لاس اینجلس کیا ہے اور آگ کیسے لگی؟
چاہت محمد قریشی قاسمی
لاس اینجلس متحدہ امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کا سب سے بڑا اور امریکہ کا دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ یہ دنیا کے مشہور شہروں میں شمار ہوتا ہے اور کئی وجوہات کی بنا پر نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ لاس اینجلس بحرالکاہل کے ساحل کے قریب کیلیفورنیا کے جنوبی حصے میں واقع ہے اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ سیرو سیاحت دل لگی، دل چسپی اور تفریحات کےلئے جو بھی سامان ہونا چاہئے وہ سب یہاں موجود ہے جیسے یہاں ساحل، پہاڑ، اور صحرائی علاقے موجود ہیں۔ جن میں شرم و حیا سے عاری نیم عریاں خوبصورت حسینائیں دل لبھاتی ہیں اور شراب و شباب کی محفلیں ہمہ وقت جاری رہتی ہیں۔
نیز لاس اینجلس کو “اینٹرٹینمنٹ کیپٹل آف دی ورلڈ” کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ہالی وُڈ فلم انڈسٹری کا مرکز ہے۔ جس میں دنیا کے بہت سے مشہور اسٹوڈیوز پائے جاتے ہیں، اور چونکہ یہاں دنیا کی کئی مشہور یونیورسٹیاں بھی واقع ہیں جس کی وجہ سے یہ تعلیمی لحاظ سے بھی فوقیت رکھتا ہے۔
ویسے تو لاس اینجلس کا موسم معتدل ہے لیکن کہا جارہا ہے کہ طویل قہط سالی اور بارشوں کی کمی نے پودوں کو خشک کر دیا، جو آگ کے لیے ایندھن کا کام کرتے ہیں۔ مزید برآں، تیز اور گرم ہوائیں شعلوں کو بھڑکانے اور آگ کو پھیلانے میں معاون ثابت ہوئیں ہیں۔ اس کے علاوہ، پولیس اس بات کی بھی تحقیقات کر رہی ہے کہ کہیں یہ آگ جان بوجھ کر تو نہیں لگائی گئی۔ اس سلسلے میں ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کیا گیا ہے، جس پر آگ لگانے کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ تیز ہواؤں اور سوکھے پودوں اور درختوں کی موجودگی نے آگ کو تیزی سے پھیلنے اور بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے کا موقع فراہم کیا ہے۔
ہمیں ملی اطلاعات کے مطابق حالیہ جنگلاتی آگ نے تقریباً 37,000 ایکڑ رقبے کو متاثر کیا ہے۔ اس آتشزدگی کے نتیجے میں 12,000 سے زائد عمارتیں اور ڈھانچے تباہ اور دو لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ مزید برآں، اس واقعہ میں اب تک 16 افراد ہلاک سیکڑوں زخمی اور بہت سے لاپتہ بھی ہیں، نیز بعض تخمینہ کے مطابق اس نقصان کی مالیت ایک سو پچاس ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔
امریکہ سوپر پاور، دنیا کا طاقتور ترین، سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور ٹیکنالوجی میں نمایا حیثیت کا حامل ملک ہے لہذ آگ پر قابو پانے کے لیے 12 ہزار سے زائد فائر فائٹرز، ساڑھے 11 سو فائر انجن، 60 طیارے اور 143 واٹر ٹینکر مصروفِ عمل ہیں ان کے علاوہ بھی جہاں سے اور جس ذریعہ سے ممکن سمجھا جا رہا ہے، آگ بجھانے کی پوری پوری کوشش کی جارہی ہے، لیکن کیا کریں غزہ کے مظلوموں کی آہیں، معصوم بچوں کے آنسو، عورتوں کی چیخ و پکار اور شہیدوں کا خون آگ کی شکل میں قہر خدا وندی بن کر ٹوٹ پڑا ہے اور عذاب الہی نے ظالموں کو پکڑ لیا ہے، اس لئے کوئی بھی تدبیر کارگر ثابت نہیں ہو رہی ہے، ساری ٹیکنالوجی فیل ہوگئی اور تمام طاقتیں دھری کی دھری رہ گئی، بہترین دماغ اور ماہر سائنٹسٹ بھی کچھ کام نا آسکے۔
سونے پر سہاگہ امریکہ نے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کردیا ہے کہ ایک لاکھ چھیاسٹھ ہزار افراد اپنے قیمتی محلات اور پرکشش کوٹھیاں کھالی کردیں، آگ کے پھیل جانے کا خطرہ ابھی باقی ہے۔
یہ آگ نہیں بلکہ مظلوم اہل غزہ کی آہوں، معصوم بچوں کی نعشوں، عورتوں کی سسکیوں اور شہیدوں کے خون کی گرمی ہے جس نے امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور قہار و جبار خدا کا قہر ان پر آگ بن کر ٹوٹ پڑا ہے جس کا تماشہ ہم جیسے تڑپتے دلوں کے لئے باعث خوشی اور نوید سحر ہے۔
اللہ ظالموں کو ہلاک کرکے مظلوموں کے دلوں کو سکون عطا فرمائے۔