ایک فنکار اور محنتی شخصیت
جناب مولانا کاتب اسرار احمد قاسمی ؒ
بدرالاسلام قاسمی
استاذ جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند
یکم جنوری کی صبح
مؤرخہ یکم جنوری ۲۰۲۵ء کی صبح وفات کی دو خبریں موصول ہوئیں، ایک تو شہر سہارنپور کی ادبی و صحافتی شناخت رکھنے والے جناب شبیر شاد صاحب کی اچانک رحلت کی خبر آئی جن سے مجھے تھوڑی بہت مناسبت سوشل میڈیا پر اُن کی معتدل تحریروں کی وجہ سے تھی، جب کہ دوسری خبر دیوبند میں سالہا سال سے مقیم ، والد مرحوم کے ہم عصر اور رفیق، ایک زمانے میں ہم پیشہ و ہم مجلس، محترم جناب مولانا کاتب اسرار احمد قاسمی گورکھپوریؒ کی جوارِ رحمت میں منتقل ہونے کی اطلاع ملی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
کاتب اسرار صاحب
راقم نے انھیں اپنے بچپن سے جوانی تک محلّہ ابوالبرکات میں واقع ایک قدیم منزل کے بالائی حصے میں دیکھا تھا، اسی منزل میں ایک طویل زمانے تک دارالعلوم وقف کا مطبخ تھا، اسی منزل کے کچھ مکانات میں دارالعلوم وقف کے کچھ دیگر اساتذہ کا بھی قیام تھا، باہر کی جانب دارالعلوم وقف کا ایک ڈپو بھی یاد آتا ہے جہاں اساتذہ و طلبہ کو اُس زمانے میں راشن کا کچھ ضروری سامان مثلاً چینی، مٹی کا تیل وغیرہ ملتا تھا۔ یہ میرے زمانۂ ناظرہ و حفظ کی بات ہے، یعنی ۱۹۹۴- ۱۹۹۶ء کے آس پاس کی۔
والد گرامی کی زبانی ’’کاتب جی‘‘ کا لفظ بارہا سنا اور اس کی مراد کاتب اسرار صاحب ہی ہوتے تھے، کاتب صاحب سادہ مزاج شخصیت کے حامل تھے، سر پر چھوٹی سی دوپلی ٹوپی، عموماً لنگی اور کرتا، آنکھوں پر عینک، ٹھوڑی پر داڑھی۔ یہ تھے کاتب اسرار صاحب قاسمی!
مختصر تعارف
اہل خانہ سے معلوم ہوا کہ کاتب صاحب کی وفات تقریباً ۷۱؍سال کی عمر میں ہوئی، جس سے معلوم ہوتاہے کہ ان کا سن ولادت ۱۹۵۳- ۱۹۵۴ء رہا ہوگا، والد مرحوم حضرت مولانا مفتی محمد اسلام قاسمی علیہ الرحمہ کا سن ولادت بھی یہی ۱۹۵۴ء ہے۔ کاتب صاحب کے اجداد میں محترم جناب مولانا عبدالعزیز صاحب علیہ الرحمہ کا ذکر ملتا ہے جو اپنے آبائی وطن گورکھپور (یوپی) سے دیوبند حصولِ تعلیم کی غرض سے آئے تھے، لیکن اُس وقت کی مشہور چیچک کی وبا کی زد میں آکر مزارِ قاسمی میں سپردِ خاک ہوئے تھے۔
کاتب اسرار صاحب کا آبائی وطن گورکھ پور ضلع کا ایک گاؤں اسوجی بازار ہے، جہاں سے وہ حصولِ علم کی خاطر مغربی یوپی آئے، مدرسہ کاشف العلوم چھٹمل پور ضلع سہارنپور میں عربی ہفتم کی تعلیم حاصل کی اور ۱۹۷۳ء میں دارالعلوم دیوبند سے دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کی، اس کے بعد تقریباً چھ ماہ مادرِ علمی کے ایک دفتر میں ملازمت بھی کی۔
دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد
اسی دوران دیوبند میں مشہور کاتب محترم جناب مقبول صاحب سے انھوں نے کتابت سیکھی اور پھر اسی کو ذریعۂ معاش بنا لیا۔ راقم کے والد مرحوم حضرت مولانا مفتی محمد اسلام قاسمی علیہ الرحمہ بھی چوں کہ خطاط تھے، اور الداعی میں اُن کا تقرر بطور معاون مدیر و خطاط ہی ہوا تھا ، کاتب اسرار صاحب کے استاذ محترم جناب مقبول صاحب سے بھی والد مرحوم کے گہرے رابطے تھے شاید اسی مناسبت سے کاتب اسرار صاحب بھی اُن کے رفیق ہوگئے، جو رفاقت تاحیات رہی، بالخصوص جس زمانے میں جامع مسجد میں دارالعلوم وقف کا نظام جاری تھا اُس وقت والد گرامی کا کاتب صاحب کے پاس آنا جانااور نشست و برخاست بہ کثرت ہوتی۔
دیوبند میں اسکرین پرنٹنگ کا معتمد نام ’’شاداب پرنٹرس‘‘
کاتب اسرار صاحب نے اپنی فنی صلاحیتوں کے سبب دیوبند میں بطور کاتب ایک اچھی شناخت بنائی، وہ بہترین فن کار تھے۔ البتہ کچھ سالوں بعد ہاتھ میں کسی تکلیف کے سبب انھوں نے مجبوراً کتابت ترک کر دی، اتنے میں اُن کے بڑے فرزند برادرم مسعود صاحب ۱۹۹۲ء میں اُن کا سہارا بن گئے، جنھوں نے اسکرین پرنٹنگ کا کام سیکھا اور پھر رفتہ رفتہ دیوبند میں وہ اس حوالے سے سب سے معتمد، معیاری اور مشہور ’’اسکرین پرنٹر‘‘ ثابت ہوئے۔ کاتب صاحب نے اپنے ایک بیٹے ’’شاداب‘‘ کے نام پر اس کام کو آگے بڑھایا۔
گرافکس ڈیزائننگ
اُدھر دیوبند میں کمپیوٹر کی آمد ہوئی اور کاتب اسرار صاحب نے رفتہ رفتہ اُس پر ڈیزائننگ سیکھی۔ کورل ڈرا کی کمانڈس حل کیں اور ’’شادی کارڈ، وژٹنگ کارڈ، لیٹر پیڈ، بل بک، رسیدات، تعارف نامے، کیلنڈر‘‘ وغیرہ بڑی مہارت کے ساتھ ڈیزائن کرتے اور ان کے فرزند اسے بہترین انداز میں چھاپتے۔
دارالعلوم دیوبند و دیگر مدارس کے معتمد
کاتب اسرار صاحب کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ نہایت امانت دار اور اصول پسند تھے، چناںچہ ایک طویل زمانے تک دارالعلوم دیوبند کی اسناد، رسیدات اور نہایت اہم کاغذات وہی چھاپتے اور اس حوالے سے کبھی کوئی داغ ان کے دامن پر نہ لگا۔ بلاشبہ یہ اُن کی دیانت داری کی ایک بڑی دلیل ہے۔
اولاد
اللہ تعالیٰ نے کاتب صاحب کو سات بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔ تمام بیٹے کسب ِ حلال میں مشغول ہیں اور بنیادی دنیوی ضروریات کی تکمیل کی حد تک کامیاب ہیں۔
والد گرامی ؒ سے بستر علالت میںملاقاتیں
والد گرامی حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی علیہ الرحمہ جب بستر علالت پر تھے اُس وقت بھی کاتب صاحب عیادت کے لیے گھر تشریف لاتے، کچھ دیر بیٹھتے، پرانی باتیں چھیڑتے اور اُن کے لیے کسی حد تک فرحت ِ قلب کا سبب بنتے۔
انتقال پُر ملال
وفات سے تقریباً چار ماہ قبل وہ بیمار ہوئے اور کینسر کے مرض میں مبتلا ہوگئے۔ بالآخر ۲۰۲۵ء کے پہلے دن سحری کے وقت وہ جوارِ رحمت میں منتقل ہوگئے۔ ظہر کی نماز کےبعد احاطۂ مولسری میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی دامت برکاتہم نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور شیخ الہند لائبریری کی مغربی سمت میں واقع ’’قبرستانِ انصاریان‘‘ میں سپردِ خاک ہوئے۔
بلاشبہ وہ ایک شریف الطبع، محنتی، امانت دار اور مخلص انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ اُن کی خطاؤں کو درگزر فرمائے، انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اُن کے جملہ پس ماندگان بالخصوص اہلیہ محترمہ کو صبر جمیل بخشے۔ آمین