“سفر” قرآن و حدیث کی روشنی میں
چاہت محمد قریشی قاسمی
انسان کبھی قرب و جوار، تو کبھی دور دراز کا سفر کرتا ہے۔ یہ سفر انسان کے مقاصد اور نیت کے اعتبار سے کبھی فرض و واجب تو کبھی سنت اور جائز، حتی کہ بعض اوقات مکروہ یا ناجائز بھی ہو سکتا ہے۔
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے زمین میں سفر کرنے کی ترغیب دی ہے تاکہ انسان اللہ کی زمین میں گھوم پھر کر اس کی نشانیوں پر غور کرے۔ دنیا کی تخلیق، اس میں موجود بہتے دریا، بلند و بالا فلک بوس پہاڑ، بھانت بھانت کے درخت، رنگ برنگے پھول پودے، طرح طرح کی عمارتیں، اور قسم قسم کی مخلوقات دیکھ کر اللہ کی بڑائی اور کبریائی بیان کرے۔ چنانچہ فرمانِ الٰہی ہے:
قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ بَدَاَ الْخَلْقَ۔
(کہہ دیجیے: زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ اللہ نے کس طرح مخلوق کو ابتدا میں پیدا کیا۔)
تقریباً چودہ سو سال قبل قریشِ مکہ تجارت کے لیے دو سفر کیا کرتے تھے: ایک سفرِ شتا (موسمِ سرما میں یمن کی طرف)، اور دوسرا سفرِ صیف (گرمیوں میں شام کی جانب)۔ اس کا ذکر قرآنِ کریم میں یوں آیا ہے:
لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ، إِيلَافِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ۔
(سیرت کی کتابوں میں نبی کریم ﷺ کے بھی ملکِ شام کے دو سفر مذکور ہیں: ایک چچا ابوطالب کے ساتھ، اور دوسرا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے غلام میسرہ کے ساتھ۔)
سفر کی دشواریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“السَّفَرُ قِطْعَةٌ مِنَ الْعَذَابِ، يَمْنَعُ أَحَدَكُمْ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ وَنَوْمَهُ، فَإِذَا قَضَى نَهْمَتَهُ فَلْيُعَجِّلْ إِلَى أَهْلِهِ”
(صحیح بخاری: 1804، صحیح مسلم: 1927)
ترجمہ: “سفر عذاب کا ایک حصہ ہے، جو تمہیں کھانے، پینے اور سونے سے روکتا ہے۔ پس جب اپنی ضرورت پوری کر لو تو جلد اپنے گھر والوں کی طرف واپس آجاؤ۔”
اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے سفر کو اس کی مشقتوں اور پریشانیوں کی وجہ سے عذاب کا ایک حصہ قرار دیا ہے۔ یہ مشقت جسمانی بھی ہو سکتی ہے، جیسے آرام کی کمی یا وسائل کی قلت، اور ذہنی بھی، جیسے اپنے اہل خانہ اور معمولات سے دوری۔ اس لیے سفر کو ضرورت سے زیادہ طویل کرنے کی بجائے جلدی واپسی کرنا مستحب ہے۔
شریعت میں حج و عمرہ جیسا مقدس سفر موجود ہے، جبکہ اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے سفر بعض اوقات فرض ہو جاتا ہے۔ اسی طرح علمِ دین کے حصول کے لیے سفر کرنے کی بھی احادیث میں بہت فضیلت آئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“من سلك طريقًا يلتمس فيه علمًا، سهل الله له به طريقًا إلى الجنة”
(جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے سفر کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔)
جہاں پروردگار کی نافرمانی اور خلاف شرع امور کے لیے (جیسے چوری ڈگیتی، زناکاری بدکاری یا کسی پر ظلم کرنے کے لیے) سفر کرنا ناجائز اور باعث گناہ ہے وہیں احادیث میں بیت اللہ، مسجدِ نبوی اور مسجدِ اقصیٰ کے لیے سفر کرنے کی احادیث میں ترغیب دی گئی ہے۔ مزید برآں، سفر کے لیے بہت سی دعائیں موجود ہیں۔ مسافر کی دعا کے متعلق نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“ثلاث دعوات مستجابات: دعوة المظلوم، ودعوة المسافر، ودعوة الوالد على ولده”
(سنن ترمذی)
ترجمہ: “تین دعائیں بلا شبہ قبول ہوتی ہیں: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا، اور والد کی دعا اپنی اولاد کے حق میں۔”
یہ حدیث مسافر کی دعا کی قبولیت کو واضح کرتی ہے، کیونکہ سفر کے دوران انسان اللہ کے قریب ہوتا ہے اور اس کے دل میں خشوع و خضوع زیادہ ہوتا ہے۔