی طبیعت نہیں لگتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے ایک مہینہ سے زیادہ یہاں گزارا۔۔۔
میری والدہ کا تعلق مغربی یوپی کے قصبہ بہٹ کے ایک علمی گھرانے سے تھا۔ ہمارے نانا حافظ رفیق احمد ایک مجاہد آزادی تھے۔ میری والدہ جنگ آزادی اور اس کے بعد دو ملکوں کی جنگوں کے واقعات سنایا کرتی تھیں۔ والد مرحوم ایک بڑے جید عالم دین اورعربی’ فارسی اور پنجابی زبانوں کے ماہر تھے۔ ان کا تعلق مغربی یوپی کے ایک گائوں ’نوگانوہ‘ سے تھا۔ ان کا سلسلہ نسب مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی سے جاملتا ہے۔ میری والدہ متمول خاندان سے تھیں لیکن والد صاحب نے اپنی دنیا خود آباد کی تھی۔ان کی تربیت ہمارے تایا نے کی تھی۔ ہمارے دادا کا انتقال ہمارے والد کی پیدائش کے چند روز بعد ہی ہوگیا تھا۔ جلد ہی دادی بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ والد صاحب نے والدہ سے کہہ دیا تھا کہ صبر و قناعت کے ساتھ میرے ساتھ زندگی بسرکرنی ہے اور اپنے اہل خانہ کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرنا ہے۔۔ اس حال میں بھی میرے والدین انتہائی فیاض تھے اور حاجت مندوں کیلئے فوراََ اٹھ کھڑے ہوجاتے تھے ۔۔ مہمانوں کا تو بس ہر روز استقبال ہوتا تھا ۔۔ خالق کائنات نے اسی وصف کی برکت سے سب کچھ عطا کر رکھا تھا ۔۔
والد صاحب نے گھر پر ہی کم سنی میں قرآن پاک حفظ کرا دیا تھا۔ اب وہ عربی اور فارسی کی تربیت دیتے تھے۔ بلکہ گھر پر ہمارے ساتھ عربی اور فارسی زبان میں ہی گفتگو کرتے تھے۔ ہندی ‘انگریزی اور ریاضی کیلئے گھر پر ہی ٹیوشن لگادیا تھا۔ لیکن والدہ چاہتی تھیں کہ علوم نبوی کے ساتھ ساتھ دیگر جدید علوم کی تحصیل کا بھی باقاعدہ نظم کیا جائے۔ والد صاحب عید کے روز بھی نماز دوگانہ کے بعد قرآن لے کر کھڑا کردیتے تھے۔ والدہ کہتی تھیں کہ آج کے دن تو جاروب کش(جھاڑو لگانے والے) کی بھی چھٹی ہوجاتی ہے‘ آپ میرے بچے کو آج کے دن بھی پڑھنے سے رخصت نہیں دیتے۔ والد صاحب ہنس کر امی کےاس’ احتجاج‘ کو ٹال دیا کرتے تھے۔ ابتدائی اسکول کی تعلیم کے بعد مدرسہ کی تعلیم کے دوران والدہ نے کہا کہ ہائی اسکول (دسویں کلاس) کا امتحان پرائیویٹ طور پر دینا ضروری ہے‘ ورنہ اس میدان میں پیچھے رہ جانے کا خطرہ ہے۔ اس وقت والد صاحب کی اتنی استطاعت نہیں تھی کہ پرائیویٹ امتحان کی فیس جمع کراسکیں۔ آخر کار میری امی نے اپنے سر کی وہ چادر جو پڑوسی ملک سے بڑے شوق سے منگائی تھی فروخت کرکے مجھے 75 روپیہ دئے تھے۔
ہم بھائی بہنوں کی خوش نصیبی یہ ہے کہ ہماری علمی تربیت دونوں نے کی تھی۔ میرے والد صاحب سہارنپور میں قیام کے دوران ہرمہینے کے دوسرے سنیچر کو منعقد ہونے والی ’بزم فارسی‘ میں لے کر جایا کرتے تھے۔ علامہ شاہ سمیع الرحمن کے مکان پر منعقد ہونے والی اس بزم کا اصول یہ تھا کہ یہاں کوئی فارسی کے علاوہ کسی اور زبان میں بات نہیں کرسکتا تھا۔ اس بزم میں اپنے وقت کی بڑی بڑی علمی شخصیات شرکت کرتی تھیں ۔ اس کی تفصیل پھر سہی۔ ایک روز مجھے والد صاحب نے امیرخسرو کا فارسی کلام ’خبرم شدست کامشب بزیار خواہی آمد‘ یاد کرنے کیلئے کاغذ پر لکھ کر دیا۔ اس کی طرز بھی مجھے یاد کرادی گئی۔ لہذا میں گھر میں گھوم گھوم کر اسی طرز میں بلند آواز سے یہ کلام پڑھ رہا تھا۔ اس میں ایک جگہ ایک مصرعہ کے آخر میں ’بہ قمار خواہی آمد‘ بھی آتا ہے۔ لیکن میں “ق” کی جگہ “چ” پڑھ رہا تھا اور بلند آواز سے پوری لے میں ’بے چمار خواہی آمد‘ پڑھ رہا تھا۔ میری والدہ کے کانوں میں جب یہ جملہ پڑا تو انہوں نے مجھے روک کر پوچھا کہ کیا پڑھ رہے ہو؟ میں نے لکھا ہوا دکھایا تو بے ساختہ ہنس پڑیں اور بتایا کہ یہ ’بہ قمار‘ ہے بے چمار نہیں۔
واقعات سینکڑوں ہیں‘ یادیں ہزاروں ہیں۔ سب کا احاطہ اس پوسٹ میں ممکن نہیں ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ میرے اندر اپنی والدہ کی یاد میں لکھنے کی سکت نہیں ہے۔ یہ تو میرے برادر خورد حافظ محفوظ محمد پچھلے ایک ہفتہ سے مصر تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اماں تھیں تو ہر مشکل کے وقت انہیں فون کرتا تھا اور پھر سکون مل جاتا تھا۔ لیکن اب نہیں ہیں تو کم سے کم ان کی یاد میں کچھ سطور ہی تحریر کردیجئے۔
حاف محفوظ نے امی کیلئے ایک نظم بھی لکھی تھی جو ملت فاونڈیشن کے کئی سو اسکولوں کی تیسری کلاس کی اردو کی درسی کتاب میں پڑھائی جا رہی ہے۔ اس نظم کا کتابی عکس یہاں دیا جا رہا ہے ۔۔ میری امی میرا ہر مضمون بصد اہتمام پڑھتی تھیں ۔۔ جب کبھی مقررہ دن مضمون نہیں آتا تھا تو فون کرکے معلوم کرتی تھیں کہ طبیعت تو ٹھیک ہے’ مضمون کیوں نہیں آیا؟ ۔۔
آج ان کی تدفین پر پورا ایک سال گزر گیا ہے۔ سال2023 کے دسمبر میں میری اہلیہ نے مجھے بتایا تھا کہ آج “اماں” نے میری روح فنا کردی تھی۔ قصہ یوں ہے کہ بیٹی کی شادی کی تقریب سے پہلے مہمانوں کے قیام کی تیاری دکھانے کیلئے میری اہلیہ “اماں” کو فرسٹ فلور سے گراؤنڈ فلور پر لے کر آئی تھیں ۔ صفائی ستھرائی بھی چل رہی تھی ۔۔ پارکنگ بھی کھلی ہوئی تھی۔۔ اہلیہ صفائی ستھرائی کی نگرانی میں مصروف ہوگئیں ۔۔۔ اچانک خیال آیا کہ “اماں” ارد گرد نہیں ہیں ۔۔ تلاش کرنے فرسٹ فلور پر آئیں ۔۔ پھر فورتھ فلور تک دیکھ آئیں ۔۔ چھت پر بھی دیکھا۔۔۔ پریشان ہوکر پھر نیچے آئیں۔۔۔ اچانک نظر پارکنگ کے اندرونی دروازے پر پڑی۔۔۔ اندر جھانک کر دیکھا تو یہ بھی دیکھا: میری والدہ میری گاڑی کے بونٹ پر اس طرح شفقت سے ہاتھ پھیر رہی ہیں جیسے بچہ کے سر پر پھیرا جاتا ہے۔۔دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی تھیں ۔۔۔ کبھی شیشے سے اندر جھانکتی تھیں ۔۔۔سچی بات یہ ہے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے انہی کی قربانیوں اور دعاؤں کے سبب ہے۔۔
ربنا اغفرلی ولوالدی وللمؤمنین یوم یقوم الحساب۔۔۔