ایسا کہاں سے لائیں تجھ سا کہیں جسے
حضرت والا سے ہمارے گھر انے کے تعلقات کم و بیش ۵۰ سال سے تھے، یہ حقیر سن١٩٧٥ء میں دارالعلوم دیوبند گیا، اس سے پہلے ہمارے دو بھائی حضرت مولانا فضیل احمد صاحب و حافظ شعیب احمد رحمھماالله حضرت کی خدمت میں رہ چکے تھے، جنہیں حضرت والا اپنی اولاد کی طرح سمجھتے اور مانتے تھے، احقر جس وقت دارالعلوم دیوبند گیا،کم عمر تھا حضرت کے گھر میں آنا جانا رہتا تھا، حضرت کی اہلیہ جنهيں ہم”چچی” کہاکرتے تھے( تغمدها الله بواسع رحمته ويسكنها فسيح جناته) بڑی شفقت کا معاملہ فرماتی تھیں، چو نکہ حضرت والا کی کوئی صلبی اولاد نہیں تھی، اس لیے اپنے بڑے بھتیجے جناب مولانا معراج الحق صاحب استاد جامعہ قاسمیہ شاہی کو اپنے پاس رکھ رکھا تھا،گھریلو ضروریات کو ہم دونوں پورا کر دیا کرتے تھے،وہ بھی اولاد کی طرح شفقت فرمایا کرتی تھیں،یہ ہے میرا سال پنجم تھا،حضرت والا علیاکے استاد تھے،بعد میں کتب حدیث پڑھنے کا اتفاق ہوا اس کے ساتھ ساتھ اور بھی درسی کتابوں میں جہاں کوئی اشکال ہوتا تھا حضرت سے پوچھ کر حل کر لیا کرتا تھا،میرے بڑے بھائی مولانا فضیل احمد مرحوم نے حضرت والا سے گورکھپور اپنے گھر چلنے کی درخواست کی،جسے حضرت والا نے شرف قبولیت سے نوازا، چونکہ میرے والد صاحب مدرسے کے ناظم تھے مواصلاتی نظام ایسا نہیں تھا کہ حضرت کو اسٹیشن سے بذریعہ کار لایا جا سکے،اس لیے والد صاحب نے ہاتھی کا انتظام کروایا جس پر سوار ہو کر حضرت والا مدرسے پر تشریف لائے، کئی دن قیام فرمایا، چونکہ حضرت والا شکار کے شوقین تھے اس لیے قریبی جنگل میں شکار کا انتظام کرایا گیا، کچھ لوگوں کے ساتھ حضرت تشریف لے گئے، شکار بھی لائے، پھر یہ سلسلہ متعدد بار پیش آیا کہ حضرت ہماری دعوت کو شرف قبولیت سے نوازتے تھے،اور کئی کئی دن قیام فرمایا کرتے تھے میرے والد صاحب نے اپنے اخری عمر میں اس ادارے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور اب ہماری رہائش دوسری جگہ ہو گئی تھی، حضرت والا وہاں پر بھی تشریف لایا کرتے تھے اور اسی پرانے انداز میں وعظ و نصیحت کے ساتھ ساتھ شکار کا بھی سلسلہ چلتا رہتا تھا، تعلیم و تربیت وعظ و نصیحت ہر طرح کی مجالس ہوا کرتی تھیں، اس حقیر کا حضرت کی معیت میں دارالعلوم دیوبند کی طرف سے١٤٠٢ھ میں حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب علیہ الرحمہ کے حکم پر دارالعلوم دیوبند کی طرف سے مالیگاؤں اور بمبئی کا سفر بھی ہوا جس میں مختلف جگہوں پر بیانات بھی ہوئے، ا حقر کے دارالعلوم دیوبند سے بس سلسلہ تعلیم سعودی عرب جانے کے بعد بھی خط و کتابت اور ملاقات ہوتی رہی، حضرت کی وہی شفقتیں وہی عنایتیں اب بھی تھیں، میرے بھتیجوں مولوی محمد ازہد مرحوم، مولوی سہیل احمد، و مولوی محمداخلد سلمہما کے ساتھ بھی شفقت اور محبت کے معاملات تھے۔ دارالعلوم دیوبند میں حضرت والا کی شفقتیں بڑھتی ہی جاتی تھیں، طلبہ کے ساتھ ان کا ہمیشہ شفقت کا معاملہ رہتا تھا، خاص طور پر گورکھپور کے طلباء کے ساتھ تو بہت ہی شفقت فرماتے تھے، ان کی یہ خواہش تھی کہ اس علاقے کے طلبہ زیادہ سے زیادہ تعلیم میں آگے بڑھیں، اور اپنے ضلع کا نام روشن کریں،اختلافی دور میں ہمیشہ طلبہ کو ان کی یہی نصیحت رہا کرتی تھی کہ تم طلب علم کے لیے دارالعلوم آئے ہو کسی بھی اختلاف سے تمہارا کوئی بھی سروکار نہیں رہنا چاہیے، بلکہ یکسوئی کے ساتھ تعلیم ہی کی طرف اپنی توجہ مرکوز رکھو، یوں تو حضرت والا کے جاننے والے ہندوستان کے گوشے گوشے میں تھے، اور ہیں، لیکن مغربی یو پی میں خاص طور پر اہل مدارس اپنے پروگراموں میں حضرت کو ضرور بلانا چاہتے تھے، اور حضرت والا بھی اپنی تدریسی مشغولیت نیز دارالعلوم دیوبند کی مشغولیات کے باوجود کوشش یہی کرتے تھے کہ آنے والے علماء اور محبین کی دلشکنی نہ ہو، حسب امکانیات وقت ضرور دیتے تھے، اپنے شاگردوں خاص طور پر جو دارالعلوم دیوبند سے جا چکے ہیں، اور کسی ادارے سے وابستہ ہیں، دیوبند آمد کے موقع پر ان حضرات کی خواہش ہوتی تھی کہ اپنے اساتذہ سے ضرور ملاقات کریں، اور ان سے دعائیں لیں، حضرت مولانا ان کی دعوت ضرور کرتے تھے، آپ نے ٥٨ سال تک اپنے مادر علمی کی جی جان سے خدمت کی،دارالعلوم دیوبند سے پہلے مدرسہ عبدالرب میں بھی شیخ الحدیث رہے اور وہاں تفسیر کا بھی سلسلہ جاری فرمایا، دارالعلوم دیوبند میں دورہ حدیث کی کتابوں کو بار بار اور سالہا سال پڑھائی، اب بخاری شریف جلد ثانی حضرت سے متعلق تھی، آپ سے مستفیدین کی تعداد لاکھوں پہنچے گی، رب کریم حضرت اعلی کی مغفرت فرمائے جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب فرمائے، خاندان کے جملہ افراد، خصوصا مولانا معراج الحق صاحب، مفتی محمد احسان الحق صاحب وغیرہ ، محبین و مخلصین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
استاد الاساتذة، محدث جلیل، شيخ التفسير، حضرت علامہ مولانا قمر الدین احمد صاحب نائب شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کا آج بروز اتوار ٢٢ دسمبر٢٠٢٤ء کو صبح انتقال ہو گیا، انا للہ وان الیہ راجعون، حضرت والا کے انتقال سے جو دھچکا اور غم ہمارے پورے خاندان پہ پڑا ہے،وہ ناقابل بیان ہے، رب کریم حضرت والا کی بال بال مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب فرمائے۔ امین