آہ! مفتی اشفاق عالم قاسمی،ایک سنجیدہ اور بافیض عالم دین
*سرفرازاحمدقاسمی حیدرآباد*
*رابطہ نمبر: 8099695186*
(پانچویں اورآخری قسط)
*صلاحیت وصالحیت دونوں کا مجموعہ*
ایسا بہت کم ہوتاہے کہ بیک وقت کسی کے اندر یعنی صلاحیت اور صالحیت دونوں صفات جمع ہوجائیں،کسی کے پاس صلاحیت ہوتی ہے تو وہ صالحیت جیسی عظیم صفات سےمحروم رہتاہے اور کسی کے پاس صالحیت ہوتی ہے تو وہ صلاحیت سے محروم ہوتاہے،اللہ تعالی یہ دونوں چیزیں کسی کسی کو عطاکرتاہے،کسی کے پاس صلاحیت تو ہوتی ہے لیکن وہ اپنی صلاحیتوں کا درست استعمال نہیں کرپاتے،صلاحیتوں کا ہونا کمال نہیں بلکہ اسکا صحیح استعال بہت بڑی اورکمال کی بات ہے،مفتی صاحب کے اندر دونوں چیزیں جمع تھی اور وہ اپنی صلاحیتوں کا درست استعمال بھی کرتے تھے اسی وجہ سے وہ اکابرعلماء اوراپنے اساتذہ کے منظورنظر تھے،اور ہم جیسے کم علم لوگ بھی انکی جانب کھینچتے چلے جاتے،وہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اسکی باریکی پر سنجیدگی سے غورکرتے پھر اپنی رائے دیتے،انکی تقریریں اور انکا خطاب جوشیلا نہیں ہوتا تھا اور آج کل کے مقررین کی طرح انکا خطاب چینخ وپکار سے بھی یکسر خالی تھا لیکن باتیں سنجیدگی سے بھر پور ہوتیں،انکا درس بھی گھن گرج سے پاک ہوتاتھا،انکی مجلس میں بیٹھنے،ان سے قربت رکھنے اوران سے ملنے جلنے والا ہرشخص یہ شہادت ضرور دے گا کہ انکی مجلسیں اور محفلیں کبھی سنجیدگی سے خالی نہیں ہوتی تھی،وہ متانت وسنجیدگی کا پیکر تھے،ان کا اخلاق عالی تھا،کسی سے کوئی بات چیت کرتے یاکوئی مشورہ دیتے تو اس میں ہمیشہ بھلائی اور خیرخواہی کا جذبہ غالب ہوتا،کسی سے ملاقات کرتے تو اخلاق وکردار کا اعلی نمونہ پیش کرتے،بہت سارےلوگ سامنے والے کے مقام ومرتبے کے مطابق اپنا اخلاق پیش کرتے ہیں،لیکن انکے یہاں بڑا چھوٹا سب برابر تھا،سب کو اپنے اخلاق کا گرویدہ بناتے،مسکراتے چہرے،معصومیت سے لبریز گفتگو،خوش مزاجی اور خندہ پیشانی کےساتھ ملتے،خوش اخلاقی،تواضع و انکساری انکی شناخت تھی،لین دین اور معاملات کی صفائی پر بھی وہ خوب توجہ دیتے، اپنا چھوٹا سے چھوٹا کام وہ خود کرتےانکی زندگی میں ہٹو بچو جیسےکسی قسم کے کرو فر اور چشم وخدم کا کوئی تصور نہیں تھا،وہ محنتی و جفاکش انسان تھے،جس کام کا ارادہ کرلیتے اسے پورا کرکے چھوڑتے،اپنے دھن کے پکے انسان تھے،بزگوں کی صحبت اور تعلق نے بھی انکی شخصیت کو نکھاردیاتھا،فدائے ملت حضرت مولانا اسعدمدنی نے ابتداء انھوں نے اصلاحی تعلق قائم کیا تھا،بعدہ حضرت مولانا مطیع الرحمن صاحب کی مجالس میں شرکت کرتے اور اوراد ووظائف پر عمل کرتے تھے۔
*مفتی صاحب سے میرے تعلقات*
میرے تعلقات ان سے باضابطہ کب قائم ہوئے یہ تو یاد نہیں لیکن یاد پڑتاہے کہ میری طالب علمی کا زمانہ تھا،ہرنتھ میں ظہر کی نماز کےلئے سب لوگ مسجدمیں جمع تھے،نماز سے فراغت کے بعد معین مرڑصاحب مرحوم نے مسجد میں ایک مسئلہ چھیڑ دیاکہ تراویح پڑھانے کا ہدیہ لینا کیسا ہے؟اور رمضان میں ختم قرآن کے موقع پر شیرنی اور جلیبی وغیرہ تقسیم کرنا کیسا ہے؟ایک فریق کہتا کہ کوئی حرج نہیں ہدیہ لیاجاسکتا ہے اور ختم قرآن کے موقع پر شیرنی تقسیم کی جاسکتی ہے،دوسرے فریق کی رائے اس کے برعکس تھی لیکن دونوں گروپ میں غیرعالم لوگ تھے اور ہرنتھ کے اکثر بوڑھے پرانے لوگ باحیات تھے،امام مسجد،مولانا عبدالطیف صاحب قاسمی بھی موجودتھے،مفتی اشفاق صاحب ابھی نئے نئے فارغ ہوکر آئے تھے،میرے نانا مرحوم نے مفتی صاحب کو آواز دی ارے مفتی صاحب ادھر آئیے! مفتی صاحب مسجد ہی کے ایک کونے میں دکھن جانب مینار کے حصے میں نماز پڑھ رہے تھے،اسوقت ساجد مرڑ صاحب مرحوم(خسر حافظ اظہارالحق صاحب)،مولوی مشرف صاحب مرحوم(خسرمولانامطیع الرحمن صاحب) وغیرہ بھی موجود تھے وہ میرے نانا پر گرم ہوگئے کہ’ مفتی کو ارے سے بلاتا ہے جاہل کہیں کا’اسی پر ماحول گرم ہوگیا اورمسجدکے باہرآواز بلند ہونے لگی کچھ دیر کے بعد سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے،اسطرح میں اسی دن مفتی صاحب سے متعارف ہوا،چونکہ میرا بھی آبائی گاؤں ہرنتھ ہی ہے جو مفتی صاحب کا ہے،راہ چلتے ملاقات اور علیک سلیک ہوجاتی،رفتہ رفتہ وقت گذرتا رہا اور تعلقات پروان چڑھتے رہے ،ان سے میرے تعلقات کی ایک دوسری وجہ بھی ہے وہ یہ کہ انکی ایک بہن میری والدہ کے چچا زاد بھائی کے نکاح میں ہے،اسلئے بھی ان سے قربت ہوتی گئی اب تو کئی نئے رشتے بھی قائم ہوگئے،زمانہ طالب علمی میں جب کبھی میں چھٹیوں میں گھر آتا اور ان سے ملاقات ہوجاتی تو وہ مجھ سے حال احوال اور خیرخیریت ضرور لے لیتے۔
لا ک ڈاؤن سے پہلے تک وہ سال میں ایک بار حیدرآباد ضرور آتے اور جب بھی آتے مجھے فون ضرور کرتے اسکے بعد طویل ملاقاتیں ہوتی،اب تو ادھر کئی سال سے انکے حیدرآباد کاسفر کم ہوگیاتھا،یہاں آتے تو چائے اور حلیم کو بہت پسند کرتے،کئی سال قبل ایک صاحب جو حیدرآباد میں ہی بچیوں کا ایک ادارہ چلاتے ہیں،انکو دیوبند سے مدعو کیا وہ پروگرام میں شرکت کےلئے حیدرآباد آئے اور مجھے فون کیا کہ میں حیدرآباد آیا ہوا ہوں،کل دیوبند واپس ہوجاؤں گا،آئیے آپ سے ملاقات بھی ہوجائے گی اور پروگرام میں شرکت بھی،میں نے کہا کہ پروگرام میں تو شریک نہیں ہوسکوں گا کیونکہ میرا پروگرام آج ہی دوسری جگہ طے ہے اور مجھے وہاں شرکت کرنا ضروری ہے،کہنے لگے ٹھیک ہے کوئی بات نہیں پروگرام کے بعد شام تک آئیے،میں شام میں فارغ ہوکر ان سے ملاقات کےلئے پہونچا،چائے وائے پی گئی اسکے بعد میں نے کہا کہ آج آپ رات کا کھانا میرے ساتھ ہی کھالیجئے کہنے لگے آپ کی دعوت قبول کرلیتا لیکن دوسرے مہمان جو میرے ساتھ دیوبند سے آئے ہوئے ہیں اور جہاں ہم لوگوں کا قیام ہے کھانا ہم لوگوں کو وہیں کھاناہے،مفتی صاحب کے ہاتھ میں ایک کتاب کے دو تین نسخے تھے جسکا نام تھا”ضیائے دارارقم” یہ اسی ادارے کی ایک کتاب تھی،مختلف عنوان پر بچیوں کی تحریرکو شائع کیاگیاہے، میری جانب کتاب کا ایک نسخہ بڑھاتے ہوئے فرمایا آج ہی اس کتاب کا رسم اجراء انجام پایاہے آپ بھی مطالعہ کیجئے،کتاب میں نے لے لی اور علیک سلیک کے بعد وہ اپنی قیام گاہ پر چلے گئے اور میں اپنی جگہ آگیا،حیدرآباد میں ان سے یہی آخری ملاقات تھی،اسکے بعد پھر کبھی ملاقات نہیں ہوئی،حیدرآباد سے جب وہ دیوبند پہونچ گئے تو کچھ دنوں کے بعد انکا فون آیا،علیک سلیک اور خیر خیریت کے بعد فرمانے لگے کہ آپ نے اس کتاب کا مطالعہ کیا؟ میں نے ہاں میں جواب دیا اورکہا مفتی صاحب! اس کتاب میں تو کئی غلطیاں ہیں،پھر میں نے صفحہ نمبر کی نشاندہی کے ساتھ کئی غلطیوں کی وضاحت کی تو کہنے لگے کہ میری نظر تواس پرگئی ہی نہیں،اس کتاب میں ایک جگہ لکھاہے کہ جیسے نکاح کرنے کےلئے دوگواہ لازم ہیں،ٹھیک اسی طرح طلاق دینے کےلئے بھی دو گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔خداجانے یہ مسئلہ اس کتاب میں کہاں سے نقل کیا گیا ہے اوراسکی کیا حقیقت ہے،جب کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ طلاق کے وقت گواہ بنانا تو مستحب ہے لیکن شرط نہیں ہے،بغیر گواہ کے طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
مفتی صاحب نے ہی بتایا تھا کہ اس کتاب پر نظرثانی دومفتی صاحبان نے کی ہے اور وہ دونوں حیدرآباد کے بڑے بڑے ادارے میں استاذ حدیث ہیں، کافی دنوں تک اس واقعہ کو یاد کرکے چٹکی لیتے اورمزاح کرتے،کبھی ملاقات ہوجاتی تو مجھےچھیڑ دیتے یافون پر اس واقعے کا تذکرہ کرتے اورکچھ دیرکےلئے محفل گل گلزار ہوجاتی۔
2019ء میں دس بارہ سال کے بعد میں دہلی اور دیوبند کے ایک پروگرام میں شرکت کےلئے جب حاضر ہوا اور انکومیرے بارے میں معلوم ہوا تو برابر فون پر خبر گیری کرتے رہے اور جتنے دن میں دیوبند میں تھا تقریبا روزانہ عصر کے بعد مجھ سے ملاقات کےلئے آجاتے اورساتھ میں تفریح کرتے،ایک دن اپنے مدرسہ جامعہ الشیخ بھی لیکر گئے،مدرسہ دکھلایا ،مختلف اساتذہ سے میرا تعارف کرایا،گرمی کا زمانہ تھا، بہترین لسی اور آم وغیرہ سے ضیافت کی،مولانا مطیع الرحمن صاحب کے بعض رسائل اور اپنی دوتین کتابیں عنایت فرمائی،جس دن مجھے دیوبند سے نکلنا تھا اسی دن حضرت مفتی سراج الدین صاحب قاسمی،بھاگلپوری،رفیق دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کے یہاں پرخلوص دعوت میں میرے ساتھ شرکت کی،دعوت سے فراغت کے بعد مفتی سراج صاحب نے بھی حضرت مولانا مظہرالاسلام صاحب کی بعض کتابیں عنایت فرمائیں جسے انھوں نے دیوبند سے شائع کرایا ہے،اللہ تعالی مفتی سراج صاحب کو بہتر بدلہ عنایت فرمائے۔
گذشتہ اکٹوبر ہی میں حضرت مولانا مظہرالاسلام صاحب قاسمی شیخ الحدیث مدرسہ شفیقیہ آسام سے ملاقات کےلئے انکے گھر “دریا پور” حاضر ہوا تو انھوں نے فرمایا کہ ابھی دوچار دن قبل مفتی اشفاق صاحب بھی مجھ سے ملنے یہاں آئے تھے اور اپنی کچھ کتابیں بھی دیکر گئے ہیں۔
ادھر کچھ سالوں سے کوئی مشورہ کرنا ہوتو سب سے پہلے مفتی صاحب مجھے فون کرتےاور کھل کر باتیں ہوتی تھیں،میں بھی خیرخواہانہ مشورہ دینے میں کوئی دریغ نہیں کرتا تھا،کوئی اہم مسئلہ مجھے بھی درپیش ہوتا تو ان سے ضرور رجوع کرتا،مشورہ لیتا اور وہ بھی کھلے دل کے ساتھ ہمیشہ رہنمائی کرتے تھے،ان سے وابستہ یادوں کا ایک طویل سلسلہ ہےجو ختم ہی نہیں ہورہااورقلم ہے کہ چلتاچلا جارہاہے،اب اس تحریر کو یہیں ختم کرتاہوں۔
6 دسمبر جب جب آئے گا تب تب دو دو زخم ہرا کرجائے گا،ایک تو بابری مسجد کی شہادت کا زخم اور دوسرا ایک علمی رفیق ،معاون اور ایک سرپرست کو کھونے کا زخم جنھیں دیکھ کر طبیعت کھل اٹھتی تھی،چہرے پر مسرت کے آثار نمایاں ہوجاتے تھے،ان سے مل کر،ملاقات اور گفتگو کرکے دلوں کو ایک گونہ سکون ملتاتھا،رب انکے درجات کو بلند کرے اور سیئات کو درگذر فرمائے۔
*جواکھر کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ*
6 دسمبر 2024ء کی صبح فجر کے بعد اس پچاس، پچپن سالہ شخص،چہرے پر گھنی اور لال داڑھی،بھرا بھرا سا جسم،سر پر چھوٹے چھوٹے بال اور صوفیوں والی پانچ پلی ٹوپی،بدن پر گھٹنوں سے نیچے تک لانبا اورسفیدکرتا،پستہ قد،خوبصورت اور گورے رنگ والا چہرہ، ٹخنوں سے کافی اوپر لنگی یا پائجامہ،چہرے پر خوبصورت سا چشمہ،چلتا تو سبک روئی،عاجزی،انکساری اور پورے وقار کے ساتھ تیز رفتاری سے قدم بڑھاتا،سامنے سے گذرنے والا ہرکوئی محسوس کرتا کہ ایک بارعب اور باوقار عالم راستہ طے کررہاہے،لباس و پوشاک اور چہرے مہرے سے سادگی عیاں، دل میں کسی طرح کی کوئی کدروت نہیں،ذہن کا بالکل صاف،اپنے اصول وضوابط پر سختی سے عمل پیرا،اپنی زندگی کے ایام پورے کرکے اس منافق دنیا کو خیرآباد کہہ گیا اور ایک دنیا ویران کرگیا،روح قبض ہونے سے چند منٹ پہلے تک عیادت کےلیے آنے والے اور پاس کے تمام لوگوں کو بات چیت کرکے مطمئن کرگیا کہ میری طبیعت بہتر ہے،پریشانی کی کوئی بات نہیں ہےاور پھر چندمنٹ کے اندر خاموشی سے یہ کہتاہوا چل بسا کہ
*سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑجاؤں گا*
*میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑجاؤں گا*
مفتی صاحب اولاد نرینہ سے محروم تھے،اپنے پیچھے بیوہ کے علاوہ چار بچیوں اور اپنے سینکڑوں شاگردوں کو یتیم کرگئے،اللہ تعالی انکی چاروں بچیوں کے مستقبل کو تابناک بنائے اورغیب سےانکی ضروریات کی تکمیل فرمائے،اسی دن بعد نماز عصر عارف باللہ اور علاقے کے معروف عالم،حضرت مولانا مطیع الرحمن صاحب قاسمی نے جنازے کی نماز پڑھائی اور جواکھر کے قبرستان میں ہی انکی تدفین عمل میں آئی،یہ باضابطہ پہلے عالم ہیں جنھیں جواکھر کے قبرستان میں نم آنکھوں کے ساتھ سپردخاک کیا گیا، ایک محتاط اندازے کے مطابق قرب و جوار کے پندرہ سولہ سو لوگوں نے جنازے میں شرکت کی،علاقے کے علماء وحفاظ کے بشمول اتنی بڑی تعداد اس گاؤں کے کسی جنازے میں نہیں دیکھی گئی،گویا جواکھر کی تاریخ کا یہ سب سے بڑا جنازہ تھا۔
*(مضون نگار معروف صحافی اور کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)*
sarfarazahmedqasmi@gmail.com