مختصر تاریخ ملک شام قسط (۱)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شام کی شام
صبحِ نو کا پیغام
فیصل احمد ندوی
استاد دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
قسط (۱)
سرزمینِ شام کی حیثیت ہمیشہ مسلم رہی۔ دمشق، حلب، بُصریٰ کا شمار دنیا کے قدیم شہروں میں ہوتا ہے بُصریٰ رومیوں کے آخری دور میں بیزنطینی سلطنت کا ایک پایۂ تخت تھا۔ حضرت عمر کے دور خلافت میں 13ھ – 19ھ مطابق 633ء – 640ء کے عرصے میں پورا ملک فتح ہو کر خلافت اسلامیہ کے زیرِ نگیں آگیا۔ اور اس کی ترقی کا نیا دور شروع ہوا، اور پورے دورِ خلافت میں صنعت وحرفت، تہذیب وثقافت اور علم وادب کی خدمت میں شام کا علاقہ گوہرِتاباں کی طرح مسلسل چمکتا رہا۔ یہاں تک کہ بیسویں صدی میں مغربی طاقتوں نے خلافت عثمانیہ کو کمزور سے کمزور کرنے کے لیے سازشوں کا لامتناہی سلسلہ شروع کیا۔ اسی ضمن میں عربوں میں عرب قوم پرستی کا صور اس وقت سے پھونک دیا گیا کہ وہ خلافت عثمانیہ سے علاحدگی کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔ نتیجتاً ۸/ مارچ 1920ء کو شام کی آزادی کا اعلان کر دیا گیا، اور اس کو کاٹ کر چار ممالک بنائے گئے: سوریا، اردن، لبنان اور فلسطین۔ لیکن یہ ایک دھوکہ تھا، اس لیے کہ برطانیہ اور فرانس نے عرب ملکوں کا آپس میں بٹوارا کر لیا تھا۔ عراق اور فلسطین انگریزوں کو اور شام فرانس کو دیا جا چکا تھا؛ چناں چہ اعلانِ آزادی کے بعد 11/ مارچ (1920ء) کو جب شریف مکہ حسین کے بیٹے فیصل نے بادشاہت کا اعلان کیا تو فرانس نے الٹی میٹم دے دیا اور فرانسیسی انتداب (Mandate) قبول کرنے، جبری فوجی بھرتی ختم کردینے اور فرانسیسی سکہ قبول کرنے کا فوری مطالبہ کیا گیا۔ اس کے ساتھ اسی ہزار فرانسیسی فوج نے دمشق کی طرف بڑھنا شروع کی۔ نئی حکومت کے 34 سالہ وزیر جنگ یوسف بک العظمہ نے دو ہزار نیم مسلح نوجوانوں کے ساتھ مقابلہ کیا۔ نتیجہ ظاہر تھا، سب ایک ایک کر کے شہید ہو گئے۔ امیر فیصل نے صحرائے شام کی راہ لی، اور دمشق پر فرانس کا قبضہ ہو گیا۔
پھر اس کے بعد شام بڑے انقلابات سے گزرا، مختلف تغیرات، حوادث اور نا گفتہ بہ واقعات کے بعد جنگ عظیم دوم کے دوران میں اتحادیوں نے دسمبر 1941ء میں شام کو آزادی دینے کا اعلان کیا۔ اس کے باوجود فرانس نے تین سال تک لیت ولعل سے کام لیا۔ اگرچہ 11/ مارچ 1943ء کو شام کے ایک عظیم انقلابی رہنما شکری القُوَّتلی کو جمہوریۂ شام کا پہلا صدر منتخب کیا گیا تھا۔ مگر فرانس نے پورے اختیارات يکم جنوری 1944ء کو منتقل کیے۔ اور 15/ اپریل 1946ء کو فرانسیسی فوجوں نے ملک چھوڑا۔
پھر متعدد بار فوجی انقلابات آئے، اور کچھ کچھ عرصے کے لیے جمہوری حکومتیں بھی قائم ہوئیں، اور تین دفعہ شکری القوتلی ملک کے جمہوری صدر منتخب ہوئے۔
شام کے فوجی عناصر شام کو خالص کمیونسٹ ریاست میں تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ ان حالات میں اخوان المسلمون کے بشمول شام کے اشتراکیت مخالف حلقوں نے مناسب سمجھا کہ شام کا مصر سے الحاق کر لیا جائے۔ شکری القوتلی بھی اس میں پیش پیش تھے۔ آخر کار 22/ فروری 1958ء کو ”الجمهورية العربية المتحدة“ کے نام سے مصری وشامی متحدہ حکومت قائم ہوئی۔ جمال عبد الناصر اس متحدہ حکومت کے صدر اور قاہرہ اس کا پایۂ تخت قرار پایا۔ اور سوریا کی حیثیت اس کے ایک صوبے کی ہوئی۔ جمال عبد الناصر کے طرز عمل نے اہل شام کو مصر سے متنفر کر دیا۔ یہاں تک کہ 28/ ستمبر 1961ء کو شام کے فوجی انقلاب نے اس اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا۔
معلوم ہو کہ شام میں ایک عیسائی میشل عفلق نے 1940ء میں البعث پارٹی قائم کی، جس کی بنیاد خالص قومیت عربیہ پر تھی۔ دوسری طرف اشتراکی عناصر بھی شام میں مضبوط ہو رہے تھے۔ مصر سے علاحدگی کے بعد پارلیمانی انتخاب ہوا تو اس میں غیر اشتراکی اور غیر بعثی عناصر کو زبردست اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی۔ اس وقت جب نئی منتخب حکومت کا اعلان ہونے والا تھا کہ 8/ مارچ 1963ء کو شام میں ایک فوجی انقلاب آ گیا، اس کا اصل مقصد شام میں اسلامی عناصر کو کمزور کرنا تھا۔ اس کے پس پشت ناصر کی کوششیں کار فرما تھیں۔ اور اب شام میں البعث پارٹی کی فوجی حکومت تھی، جس کے صدر جنرل امین الحافظ تھے۔ فوج میں اکثریت دروزیوں اور علویوں کی تھی۔ (دروزیوں اور علویوں کے عقائد دیکھیں تو بالکل ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں معلوم ہوتا۔ تفصیلات سے قطع نظر مختصر یہ کہ وہ ارکانِ اسلام ہی کو نہیں مانتے۔) جب کہ شام میں ۸۰/فیصد مسلمان سنی ہیں۔
دسمبر 1965ء میں بعث پارٹی دائیں اور بائیں دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ 23/ فروری 1966 کو بعث پارٹی کے انتہا پسند بائیں بازو نے صدر امین الحافظ کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا۔ اب نور الدین اتاشی شام کے صدر بن گئے۔ اشتراکی عناصر نے مذہب اور معیشت دونوں لحاظ سے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ خاص طور پر اسلامی عناصر کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ ساتھ ساتھ سرکاری جریدے میں اسلام پر کھلم کھلا حملے شروع ہوئے۔ نتیجتاً مسلمانوں نے سخت احتجاج کیا۔ حکومت نے پرامن طریقے سے انھیں مطمئن کرنے کے بجائے تشدد کا راستہ
اختیار کیا۔ یہاں تک کہ جامع اموی میں گولہ باری کر کے عین حالت نماز میں لوگوں کو شہید کیا گیا۔ لوگوں کی داڑھیاں نوچی گئیں، اور ناخن اکھاڑے گئے۔ اسی دوران میں 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ پیش آئی۔ اسرائیل نے مصر اور اردن کی فوجوں کو شکست دینے کے بعد شام کا رخ کیا۔ شامی فوج ان کا کیا مقابلہ کرتی، وہ تو اپنے لوگوں کو کچلنے میں مصروف تھی۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ حافظ الاسد جو اس وقت وزیر دفاع تھا، اس نے پانچ ملین ڈالر کے بدلے میں اسرائیل سے خفیہ ڈیل کی، اور ان کے مقابلے سے پسپائی اختیار کی۔ اس چیز نے اسرائیل کو موقع فراہم کیا، چناں چہ اس نے آگے بڑھتے ہوئے جبل جولان کے علاقے میں کئی سو مربع میل کے رقبے پر قبضہ کر لیا۔