مختصر تاریخ ملک شام قسط (2)
شام کی شام
صبحِ نو کا پیغام
فیصل احمد ندوی
استاد دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
قسط (۲)
دوسری طرف بعث پارٹی اپنی کارستانیوں کی وجہ سے عوام میں نہایت مبغوض تھی۔ بعث پارٹی کی اندرونی کشمکش بھی زوروں پر تھی۔ ان حالات میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے فوجی جنرل حافظ الاسد نے 13/ نومبر 1970ء کو نور الدین اتاشی کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا، اور شام کے صدر بن گئے۔
اب ظلم واستبداد کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ بعث پارٹی کی حکومت کے آغاز ہی سے مسلمانوں کے لیے زمین تنگ ہوتی جا رہی تھی۔ حافظ الاسد جن کا تعلق نصیری فرقے سے تھا، ابتداءً اس نے کچھ اعتدال پسندی کا مظاہرہ کیا؛لیکن 1973ء میں نیا دستور بنا کر اس نے وسیع اختیارات اپنے ہاتھ میں لیے تو اس کے خلاف پورے شام میں زبردست مظاہرے ہوئے۔ جس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ اس کے ردّ عمل کے طور پر حماۃ میں چند سالوں کے بعد حکومت کے مخالفین نے ایک مسلح جنگجو دستہ تشکیل دیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ حکومت میں زیادہ عمل دخل رکھنے والے وزیروں اور عہدے داروں کو نشانہ بنایا جائے۔ اس کو دبانے کے لیے حکومت نے اپنا شکنجہ مضبوط کیا۔ چناں چہ سینکڑوں لوگوں کو مارا گیا، یا جیلوں میں بند کر دیا گیا، یعنی کھلی ڈکٹیٹرشپ تھی کہ بہر صورت عوام کی آواز کو دبا دیا جائے، لیکن آزادی پسند عوام جو عرصے سے فوجی حکومت کی مار جھیل رہے تھے، وہ خاموش بیٹھنے والے نہیں تھے۔ چناں چہ اس مسلح دستے نے حلب کے توپ خانے پر حملہ کر کے دسیوں نصیری جنرلوں کو قتل کیا۔ حکومت نے اخوان المسلمون کو اس کا ذمہ دار قرار دیا۔
26/ جون 1980ء کو حافظ الاسد کو ٹھکانے لگانے کی پلاننگ کی گئی، جو ناکام ہوئی۔ اس کا الزام بھی اخوان المسلمون پر آیا۔ اس کے رد عمل میں حکومت نے ہزاروں لوگوں کو تدمر کے جیل میں بند کر دیا، جیل میں ایک خونی کھیل کھیلا گیا، اور ایک ہزار سے زیادہ قیدیوں کو تہ تیغ کیا گیا، جن میں سے بڑی تعداد اسلام پسندوں کی تھی۔ چند ہی دنوں میں 7/ جولائی 1980ء کو ایک قانون بنایا گیا اور اخوان المسلمون پر پابندی لگائی گئی۔ اس دفعہ کے الفاظ یہ تھے: ”تنظیم اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والا مجرم قرار پائے گا، اور اس کو پھانسی کی سزا دی جائے گی“۔ پھر اخوان المسلمون سے تعلق کے شبہے میں سینکڑوں لوگوں کو شہید کیا گیا۔
2 فروری 1982ء کو حماۃ پر دھاوا بولا گیا۔ پورے شہر کی ناکہ بندی کی گئی، بجلی پانی اور باہر سے رابطے پورے طور پر منقطع کیے گئے، اور مسلسل 27/ دن قتل و خون کا کھیل جاری رہا۔ چالیس ہزار لوگ قتل کیے گئے۔ سترہ ہزار سے زیادہ لاپتہ ہو گئے۔ سینکڑوں رہایشی مقامات منہدم کیے گئے۔ یہاں تک کہ مسجدیں بھی ان کے ظلم سے محفوظ نہیں رہیں۔ بعض خاندان مردوں عورتوں بچوں سمیت پورے کے پورے ختم کیے گئے۔ اسپتالوں میں داخل ہو کر بیماروں کو مار ڈالا گیا۔ حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کیے گئے۔ اور نو مولود بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ مظالم کی تفصیلات بیان نہیں کی جا سکتیں۔
اسی کے آس پاس کے زمانے میں شام کے دسیوں کبار علماء ہجرت پر مجبور ہوگئے۔
10/ جون 2000ء کو دنیا حافظ الاسد سے پاک ہوئی۔ بعث پارٹی نے اس کے بیٹے بشار الاسد کو بتاریخ 10/ جولائی 2000ء سوریا کا صدر منتخب کیا، جب اس کی عمر پینتیس سال کی تھی۔ (ولادت 11/ ستمبر 1965)
ابتداءً اس کو باپ سے بہتر سمجھا گیا۔ یہاں تک کہ فروری2002ء میں جب ہمارا شام کا سفر ہوا تو بعض علماء کو ایک خطاب میں ہم نے خود یہ کہتے ہوئے سنا کہ بشار الاسد کے صدر ہونے کے بعد ہمیں پہلے سے زیادہ سہولت ملی ہے۔ مگر یہ ان کی خوش فہمی یا بشار کو حکمت کے ساتھ رجھانے کی کوشش تھی۔ اس لیے کہ 2011ء میں عرب بہاریہ کے بعد بشار نے سوریا میں مطالبات کو لے کر احتجاج کرنے والوں پر جو مظالم کیے، اس کی مثال کسی ملک میں نہیں ملتی۔
اپنے بے گناہ ہم مذہبوں پر ہونے والے مظالم سنّی فوجیوں کے لیے بھی ناقابل برداشت ہو گئے۔ مظالم کا سلسلہ روکنے کی جب ان کی درخواست نہیں سنی گئی، تو انھوں نے شامی فوج سے علاحدہ ہونے کا فیصلہ کیا؛ چناں چہ 3/ اگست 2011ء کو ایک فوجی جنرل ریاض موسی الاسعد نے ”الجيش السوري الحر“ یعنی آزاد سوری لشکر کے نام سے سات ہزار مسلح سپاہیوں پر مشتمل ایک فوج تشکیل دی۔ اس نے بہت جلد شام کے پچہتر فیصد حصے پر قبضہ کر لیا، اور بشاری فوج ان کے سامنے بے بس ہو گئی۔ یہ صورت حال دیکھ کر بشار نے روس اور ایران سے مدد کی درخواست کی۔ ان دونوں نے شام میں براہ راست اپنے عمل دخل کی شرط پر مدد کا وعدہ کیا۔ بشار اپنی کرسی بچانے کے لیے اس پر راضی ہو گیا۔ اب در حقیقت روس اور ایران کی شام میں حکومت تھی، اور بشار ان کے ہاتھ میں کھلواڑ تھا۔ قریب تھا کہ آزاد سوری لشکر دمشق پر قبضہ کر لے، روس اور ایران نے اپنی پوری طاقت لگائی کہ اس کو پسپائی اختیار کرنی پڑی، اور اس نے سوریا کے شمال میں اپنی سرگرمیاں محدود کیں۔ 2014ء کے وسط تک سرکاری فوج دو تہائی زمین
روس اور ایران کی مدد سے واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، اور شامی حکومت کو قوت حاصل ہو گئی۔
اس کے بعد جوشِ انتقام نے بشار کو جیسے پاگل کر دیا ہو، ظلم وجبر کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ مختصر یہ کہ دو لاکھ لوگ مارے گئے۔ اور دو لاکھ سولہ ہزار کو سیاسی قیدی قرار دے کر جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ اور لاکھوں لوگ جبری ہجرت پر مجبور ہوگئے۔ ہجرت کے دوران میں ہزاروں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس وقت صرف ترکی میں سرکاری ریکارڈ کے مطابق پانچ ملین یعنی پچاس لاکھ شامی مہاجرین موجود ہیں۔ اور سینکڑوں مہاجرین نے یورپین ممالک کا رخ کیا۔ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بشار الاسد کی زیادتی وجہ سے آبادی کا کتنا بڑا حصہ بے گھر ہو چکا ہے۔ اور جو سوریا میں باقی تھے، وہ آزادی سے محروم اور بے زبان ہو کر رہ گئے تھے۔ جن دو لاکھ افراد کو سیاسی قیدی بنایا گیا تھا، ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق ان میں سے تیرہ ہزار لوگوں کو صرف چار سال (2011ء – 2015ء) میں جیل کے اندر تختۂ دار پر چڑھایا گیا۔ اس کے بعد کتنے لوگوں کو پھانسی دی گئی، اس کی تفصیلات معلوم نہیں۔