آہ! مفتی اشفاق عالم قاسمی ایک سنجیدہ اور بافیض عالم دین
✒️سرفرازاحمدقاسمی حیدرآباد
*رابطہ نمبر: 8099695186*
(تیسری قسط)
*مفتی صاحب اپنی تصنیفات کے آئینے میں*
درس وتدریس اور وعظ وخطابت کے علاوہ انھوں نے مختلف کتابیں بھی تصنیف کیں،گوکہ انکی اکثر تصانیف عربی اور درسی کتابوں کی شروحات پر مشتمل ہے،تقریبا ایک درجن کتابیں انھوں نے تالیف فرمائیں، تصنیف وتالیف کا سلسلہ جامعہ فرقانیہ سبیل السلام کرنپور میں ہی شروع کردیا تھا،جیساکہ”فضائل محرم اوربدعات مروجہ”نامی اپنی معروف کتاب میں ایک جگہ وہ خودلکھتے ہیں کہ
“احقر نے قرآن وحدیث اور فقہ و فتاوی کی روشنی میں ایک رسالہ “فضائل محرم اور بدعات مروجہ” مرتب کیاہے،اس رسالے کا مسودہ تقریبا تین سال قبل ہی تیار ہوچکا تھا مگر اپنی کم علمی اور بے وضاعتی کی بنا پر اسے چھپانے کی جرأت نہیں ہوسکی، لیکن جب چند احباب کا اصرار ہوا تو کچھ ہمت ہوئی اور پھر خدائے لاشریک لہ کی مدد شامل حال ہوئی، جسکے نتیجے میں یہ رسالہ آپ کے مبارک ہاتھوں میں ہے”۔ 2007 میں غالبا اس کتاب کا پہلا ایڈیشن شائع ہواہے، کتاب کے اختتام پر اشفاق عالم قاسمی،خادم التدریس جامعہ فرقانیہ سبیل السلام کرنپور 27 فروری 2005ء کی تاریخ درج ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ کرنپور میں قیام کے دوران ہی یہ کتاب لکھی گئی ہے اور بعد میں شائع ہوئی ہے،کتابوں کے علاوہ کچھ مضامین بھی وہ وقتا فوتا لکھتے رہے،کئی اہم شخصیات پر بھی انھوں نے تحریریں لکھیں،مناسب معلوم ہوتاہے کہ ان کی تصانیف کا مختصر تعارف کرادیا جائے۔
*1 فضائل محرم اور بدعات مروجہ*
یہ انکی پہلی تالیف ہے اور جیسا کہ اپنے نام سے ظاہر ہے،اس کے اب تک متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں،پہلا ایڈشن 120 صفحات پر مشتمل ہے،بعدکے ایڈیشنوں میں کچھ صفحات کا اضافہ کیاگیاہے جو اب تقریبا 130 صفحات پر پھیلی ہوئی ہے،ٹائٹل پر جدید اضافہ شدہ ایڈیشن لکھا ہواہے،گذشتہ سال ذی الحجہ میں جب اس کتاب کا نیا اور تازہ ایڈیشن شائع ہوا تو انھوں نے اسکی ایک کاپی مجھے بھیجی اور فون کرکے اس پر تبصرہ لکھنے کا حکم دیا،میں نے ان شاء اللہ کہہ کر ٹال دیا،محرم کا مہینہ شروع ہونے سے دوتین دن پہلے انھوں نے پھر مجھے فون کیا اور کہاکہ”آپ سب کی کتابوں پر تبصرہ کرتے ہیں،میری کتاب پر بھی آپ کو تبصرہ لکھنا ہے،اس دن کافی دیر تک فون کرکے مجھ سے گفتگوبھی کی اور تبصرہ لکھنے کےلئے پابند کیا،یہ بھی کہا کہ محرم شروع ہونے میں صرف دو دن باقی ہیں آپ کو ہر حال میں تبصرہ لکھنا ہے،چنانچہ میں نے دوسرے دن تبصرہ لکھ کر اخبارات کو بھیج دیا،جب وہ تبصرہ شائع ہوا تو مجھے فون کیا کہ ماشاء اللہ آپ نے میری کتاب پر شاندار تبصرہ لکھا ہے،خوشی کا اظہار کیا اور کہاکہ آپ کے تبصرہ لکھنے سے میری دوسو کتاب بک ہوگئی ہے،اسکے بعد مجھ سے انھوں نے پوچھا کہ آپ کے پاس میری کون کونسی کتاب ہے میں نے کہاکہ دو تین ہوگی کہنے لگے آپ دیکھ کر مجھے بتائیے جو نہیں ہوگی وہ بذریعہ ڈاک بھیج دوں گا،پھر ہفتہ دس دن کے بعد ان کی بقیہ کتابیں موصول ہوگئیں،میں نے اسکی اطلاع کےلئے انکو فون کیا تو فرمانے لگے کہ آپ کو میری دیگر کتابوں پر ایسے ہی تبصرہ لکھنا ہے میں نے حامی تو بھرلی لیکن نہیں لکھ سکا۔
*2 رہنمائے نظامت*
80 صفحات پر مشتمل انکی یہ دوسری تالیف اور دوسرا رسالہ ہے،2008ء میں اس کتاب کی اشاعت ہوئی ہے،پروگرام کی نظامت اور اناؤنسری سے متعلق ایک مفید کتاب ہے،حضرت مولانا عبدالخالق سنبھلی صاحب سابق استاذ دارالعلوم دیوبند،حضرت مولانا نسیم صاحب بارہ بنکی استاذ دارالعلوم دیوبند،حضرت مولانا اسماعیل صادق صاحب مہتمم جامعہ فلاح دارین بلاسپور مظفرنگر اورحضرت مولانا میرزاہد صاحب مکھیالوی ناظم تعلیمات فلاح دارین بلاسپور کی تصدیقات اور دعائیہ کلمات اس کتاب میں موجود ہیں،الکلمتہ الاولی کے عنوان سے مفتی صاحب اس کتاب کے بارے میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
” 1989 کی بات ہے کہ احقر مدرسہ مدنیہ چلمل، بانکا، میں عربی سوم کا ایک ادنی سا طالب علم تھا، وہاں “اصلاح اللسان” کے نام سے طلبہ کی ایک انجمن ہوتی تھی،اس سال اناؤنسری کی ذمہ داری احقر کو سونپی گئی،احقر اس فن سے بالکل نابلد تھا لیکن ذمہ داری کے احساس نے کچھ مطالعے کا شعور پیدا کیا اور پھر اپنے مشفق اساتذہ کی شفقت و عنایت اور مدد سے ہر ہفتہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ذمہ داری کو کسی نہ کسی طرح نبھاتا رہا، جس کے نتیجے میں کچھ مواد جمع ہو گیا،اس ادارے میں تعلیمی اعتبار سے یہ میرا آخری سال تھا دوسرے سال خدا کے فضل سے مادر علمی دارالعلوم دیوبند میں داخلے کی سعادت نصیب ہوئی یہاں طلبہ بھاگلپور کی انجمن” بزم سہول” سے دیگر طلباء کی طرح احقر بھی منسلک ہو گیا، دارالعلوم کی پانچ سالہ طالب علمانہ زندگی میں کئی بار نظامت کی ذمہ داری احقر کے حصے میں آئی،احقر ازہر الہند دارالعلوم دیوبند کے میکدے سے اپنے ظرف کے مطابق لطف اندوز ہوتا رہا،گویا مادر علمی کے فیضان عشق نے آداب جنون سکھا کر آشنائے لذت شعور و اگہی بنا دیا اور اس طرح اناؤنسری کے حوالے سے کافی مواد یکجا ہو گیا۔
فراغت کے بعد جب جامعہ فرقانیہ سبیل السلام کرنپور میں دینی خدمات کی توفیق ملی تو وہاں کے ذمہ داروں نے شفقت و عنایت فرما کر طلبہ کی انجمن” اصلاح البیان”(جو اب ‘بزم کامل’ کے نام سے موسوم ہے) کی ذمہ داری احقر کے سپرد کی، پھر چند سالوں کے بعد حضرت رئیس الجامعہ جناب قاری احمد اللہ صاحب رئیس القراء جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل، گجرات، نے اساتذہ کے لیے ایک انجمن ‘بزم کامل’ کے نام سے قائم کی جو ہر ہفتہ چہار شنبے کے دن بعد نماز مغرب ہوتی تھی،جس میں جمیع اساتذہ شریک ہوتے اور طے شدہ پروگرام کے مطابق تقریر کرتے تھے، اس پروگرام کو چلانے کی مکمل ذمہ داری احقر کے سپرد تھی چونکہ یہ عوامی سطح سے ہٹ کر خالص اہل علم کی مجلس ہوتی تھی اس لیے نظامت کے لیے احقر کو بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا پڑتا تھا اور تیاری بھی اسی انداز سے کرنی پڑتی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند ہی ماہ میں کافی سلیقہ پیدا ہو گیا پھر شوق بڑھا تو حضرت رئیس الجامعہ کے مشورے سے جمع شدہ مواد کو کتاب کی شکل میں لانے کی تیاری شروع کر دی، خدا کے فضل سے مسودہ تیار ہو گیا لیکن درمیان میں “فضائل محرم اور بدعات مروجہ” کا کام ناگزیر ہو گیا، جو الحمدللہ چھپ کر عوام کے ہاتھوں میں جا چکی ہے اس وجہ سے اس کتاب کی طباعت میں کافی تاخیر ہو گئی”(صفحہ 15)
*3 اہل ایمان کے حقوق*
یہ انکی تیسری کتاب ہے،جس میں حقوق العباد سے متعلق چالیس احادیث، ترجمہ اور مختصر تشریح کے ساتھ مختلف کتابوں سے درج کی گئی ہے،حضرت مولانا میر زاہد مکھیالوی صاحب اس کتاب کے متعلق لکھتے ہیں کہ
“یہ خوش اتفاقی بھی ہے اور مولانا موصوف کا خلوص نیت بھی مسودہ ابھی کتابت کے مرحلے ہی میں تھا کہ اس سے استفادہ کا سلسلہ الحمدللہ شروع ہوگیا،جامعہ فلاح دارین کے عربی کےطلباء،نظام کے موافق ایک حدیث حفظ کرکے روزانہ مسجد جامعہ میں مصلیان اور اساتذہ کے درمیان سناتے ہیں،باری تعالی ہم سبکو اخلاص کامل نصیب فرمائیں اور تاحیات اپنے دین کی خدمت،حفاظت اور اشاعت کےلئے ہم سبکو قبول فرمائیں” صاحب کتاب اسی کتاب میں لکھتے ہیں کہ “امسال حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم کی خواہش ہوئی کہ اس سلسلے کا ایک دوسرا رسالہ حقوق العباد بالخصوص معاملات سے متعلق تیار ہوجائے چنانچہ حضرت والا نے احقر کو مامور کیا کہ رسالہ مرتب کردوں،اسی حکم کی تعمیل میں احقر نے صحاح ستہ وغیرہ کو سامنے رکھ کر بفضل الہی یہ رسالہ مرتب کیا جو معاملات سے متعلق چالیس احادیث پر مشتمل ہے،ترتیب دیتے وقت طلباء کی نفسیات کا خاص لحاظ رکھاگیا ہے اور ترجمہ کے ساتھ ساتھ مختصر تشریح کی گئی ہے جسے طلباء بآسانی یاد کرکے سناسکیں الحمدللہ سنانے کا سلسلہ بھی جاری ہے”اسکا ایڈیشن 2009ء میں شائع ہواہے۔
*4مسلمانوں کے چھ حقوق*
یہ کتاب 224 صفحات پر مشتمل ہے اور انکی چوتھی کتاب ہے،حدیث کے مطابق ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر کم ازکم 6 حقوق ہیں،سلام کرنا،دعوت قبول کرنا،نصیحت وخیرخواہی کا معاملہ کرنا، چھینک کا جواب دینا،بیمار کی عیادت کرنا اور جنازے میں شرکت کرنا انہی چھ چیزوں کو شرح وبسط اور مستند حوالوں کے ساتھ اس کتاب میں بیان کیاگیاہے،حضرت مولانا عبدالخالق سنبھلی صاحب،حضرت مفتی سلمان منصورپوری صاحب،حضرت مولانا نسیم احمد صاحب اساتذہ دارالعلوم دیوبند وحضرت مولانا مفتی محمد امجد علی صاحب استاذ دارالعلوم النصرہ دیوبند وغیرہ کی تقاریظ اور تائید اس کتاب کو حاصل ہے،سماجی ومعاشرتی حقوق کی عدم ادئیگی اور پامالی کو روکنے کےلئے یہ ایک اچھی کتاب ہے،آج جبکہ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے انسانیت کوسوں دور ہورہی ہے ایسے میں اس کتاب کا مطالعہ ایمان کو تازگی اور روح کو بالیدگی عطا کرے گا اور بہت مفید ثابت ہوگا،نیز سنت وشریعت کے مطابق زندگی گذارنے میں بھرپور معاون ثابت ہوگی،علماء و عوام کےلیے یکساں مفید ہے۔
*5 انوار الطحاوی شرح اردو طحاوی شریف*
یہ ضخیم کتاب 510 صفحات پر مشتمل ہے اور حدیث کی معروف کتاب طحاوی شریف کی اردو شرح ہے،طحاوی شریف مسلک احناف سے متعلق مدلل جوابات کےلئے شہرت رکھتی ہے،اکثر ایسی حدیثیں اس میں جمع کی گئی ہیں جس سے علمائے احناف استدلال کرتے ہیں، تمام دینی مدارس میں آخری سال میں پڑھائی جاتی ہے،یہ پہلی جلد ہے،جس میں کتاب الصلوہ باب الاذان تا باب السلام تک کی تشریح وتوضیح کی گئی ہے،بڑی محنت سے یہ شرح تیار کی گئی ہے مدارس کے اساتذہ اور طلباء کےلئے یہ کتاب مفید ہے۔حضرت مفتی عبداللہ معروفی صاحب کی تائید سے یہ کتاب مزین ہے۔
6 الکلام المسند شرح اردو مؤطأ امام محمد
یہ مؤطا امام محمدکی اردو شرح ہے اور پہلی جلد ہے اس میں کتاب النکاح ،کتاب الطلاق اور کتاب الضحایا کی شرح ہے،حضرت مولانا مفتی عبداللہ معروفی صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند اور حضرت مفتی مزمل علی صاحب آسامی مہتمم وشیخ الحدیث جامعہ الشیخ حسین احمد مدنی نے پسندفرمایاہے،یہ شرح بھی اساتذہ وطلباء کےلئے مفید ہے،288 صفحات پر مشتمل ہے۔
جاری۔۔۔۔۔