آہ! مفتی اشفاق عالم قاسمی،ایک سنجیدہ اور بافیض عالم دین
✒سرفرازاحمدقاسمی حیدرآباد
رابطہ نمبر: 8099695186
(چوتھی قسط)
*7 تنویر الوقایہ شرح اردو شرح وقایہ*
یہ کتاب 660 صفحات پر مشتمل ہے اور شرح وقایہ کی جامع،اردو شرح ہے اور پہلی جلد ہے،شرح وقایہ فقہ کی بہت مشہور کتاب ہے جس میں طویل فقہی بحث ،ائمہ کے اختلافات اور پھر سب کے الگ الگ دلائل اورانکے جوابات پر مبنی ہے جو مدارس کے نصاب میں داخل ہے،اساتذہ اور طلبہ کےلیے یہ کتاب معاون ومفید ہے،انکی یہ کتاب بھی کافی مقبول ہوئی، کاش دوسری جلد بھی منظر عام پر آجاتی،حضرت مولانا عبدالخالق سنبھلی صاحب،حضرت مولانا نسیم احمد صاحب بارہ بنکی،مفتی اسجد علی صاحب قاسمی وغیرہ کی تائید و احساسات کتاب کا حصہ ہے۔
*8 تنویر القدوری شرح اردو مختصرالقدوری جلد اول*
قدوری فقہ کی معروف کتاب ہے اور مدارس میں شامل نصاب ہے،اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ مختصر عبارت میں جزئیات کو دلکش پیرائے میں بیان کیاگیا ہے،یہ شرح کتاب الطھارہ سے کتاب الحج پر مبنی ہے،336 صفحات ہیں،اساتذہ و طلبہ کےلئے بہت مفید ہے۔
*9 تسہیل الادب شرح اردو نفحتہ العرب*
یہ کتاب 420 صفحات پر پھیلی ہوئی ہے،نفحتہ العرب ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزازعلی صاحب(1955) کی مرتب کردہ ہے،دارالعلوم دیوبند سے منسلک اداروں میں پڑھائی جاتی ہے،عربی ادب کی ایک اہم کتاب ہے،جس میں واقعات،حکایات،لطائف،دلچسپ اشعاراور سبق آموز انداز میں بیان کیاگیاہے، ترجمہ،تشریح اور حل لغات پر خصوصی توجہ دی گئی ہے،جس سے اس کتاب کی انفرادیت اور بڑھ جاتی ہے،دینی مدارس کے طلبہ و اساتذہ کےلئے معاون ومددگارہے۔
*10 تنویر الوقایہ شرح اردو شرح وقایہ دوسری جلد*
یہ کتاب زیر تصنیف تھی اوراس پرکام چل رہاتھا جیساکہ میں نے اوپر اسکا ذکرکیاہے، مفتی صاحب نے مجھے بتایا تھا کہ اگلے سال شوال میں یہ کتاب منظر عام پر آجائے گی،لیکن اس سے قبل صاحب کتاب ہی ہماری نظروں سے روپوش ہوگئے۔
اسکے علاوہ بھی کچھ اور کتابو ں پر وہ کام کرکرہے تھے جسکا سلسلہ بیک وقت تھم گیا ہے،کچھ لوگ کتاب لکھتے ہیں اپنی ضروریات اور اپنی معاشی حالت درست کےلئے اور کچھ لوگوں کو مصنف کہلانے کا شوق ہوتاہے لیکن ایسے لوگوں کی کتابیں ان کی حیات میں ہی ناپید ہوجاتی ہیں ایسے لوگوں سے جب انکی کتابیں طلب کی جاتی ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ فلاں جگہ سے چھپی ہے وہاں سے خریدلیجئے وغیرہ وغیرہ اور کچھ لوگ کتابیں ضروریات کے پیش نظر اور مخلوق خدا کے استفادے کےلئے لکھتے ہیں، کتاب کی آمدنی سے اپنی معاشی حالت درست کرنا انکا مقصد ہرگز نہیں ہوتا ایسے لوگ کسی نفع و نقصان کی پرواہ بالکل نہیں کرتے،مفتی اشفاق صاحب ایسے ہی لوگوں میں تھے کہ جوکوئی علمی سوجھ بوجھ اور دلچسپی رکھنے والا ملتا انھیں اپنی کتاب بغیر قیمت کے تھما دیتے،یہاں تک کہ ہم جیسے کم علموں کو بھی اپنی کتابیں تحفتا عنایت فرماتے تھے،
اپنی کتاب کی اشاعت کے علاوہ مفتی اشفاق صاحب دیگر علماء کی کتابیں بھی شائع کرانے کا اہتمام کرتے تھے،حضرت مولانا مطیع الرحمن صاحب(پیدائش 1946) کی دو کتاب ایک ‘رہنمائے راہ طریقت’ جو تقریبا 400 سے زائد صفحات پر مشتمل ہے اور دوسری ‘التسہیل الغریب’ جو دوسو احادیث پر مشتمل ہے دونوں کتابوں کو اپنی نگرانی میں کمپوز کرایا پھر اس کی نظر ثانی اور تصحیح و تعلیق کے بعد دیوبند سے شائع کرانے کا اہتمام فرمایا،اسکے علاوہ حضرت کے چھوٹے چھوٹے اوربھی کئی رسائل مفتی صاحب نے اپنی نگرانی میں شائع کرایا۔
*تذکرہ علمائے بھاگلپورکے چند صفحات کی کمپوزنگ*
یہ میری ایک کتاب کا مجوزہ نام ہے جس پر کام جاری ہے،میری اس کتاب کے بارے میں جب انھیں علم ہوا کہ میں اس موضوع پر کام کررہا ہوں تو وہ برابر اس کتاب کے بارے میں مجھ سے پوچھتے کہ آپ کا کام کہاں تک پہونچا؟کام جاری رکھئے اور جلد سے جلد تکمیل کیجئے ادھر کچھ سالوں سے جب کبھی ملاقات یا گفتگو ہوتی تو اسکا ذکر ضرور کرتے اورمددکی یقین دہانی بھی کراتے،کچھ ماہ قبل انھوں نے مجھ سے کہا کہ آپ جیسے جیسے لکھتے جائیں مجھے بھیج دیں اور میں دیوبند میں اسے کمپوز کراتا رہوں گا،ایسے میں کتاب کا کام تیزی سے ہوگا اور آپ کو فکر بھی رہے گی تو بہت جلد یہ کتاب شائع ہوجائے گی،میں نے حامی بھرلی اور کچھ صفحات انھیں بھیج دئیے،اسے انھوں نے ششماہی کی چھٹی میں گھر جانے سے قبل پچاس ساٹھ صفحات کمپوز کرابھی دئے اور اسکی اطلاع بھی مجھے دیدی،حالانکہ یہ کتاب ابھی ادھوری ہے مواد کی عدم دستیابی کی وجہ سے ابھی کافی کام باقی ہے،لیکن انکی دلچسپی ایسی تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ جلد از جلد ہماری زندگی میں ہی شائع ہوجائے ورنہ معلوم نہیں کب شائع ہوگی،لیکن کتاب کی اشاعت سے پہلے ہی وہ چل بسے۔ رحمہم اللہ تعالی رحمتاواسعا۔
*علاقے کے لوگوں کا انکی طرف رجوع*
ادھر کچھ عرصے سے میں نے محسوس کیا کہ لوگوں کا رجوع انکی جانب بڑھ رہاہے،مسئلے مسائل کے حل اور دینی و شرعی رہنمائی کےلئے بڑی تعداد میں لوگ ان سے رجوع ہوتے تھے، لوگوں کو انکے علم پر اعتماد تھا،ہرنتھ کے جن دو چار عالم پر گاؤں کے لوگ مکمل اعتماد کرتے ہیں،انکا احترام کرتے ہیں،ان میں ایک وہ بھی تھے۔جب کبھی چھٹیوں میں گھر آتے تو جمعہ کے موقع پر وعظ وخطابت اور امام صاحب کی غیر موجودگی میں گاؤں کی مسجد میں امامت کا شرف اکثر انھیں ہی حاصل ہوتا،علاقے کے بڑے علماء بھی ان پر اعتماد کرتے اور ہم جیسے طالب علم بھی انکی تعظیم کرتے تھے۔
*جواکھر کی مسجد میں امامت وخطابت کی ذمہ داری*
مفتی صاحب دیوبند میں رہتے تھے لیکن ہر دوتین چار مہینے میں بھاگلپور کا ایک چکر ضرور لگا لیتے تھے،جواکھر میں انکے گھر کے پاس جو مسجد ہے، اسکی تفصیل میں نے اوپر لکھی ہے،اس مسجد کے قیام کے بعد جب بھی گھر آتے تو جمعہ کے علاوہ پنج وقتہ نمازوں کی امامت انھیں کے ذمہ تھی،ادھر کچھ سالوں سے وہ جواکھر ہی میں مقیم ہوگئے تھے، ہرنتھ بھی آنا جانا ہوتا،لیکن مستقل اور اکثر اوقات وہ جواکھر ہی میں گذارتے تھے،دن میں ہرنتھ جاتے اور شام میں جواکھر لوٹ جاتے۔ہرنتھ سے جواکھر کا فاصلہ ایک آدھ کیلو میٹر ہے۔
*ہرنتھ میں ایک لائبریری قائم ہونی چاہئے!*
کئی ماہ قبل ہم نے یہ محسوس کیا کہ’ ہرنتھ’ اہل علم کی بستی ہے،علماء کی ایک بڑی تعداد یہاں موجودہے،اسلئے ضرورت محسوس کی گئی کہ یہاں ایک لائبریری بنائی جائے،کئی ماہ قبل ہم نے اس سلسلے میں مفتی اشفاق صاحب سے تبادلہ خیال کیا تو انھوں نے بھی اپنی آمادگی کا اظہارکیا اور یہ کہاکہ گاؤں میں لائبریری ضروری ہے،لیکن اسکا قیام کہاں پر ہو؟میرا خیال یہ تھاکہ مسجد کے آس پاس ہی کوئی مناسب جگہ ہو،انھوں نے بھی اسکی تائید کی اور یہ مشورہ ہواکہ پہلے مناسب جگہ مل جائے پھر کتابیں جمع کی جائیں،لیکن مناسب جگہ نہیں مل سکی،جس کی وجہ سے فی الحال لائبریری قائم نہیں ہوئی،خیال تھا کہ اگرجگہ کی نشاندہی ہوجائے تو سب سے پہلے میرے بڑے خالو مولانا فیروز عالم قاسمی صاحب مرحوم کی دو تین الماری کتابیں اس لائبریری کو دے دی جائیں،پھر مزید کتابیں وہاں آتی رہیں گی اسطرح پڑھنے لکھنے کا ایک ماحول بن جائے گا،لیکن فی الحال یہ نہیں ہوسکا،حضرت مفتی طاہر نادری صاحب بھی اس معاملے میں فکرمند ہیں،اللہ تعالی آسان فرمائے اور کامیابی عطافرمائے۔
*ضرورت مندوں کےلئے گاؤں کی سطح پر ایک فاؤنڈیشن کا منصوبہ*
کئی ماہ قبل میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ گا ؤں کے غریب،مستحق،ضرورت مند اور مشکلات ومصائب کا شکار،بےسہارا حضرات کےلیے بالخصوص ایسے علماء جو دین کی خدمت میں مصروف ہیں اور کسی حادثے کے موقع پر انھیں پریشانی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے ایسے لوگوں کی مدد اور ہیلف کےلئے کوئی پلیٹ فارم ہونا چاہیے جسکے ذریعے وقت ضرورت ایسے لوگوں کا تعاون کیاجاسکے،علاج وغیرہ کےلئے کچھ ہاتھ بٹایا جاسکے،مفتی اشفاق صاحب کے علاوہ اورکئی علماء سے ہم نے اسکا تذکرہ کیا اور خاکہ پیش کیا کہ فی الحال ہرنتھ کے جو نوجوان باہر دوسرے شہروں میں رہتے ہیں انھیں جوڑکر مہینے میں کم ازکم سو سو روپے اس فنڈ کےلیے جمع کرانے کی ذہن سازی کی جائے تو مفتی اشفاق صاحب کہنے لگے یہ مشورہ تو آپ کا بہت اچھا ہے یہ کام ہونا چاہئے،قطرے قطرے سے دریا بنتاہے پھر یہ پروگرام بنایاگیا کہ آنے والی عید کے موقعے پر شوال کی چھٹیوں میں جب گاؤں کے اورلوگ آئیں گے اور سب جمع ہونگے تو اسکو عملی جامہ پہنایاجائے اور باضابطہ ذمہ داران کا انتخاب بھی کیاجائے،شوال آنےسے پہلے ہی مفتی صاحب داغ مفارقت دے گئے۔
*مدرسہ حسینیہ ہرنتھ کے تعلق سے انکی فکرمندی*
گاؤں کا وہ مدرسہ جہاں انھوں نے حفظ کی تکمیل کی اور اپنا بچپن گذارا،اس مدرسے کے تعلق سے بھی مفتی اشفاق صاحب ہمیشہ فکرمند رہتے،وہ چاہتے تھے کہ ایک اچھے نظام کے مطابق چلے،
لاک ڈاون میں جب مفتی ہلال صاحب کا انتقال ہوگیا تو میں نے ان سے رابطہ کیا کہ مفتی صاحب مدرسے کو بچایا جائے، وہ ہرنتھ کا اوراس علاقے کا ایک قدیم ادارہ ہے،ہم لوگوں کی مادر علمی بھی ہے،لہذا اسکے تحفظ اور بقاء کےلئے جدوجہد کی جائے،مدرسے میں ایک نظام قائم ہو اور یہ ادارہ ادارہ ہی رہے تو انھوں نے مجھ سے کہاکہ اسکےلئے علاقے میں تحریک چلانی پڑے گی،زمینی سطح پرکام کرنا ہوگا،لوگوں کوبیدار کرنا پڑے گا اور یہ کام آپ ہی کرسکتے ہیں،چنانچہ دوتین سال قبل 2022ء میں جب ہم لوگ متحرک ہوئے اور علاقے کے علماء ودیگر اہم لوگوں سے ملاقات اور انکی ذہن سازی کی تو پورے علاقے میں بیداری آگئی،اس مدرسے کے تعلق سے لوگوں کی دلچسپی بڑھ گئی، نہیں تو سب لوگ سورہے تھے،جسکے نتیجے میں ایک کمیٹی اور شوری بن گئی،حالانکہ اس معیار کی کمیٹی نہیں بنی تھی جس معیار کی ہم لوگ چاہتے تھے،کمیٹی میں کام کرنے والے افراد کو لیا ہی نہیں گیا جسکی وجہ سے یہ کمیٹی بھی برائے نام ہی تھی،لیکن علاقے کی اہم شخصیات شامل تھی جس میں اکثر عمرداز لوگ تھے،لیکن گذشتہ دنوں کچھ لوگوں نے اس کمیٹی کو نظرانداز کرکے ایک عوامی میٹنگ بلائی، کچھ علماء کو بھی مدعوکیا اور پھر کسی غوروفکر کے بغیر مہتمم اور نائب مہتمم کا انتخاب کرلیاگیا،جس سے مفتی اشفاق صاحب بھی دکھی تھے اور ناگواری کا اظہار کرتے تھے،گاؤں کے کچھ لوگوں نے ان سے رجوع کیا اور مشورہ مانگا کہ ہم لوگ مدرسے کے موجودہ اسٹاف کے خلاف قانونی کا روائی کرناچاہتے ہیں آپ کی کیا رائےہے؟مفتی صاحب نے کہا کہ بھائی ابھی قانونی کاروائی کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ شہرکے جن علماء کو مدعوکیا گیا تھا اس کاروائی سے وہ بھی زد میں آئیں گے اور یہ فی الحال بہتر نہیں ہے،کچھ دن اور انتظار کرلیاجائے اگر مدرسے کا نظام درست ہوجاتاہے توپھراسکی ضرورت ہی نہیں اوراگرنہیں ہوتاہے تو پھر سوچا جائے گا،یہ علماء سے انکی محبت کی دلیل تھی،میری بھی رائے یہی تھی کہ اگر چہ یہ سب غلط ہوا لیکن ابھی اس قسم کا اقدام مناسب نہیں ہے،ملک کے حالات بھی مسلمانوں کے حق میں بہتر نہیں ہیں،ایسے میں اسطرح کا فیصلہ جلدبازی ہوگی،چنانچہ ہم دونوں کی رائے کے بعد قانونی کاروائی رکوادی گئی،اور یہ سب ٹھنڈے بستے میں ڈال دیاگیا،لیکن آگے کاروائی نہیں ہوگی اسکی کوئی گارنٹی بھی نہیں لی جاسکتی،معلوم ہوا ہے کہ مدرسے میں مہتمم اور نائب مہتمم کے انتخاب کے کئی ماہ گذرجانے کے بعد اب تک وہاں کچھ نہیں بدلا،جیسا پہلے تھا اب اس سے بھی بدتر ہوگیا ہے،نہ مدرسے میں بچوں کی قابل لحاظ تعداد ہے، نہ تعلیم ہے اور نہ یہ معلوم کہ اسٹاف کو تنخواہ کون دے رہا ہے،مدرسے میں پڑھائی کیا ہورہی ہے؟ کیا آرہا ہے اور کیا خرچ ہورہا ہے؟ یہ سب کسی کو نہیں معلوم، لوگو ں کا کہنا ہے کہ مدرسے کا اسٹاف مدرسے میں کھا رہا ہے اورسورہا ہے کوئی کچھ کہنے والا نہیں ہے،پھر مہتمم اورنائب مہتمم بنانے کا حاصل کیا ہوا؟ خداکرے کہ مدرسے کے حالات درست ہوں اور کوئی مستحکم نظام قائم ہو۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔