آہ! مفتی اشفاق عالم قاسمی ایک سنجیدہ اور بافیض عالم دین
✒️سرفرازاحمد قاسمی حیدرآباد
رابطہ نمبر: 8099695186
(دوسری قسط)
چنانچہ چائے وائے کےلئے مفتی صاحب مجھے لیکر گھرسے نکل پڑے، کچھ قدم چلنے کے بعد ایک گھر میں داخل ہوئے اندرآواز لگائی،مفتی صاحب اندر گئے اور پھر مجھے آواز دی،آئیے مولانا! میں انکی آواز سنکر گھرکے اندر داخل ہوا،مفتی صاحب نے بتایا کہ یہی میری سسرال ہے اور بچے یہیں رہتے ہیں،تھوڑی دیرمیں چائے وغیرہ بھی آگئی،اس سے فراغت کے بعد مفتی صاحب نے کہا کہ چلئے اب اطمینان سے وہیں گفتگو کریں گے،ہم پھر اسی گھر میں واپس آگئے،مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی اور ظہر کی اذان ہوگئی،مفتی صاحب کہنے لگے کہ آپ کو دوپہر کا کھانا بھی میرے ساتھ ہی کھاناہے،میں بڑا پریشان کہ میں تو کھانے پینے سے دور بھاگتاہوں اوریہاں تو ناشتہ اور کھانا میرا ساتھ چھوڑنے تیار نہیں،صبح ناشتہ کرکے گھر سے نکلا،انکار کے باوجود حضرت ماسٹر عباس صاحب(پیدائش 1935) نے چائے کے بہانے ایک اور ناشتے سے ضیافت کردی،یہاں سے فارغ ہوا تو مفتی صاحب نے چائے کے بہانے اور ایک ناشتہ کرادیا،اب کھانے کےلئے بھی اصرار ہورہاہے،مجھے کچھ پریشان دیکھکر مفتی صاحب کہنے لگے مولانا یہ سب موقع کبھی کبھار ہاتھ آتاہے،چلئے نماز کا وقت ہورہاہے،مسجد چلتے ہیں،وضوکرنا ہوتو یہیں کرلیجئے! وضو اور دیگرضروریات سے فارغ ہوکر ہم مسجد پہونچے،ایک کنارے میں سنت اداکی گئی،جماعت کا وقت ہوگیا، تکبیر شروع ہوئی،مفتی صاحب نے مجھے اشارہ کیا کہ چلئے نماز پڑھائیے،میں نے کہا آپ ہی پڑھائیے، لیکن ایک نہیں سنی گئی اور مجھے ہی امامت کےلئے آگے بڑھنا پڑا،نماز سے فراغت کے بعد لوگ تفشیش کرنے لگے کہ یہ مولانا کون ہیں ؟کہاں سے آئے ہیں؟ کہاں رہتے ہیں؟ تو مفتی صاحب خود ہی لوگوں سے میرا تعارف کرانے لگے،لوگ خوش ہوئے اسکے بعد میں نے کہا مفتی صاحب اجازت دیجئے میں چلتاہوں،کہنے لگے ابھی کیسے جائیں گے ابھی تو پہلے کھانا تناول کرناہے اسکے بعد سوچا جائے گا کہ کیا کرناہے؟مفتی صاحب کے اصرار پر انکے ساتھ اسی گھرمیں ظہرانہ بھی تناول کیاگیا جہاں چائے پی گئی تھی اور پھر ان سےاجازت لیکر ہرنتھ واپس ہوا تو عصر کی اذان ہورہی تھی۔
19 اکٹوبر ہفتے کے دن صبح مفتی اشفاق صاحب بھاگلپور سے دیوبند کےلئے وکرم شیلہ اکسپریس سے روانہ ہوئے،راستے میں ٹرین میں ہی انکی طبیعت بگڑی اور کیا کچھ ہوا انھیں کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں جوانھوں نے دوتین دن بعد اپنے بارے میں سوشل میڈیا پر لکھا کہ۔۔۔
“کل میں بھاگلپور سے دیوبند کے لیے روانہ ہوا راستے میں اچانک میرے سینے میں کافی درد ہوا اور بالکل بے چینی کی کیفیت ہو گئی کسی طرح میں مظفر نگر پہنچا اور وہیں اتر گیا،وہاں اپنے ایک دوست قاری غیور صاحب کے ساتھ ڈاکٹر جنید صاحب کے یہاں گیا،انھوں نے چیک اپ کرکے بتایا کہ ہارڈ کا مین نس 25 فیصد بند ہو گیا ہے اور اس کے بغل والا نس مکمل طور پر بند ہو گیا ہے، پھر میں علاج کے لیے ہاسپٹل میں وہیں ایڈمٹ ہوگیا،یہ ہاسپٹل مظفر نگر تاؤلی کے اندر ہے، الحمدللہ ڈاکٹر نے بڑی مہربانی اور بڑی دلچسپی کے ساتھ سینے کے اندر چلا (انجوکرافی) لگایا اور نس کا راستہ جاری کردیا، جس سے الحمدللہ خون جاری ہو گیا ہے، اس وقت ہاسپٹل ہی میں ایڈمٹ ہوں، شاید کچھ دن اور رہنا پڑے،آپ لوگوں سے درخواست ہے کہ اپنی اپنی جگہ رہتے ہوئے خصوصی صحت یابی کے لیے دعا فرمائیں،اللہ تعالی آپ کی دعا کو قبول فرمائے آمین بحرمت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔
اشفاق عالم قاسمی جامعہ الشیخ دیوبند”
مفتی صاحب اسکے بعد اورکئی دن ہاسپٹل میں رہے پھر وہاں سے ڈسچارج ہوکر دیوبند چلے گئے اور تقریبا ایک ماہ مدرسے میں رہے مدرسے میں بہت حد تک انکی مصروفیات بھی جاری رہیں،کمزوری زیادہ تھی اسلئے ڈاکٹر نے آرام کرنے کا مشورہ دیا تھا،لہذا ایک ماہ کی رخصت لیکر وہ گھر بھاگلپور چلےگئے، وہاں دوا علاج جاری تھا کہ ایک دن طبیعت بگڑگئی،جسکی وجہ سے انھیں بھاگلپور کے ایک ہاسپٹل میں ICU وارڈ میں ایڈمٹ کردیا گیا،لیکن انکی طبیعت سنبھلنے کے بجائے مزید بگڑتی چلی گئی اور ڈاکٹر نے آپریشن کےلئے انھیں کلکتہ ریفر کردیا،کسی طرح بذریعہ ٹرین وہ کلکتہ لے جائے گئے،وہاں ڈاکٹر نے انھیں دیکھنے اور معائنہ کرنے کے بعد انکا آپریشن کرنے سے انکار کردیا، اور کہاکہ ایسی حالت میں آپریشن کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ ہم کوئی رسک لے سکتے ہیں،آپ انھیں گھرلے کرچلے جائیں یہی بہتر ہے،ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق انھیں ایمبولینس کے ذریعے گھر لایا گیا،اس درمیان انکے لئے سوشل میڈیا پر دعاؤں اپیل بھی کی جاتی رہیں لیکن جب وقت موعود آجاتا ہے تو کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی،گھر پر کچھ گھنٹے گذارنے کے بعد وہ مسافران آخرت میں شامل ہوگئے۔
*پیدائش اور تعلیم وتعلم*
بھاگلپور شہر سے 20 کیلو میٹر دور “ہرنتھ” نامی ایک قدیم گا ؤں واقع ہے،یہ گاؤں جہاں مسلمانوں کی بڑی اکثریت ہے،مسلمانوں کے تین چارسو گھر یہاں ہونگے،کئی گاؤں آپس میں ملے ہوئے ہیں،ہرنتھ،عمادپور اور سمستی پور یہ تینوں بستیاں آپس میں ملی ہوئی ہیں،تینوں گاؤں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اوران تینوں بستیوں کی آبادی سات آٹھ سو گھر سے اوپر ہوگی،یہ علاقہ شاہ کنڈ بلاک کے تحت آتاہے،اسی گاؤں میں ستر کی دہائی میں یعنی 1971/72 میں مفتی اشفاق صاحب کی پیدائش ہوئی،انکے والد کا نام محمد اسرائیل ہے اور دادا کا نام نجابت علی مرحوم ہے،نجابت صاحب کے چار لڑکےمحمداسرائیل،محمدکوثر، محمدابراہیم اورمحمدشکیل ہے، اسرائیل صاحب مرحوم ایک کسان آدمی تھے اور کھیتی باڑی کرتے تھے،نماز،روزے کے پابند اور دیندار آدمی تھے،ان کی پانچ اولاد ہیں جن میں تین بیٹے محمد الیاس،محمداقبال،مفتی اشفاق اور دو بیٹیاں ہیں انھوں نے اپنے تیسرے اور چھوٹے فرزند مفتی اشفاق صاحب کو بڑی محنت سے پڑھایا،لکھایا،معیاری اور اچھی تربیت سے آراستہ کیا، اور ایک باصلاحیت عالم بنایا،مفتی صاحب بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر تھے،انھوں نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے ہی مکتب میں مولوی مشرف صاحب مرحوم اور مولانا عبدالطیف قاسمی صاحب مرحوم(1942تا 2024)سے حاصل کی،اسکے بعد انھیں گاؤں کے ہی مدرسے،مدرسہ حسینیہ ہرنتھ میں داخل کرا دیاگیا،جہاں انھوں نے حضرت مولانا عبدالرحمن قاسمی صاحب مرحوم (1918 تا 1995)حافظ شہاب الدین صاحب مرحوم،مولانا رئیس عالم قاسمی،(پیدائش 1952) مولانا اختر حسین قاسمی،حافظ محسن صاحب مرحوم اور ماسٹرخلیل مرحوم وغیرہ سے استفادہ کیا،1984/85 میں مدرسہ حسینیہ ہی میں حافظ محسن صاحب کے پاس حفظ کی تکمیل کی،فارسی وعربی کی تعلیم کےلئے مدرسہ مدنیہ چلمل، باراہاٹ، بانکا چلے گئے،وہاں انھوں نے عربی وفارسی کی ابتدائی کتابوں کے ساتھ کافیہ تک تعلیم حاصل کی،اسکے بعد اعلی تعلیم کےلئے ازہر ہند دارالعلوم دیوبند چلے گئے،دارالعلوم دیوبند میں پانچ سال رہ کر کسب فیض کیا اور تعلیم مکمل کی 1995 میں دورہ حدیث سے فارغ ہوئے،اگلے سال یعنی 1996ء میں افتاء کی تعلیم کےلئے مدرسہ شاہی مرادآباد میں داخلہ لیا،اور وہاں حضرت مفتی شبیراحمدقاسمی صاحب اور حضرت مفتی سلمان منصورپوری صاحب سے مشق و تمرین اور فتاوی نویسی میں مہارت حاصل کی۔
*درس وتدریس کا آغاز*
مدرسہ شاہی میں ایک سال افتاء کی تکمیل کرکے شعبان میں جب گھر لوٹے تو اسی سال شوال میں علاقے کے ایک ادارہ،جامعہ فرقانیہ سبیل السلام کرنپور،(قیام 1987) بھاگلپور میں آپ کی تقرری بحیثیت استاذ اورمفتی ہوگئی، ناظم تعلیمات بھی رہے، یہیں سےانھوں نے اپنے تدریسی سفرکا آغازکیا اور دس سال خدمت کی، فتاوی نویسی کے علاوہ پنجم عربی تک کی مختلف کتابیں پڑھائیں،کچھ وجوہات کی بناء پر 2006ء میں یہاں سے استعفی دے دیا،اگلے سال مظفرنگر یوپی تشریف لے گئے وہاں آٹھ نو سال جامعہ فلاح دارین بلاسپور میں استاذ کی جگہ مل گئی،یہاں حدیث و فقہ کی مختلف کتابوں کا درس دیا،2015 سے دیوبند کے ایک معروف ادارہ جامعہ الشیخ حسین احمد مدنی میں ایک معروف و مقبول استاذ کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے تھے،یہاں ابتداء سے دورہ حدیث اور شعبہ افتاء و تفسیر کی مختلف کتابیں آپ کے زیر درس رہیں،دورہ حدیث میں مؤطا امام محمد،ہفتم میں مشکوہ شریف اور ششم میں جلالین شریف جیسی اہم کتابیں آپ پڑھارہے تھے،دیوبند کے ماحول میں انکا علم اور صلاحیت پروان چڑھنے لگی۔
جاری۔۔۔۔۔۔