مختصر تاریخ ملک شام قسط (3)
شام کی شام!
صبحِ نو کا پیغام
فیصل احمد ندوی
استاد دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
قسط (۳)
حالیہ انقلاب جو ”ردع العدوان“ (یعنی ظلم وجبر کی روک تھام) کے نام سے 27/ نومبر 2024ء کو شروع ہوا۔ اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ درعا میں کچھ بچوں نے دیوار پر لکھا: يسقط بشار یعنی بشار کی حکومت گر رہی ہے۔ بشاری فوج نے ان بچوں کو پکڑ کر سر کے بل لٹکا دیا، اور ان کے ناخن اکھاڑے اور لکھا يسقط ربك ولا يسقط بشار۔ بچوں کے باپ ان کو لینے فوج کے پاس گئے تو انھوں نے نہایت خباثت کا معاملہ کیا، کہنے لگے کہ یہ بگڑی ہوئی پود ہے، اپنی عورتوں کو ہمارے حوالے کرو، ہم ان سے اچھی نسل پیدا کریں گے، اور لا إله إلا بشار کہنے لگے۔ اس پر لوگ بھڑک اٹھے، اور شمال مغرب میں حکومت مخالف فورس نے 27/ نومبر 2024ء کو اس صریح ظلم وزیادتی کا بدلہ لینے کی ٹھانی۔ ابتداءً ان کے اور ایرانی ملیشیا کے درمیان سخت ٹکر ہوئی، لیکن خدا کی شان کہ تیسرے دن حکومت مخالف فورس حلب تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی، جو شمالی سوریا کا سب سے بڑا اور عظیم تاریخی شہر ہے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے حلب پر ان کا قبضہ ہو گیا، اور وہ آگے بڑھتے چلے گئے، اور بغیر خون خرابے کے نہایت تیزی کے ساتھ ڈرامائی انداز میں صرف 11/ دن میں حلب، حمص، حماة جیسے مرکزی شہروں سمیت خود پایۂ تخت دمشق پر کل 8/ دسمبر 2024ء کو ان کا قبضہ ہو گیا۔ اور تین سال پہلے ( بتاریخ ۱۵/ اگست ۲۰۲۱ء) طالبان کی افغانستان پر پرامن قبضے کی یاد تازہ ہوگئی۔
بشار نے ردع العدوان کے ابتدائی دنوں ہی میں متعدد ملکوں بالخصوص اپنے دونوں دوست اور حلیف ممالک ایران اور روس سے مدد طلب کی۔ جب کسی نے مدد کی حامی نہیں بھری تو بشار کو اپنے سقوط کا یقین ہو گیا، چناں چہ اسی وقت اس نے اپنے بیوی بچوں کو روس روانہ کیا۔ لیکن ابھی وہ اپنے دوستوں کی مدد سے مایوس نہیں ہوا تھا، اس لیے خود دمشق میں رکا رہا، لیکن جب حکومت مخالف فورس نے دمشق کی طرف پیش قدمی کی تو اسے پورا یقین ہو گیا کہ یہاں باقی رہنے کا مطلب تختۂ دار پر چڑھنا ہے، چناں چہ قبل اس کے کہ مخالف فوج دمشق پہنچے، وہ وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوا، اور روس میں پناہ لی۔
جہاں جہاں مجاہدین یعنی حکومت مخالف فورس کا قبضہ ہو گیا، وہ جیل کھول کر یا توڑ کر قیدیوں کو رہا کرتے گئے۔ چناں چہ آج 9/ دسمبر کی شام تک بیس ہزار سے زیادہ قیدی رہا کیے جا چکے ہیں۔
سب سے دل دوز اور ناقابل یقین معاملہ صیدنایا جیل کا ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے وحشت ناک جیل ہے، جو دمشق سے تیس کلومیٹر دور شمال میں پہاڑی علاقے پر واقع ہے۔ اس کا رقبہ تقریباً ڈیڑھ مربع کلومیٹر ہے۔ گراؤنڈ فلور کے ساتھ دو فلور اور زیرِ زمین تین فلور ہیں۔ اس میں ڈیڑھ کروڑ قیدیوں کی گنجایش ہے۔ 1987ء میں حافظ الاسد نے اس کو قائم کیا تھا۔ اس میں قیدیوں کے ساتھ جو کارروائیاں کی جاتی ہیں، دنیا کی نظروں سے ان کو مخفی رکھنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے، اسی لیے دنیا کے سب سے مخفی ترین مقامات میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ بڑی مشکل اور بھاری رقم خرچ کرنے کے بعد بعض تحقیقی ادارے وہاں پہنچ سکے تھے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 2017ء میں اپنی رپورٹ میں اس کو انسانی سلاٹر ہاؤس یعنی مذبح خانہ قرار دیا تھا۔ اب دمشق پر قبضے کے بعد جب لوگ وہاں پہنچے تو ان کے ہوش وحواس اڑ گئے۔ اس میں پھانسی کے پھندے، انسانی اعضا ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے مشینیں، نمک کا بڑا ذخیرہ، شمشان گھاٹ، ایک طرف انسانی ہڈیوں کا ڈھیر اور وہ سب کچھ ہے، جس سے لوگوں کو اندر ہی اندر ختم کیا جائے، اور باہر اس کا پتا بھی نہ چلے۔ کچھ عرصے قبل لوگوں نے اس کے قریب کی نالیوں میں خون بہتا ہوا دیکھا تھا۔ کہتے ہیں کہ گزشتہ دس سال کے عرصے میں تیس سے پینتیس ہزار قیدیوں کو جیل کے اندر مختلف طریقوں سے قتل کیا جا چکا ہے۔ بقول کسے: بدنام زمانہ گوانتا ناموبے جیل اس کے سامنے ”عشرت کدہ“ ہے۔ ان دو دنوں میں جیل کی جو تصویریں اور ویڈیو سامنے آئی ہیں، اس سے پوری دنیا کے انسانوں کے عقلیں دنگ ہیں۔ خفیہ دروازوں تک ابھی تک رسائی نہیں ہو سکی ہے۔ فورس کے افراد کے ساتھ وہ سب لوگ وہاں جمع ہو رہے ہیں، جن کو اپنے رشتہ دار اور متعلقین کے یہاں ہونے کی توقع ہے۔ وہ جیل میں موجود ریکارڈ دیکھ رہے ہیں، کاغذات الٹ پلٹ کر رہے ہیں کہ شاید ان کے آدمی کا نام نظر آئے، اور پتا چل سکے کہ ان کو مارا جا چکا ہے، یا ابھی زندہ ہیں۔ جیل کے محافظ اور جلاد بھاگ چکے ہیں۔ دنیا کے ماہرین کو اس کے لیے بلایا جا رہا ہے۔ جاسوسی کتوں سے مدد لی جا رہی ہے۔ جیل کے دروازوں کا پتا بتانے والے کو جان کی امان کے ساتھ ایک لاکھ ڈالر دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اندازاً ابھی تک یہاں ایک لاکھ کے قریب افراد خفیہ عقوبت خانوں میں یا زندہ ہیں یا مر چکے ہیں۔ اس جیل کی صورت حال اب تک جو سامنے آئی ہے، اس سے پوری دنیا میں لوگ بیک زبان کہہ رہے ہیں کہ تعذیب کی یہ شکلیں دنیا کے کسی جیل میں نہیں ہیں!
ایک جیل کھولی گئی تو اس میں سے عورتیں نکلیں، وہ سمجھ نہیں پا رہی تھیں کہ یہ کیا ہوا؟ لوگ کہہ رہے تھے گھر چلیے انقلاب آچکا ہے۔ ایک جیل سے چند نوجوان رہا ہوئے تو خوشی سے انھوں نے نعرۂ تکبیر بلند کیا، اور قسمیہ بیان دیا کہ آج 8/ نومبر کو ہماری پھانسی کی تاریخ تھی۔ اگر یہ انقلاب نہ ہوتا تو ہم پھانسی کے پھندے کو چوم چکے ہوتے۔ ایسے ایسے لوگ رہا ہوئے، جن میں سے کوئی بتیس سال اور کوئی اڑتیس سال جیل کی تاریکیوں میں رہا، ایسے لوگ بھی نکلے جو کھڑے نہیں ہوسکتے تھے، ان میں ایسے لوگ بھی نظر آئے، جو جسمانی اور ذہنی اذیتوں کی وجہ سے اپنی عقلیں کھو چکے ہیں اور ان میں ایسے بھی ہیں، جو صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ ہیں۔ کہاں تک لکھا جائے۔ چند ہی دنوں میں یقیناً صیدنایا جیل پر مستقل کتابیں آئیں گی۔
کوئی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کتنے ہزاروں بلکہ لاکھوں کا خون اس خونی انسانیت کے مجرم بشار الاسد کی گردن پر ہے۔
یہ ایسا صالح انقلاب ہے جس کی مثالیں تاریخ میں مشکل سے ملیں گی! ایسے ظالم و جابر کا تختہ، جس کے خاندان کا 55 سال سے شام میں دبدبہ تھا، بغیر خون خرابے کے پلٹا گیا۔ قائدِ انقلاب ابو محمد الجولانی نے بار بار اعلان کیا کہ سرکاری املاک کو بالکل نقصان نہ پہنچایا جائے، نہ کسی طرح کہیں لوٹ مار کی جائے، نہ کسی کا خون کیا جائے۔ غیر سنی فرقوں اور عیسائیوں کو بھی انھوں نے یقین دلایا کہ مطمئن رہیں، ان پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔
اب تو مغربی میڈیا اور مغرب زدہ مشرقی میڈیا کو یقین ہونا چاہیے کہ انقلاب کے قائدین دہشت گرد اور باغی نہیں ہیں ، بلکہ طویل ظلم و ستم کی تاریخ کو بدلنے والے انقلابی مجاہدین ہیں، جنھوں نے صرف ملت اسلامیہ کے مجرم نہیں، بلکہ انسانیت کے مجرم کو نشانۂ عبرت بنایا،
جس پر پوری دنیا کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔
امید ہے کہ اس سے شامی عوام پر مسلط ایک صدی کے مظالم کا خاتمہ ہو جائے گا، اور اب نئی صبح میں وہ سانس لیں گے، لاکھوں شامی مہاجرین بھی اپنے اپنے گھروں کو لوٹ آئیں گے، اور شام اب آخری معرکے کی تیاری کرے گا، جس کی خبر صحیح حدیثوں میں دی گئی ہے کہ اس وقت پوری دنیا کے مسلمانوں کی پناہ گاہ شام کی سرزمین ہوگی۔
شام کے فضائل، اس کی سکونت اور اس کی طرف مسلمانانِ عالم کی ہجرت وغیرہ سے متعلق حدیثیں اس کثرت سے ہیں کہ متعدد کتابیں اس موضوع پر قدیم و جدید مصنفین نے لکھی ہیں۔ ہم یہاں اختصار کے پیش نظر صرف ایک صحیح حدیث کے الفاظ لکھتے ہیں: عن أبي الدرداء أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: “إن فسطاط المسلمین يوم الملحمة بالغوطة إلى جانب مدينة يقال لها دمشق، من خير مدائن الشام.” ( ابو داود ،کتاب الملاحم، باب المعقل في الملاحم، نمبر 4298)
اور متعدد روایتوں میں “معقل المسلمین أيام الملاحم دمشق” کے الفاظ بھی آئے ہیں. ان روایتوں کی بنیاد پر اہل ایمان کو یقین تھا کہ شام سے اس ظالم و جابر حکومت کا خاتمہ قطعی ہے، اس لیے کہ اس کو قیامت کے مراحل کے لیے تیاری کرنی ہے ،جس کے آثار شروع ہو چکے ہیں اور صحيح العقیدہ مسلمانوں کی عادلانہ اور پرامن حکومت کے بغیر یہ ممکن نہیں۔
اب ضرورت ہے:
۱- انقلاب کے قائدین خانہ جنگی سے پوری طرح دور رہیں۔
۲- فرقہ واریت سے دور عدل وانصاف پر مبنی حکومت قائم کریں۔
۳- مسلمانوں کو چاہیے کہ آخری زمانے کے فتن و ملاحم کی حدیثوں کا مطالعہ کر کے مستقبل کی تیاری کریں۔
۴-صحیح صورت حال سے واقف رہنے کی کوشش کریں تاکہ کوئی غلط رائے ظاہر کرنے یا کسی طرح کا غلط اقدام کرنے سے محفوظ رہیں۔
۵-دعاؤں کا خصوصی اہتمام کریں کہ اللہ اس انقلاب کو اہل شام کے حق میں خصوصاً اور مسلمانانِ عالم کے حق میں عموماً خیر کا ذریعہ بنائے۔ اس لیے کہ خطرات لگے ہوئے ہیں، دشمن یوں خاموش نہیں بیٹھے گا اور اسرائیل تو بغل ہی میں ہے، کب کیا شرارت کرے، کچھ نہیں کہا جا سکتا؛ تاکہ کم سے کم امن عامہ ہی میں خلل پڑ جائے۔