آہ! مفتی اشفاق عالم قاسمی،ایک سنجیدہ اور بافیض عالم دین
✒️سرفرازاحمدقاسمی حیدرآباد
برائے رابطہ: 8099695186
گذشتہ 6 دسمبر2024 بروز جمعہ صبح سویرے موبائیل کے اسکرین پر یہ خبر گشت کرنی لگی کہ حضرت مولانا اشفاق صاحب کا ابھی کچھ دیر قبل انتقال ہوگیا،یہ خبر جیسے ہی ہماری نگاہوں سے گذری زبان سے بے ساختہ انا للہ وانا الیہ راجعون جاری ہوگیا،خبر عام ہوتے ہی موبائیل کی گھنٹیاں بھی بجنے لگی اورکئی لوگوں کے فون آنا بھی شروع ہوگئے کہ یہ خبر سچی ہے یا جھوٹی؟ ہم نے تصدیق کردی کہ خبر مصدقہ ہے کیونکہ ایک دن قبل ہم نے ہی سوشل میڈیا پر رات تقریبا ایک بجے یہ خبر لکھی تھی کہ
” مفتی اشفاق صاحب کو آپریشن کےلئے کلکتہ لے جایا گیا تھا،لیکن وہاں انکا آپریشن نہیں ہوسکا اور ڈاکٹر نے جواب دے دیا ہے،اب انھیں ایمبولینس کے ذریعے انکے گھر بھاگلپور لایا جارہاہے،حالت بہت سیریس ہے،احباب انکی صحت یابی کےلئے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں، رب کریم خیروعافیت کا معاملہ فرمائے اور انھیں صحت کاملہ عاجلہ مستمرہ عطا فرمائے” مفتی صاحب کی حالت پہلے سے ہی تشویشناک بنی ہوئی تھی اسلئے انتقال کی خبر سنکر کوئی حیرت نہیں ہوئی، افسوس ضرور ہواکہ ایک سنجیدہ اور باصلاحیت عالم ہمارے درمیان سے بہت جلدی رخصت ہوگیا،قدرت کا فیصلہ اٹل ہے،دنیا میں آنے والا ہر انسان جب پیدا ہوتاہے تو وہ اس دار فانی میں کتنے دن قیام کرے گا،انکی عمر کیا ہوگی؟اور کب وفات ہوگی یہ ساری تفصیلات وہ اپنے ساتھ لیکر آتاہے،مفتی اشفاق صاحب اپنی مدت گذار کر راہی عدم ہوگئے اورمسافروں کے اس قافلے میں شریک ہوگئے جہاں جانے والا کوئی بھی شخص اس دنیا میں لوٹ کر کبھی واپس نہیں آتا،رب انکی مغفرت فرمائے اور درجات کوبلند فرمائے،مفتی صاحب تو چلے گئے لیکن وہ اپنی بے شمار یادیں اپنے پیچھے چھوڑگئے،مفتی صاحب سے میری آخری ملاقات 18 اکٹوبر 2024 کو گاؤں ہی میں ہوئی تھی،وہ ششماہی کی چھٹی میں دیوبند سے گھر آئے ہوئے تھے اور میں حیدرآباد سے گاؤں گیا ہوا تھا،مغرب کی نماز پڑھکر ہم لوگ مسجد سے باہر نکلے تو مفتی صاحب نے مجھ سے کہا کہ حضرت مولانا مطیع الرحمن قاسمی صاحب کی طبیعت ناساز ہے چلئے انکی عیادت کرلیتے ہیں،چنانچہ مفتی فصیح الرحمن قاسمی صاحب،مفتی اشفاق صاحب اور ناچیز حضرت کی عیادت کےلئے انکے گھر چل پڑے،مفتی فصیح صاحب نے راستے میں بتایاکہ آج ابا کا پروگرام خلیفہ باغ، بھاگلپور میں تھا،وہیں انکو جمعہ سے قبل خطاب کرنا تھا،جمعہ کے بعدبھاگلپور میں ہی طبیعت ناساز ہوگئ ابھی کچھ دیر پہلے گھر تشریف لائے ہیں،راستے ہی میں مشورہ ہواکہ حضرت کے گھر پر جانے سے پہلے ایک فون کرلیا جائے،چنانچہ میں نے فون لگایا علیک سلیک کے بعد ہم نے کہا کہ حضرت! سناہے آپ کی طبیعت ناساز ہے،اگر اجازت ہوتو ہم لوگ عیادت کےلئے حاضر ہوجائیں،فرمایا :آپ اکیلے ہیں یا اورکوئی ہیں؟ہم نے کہا کہ ساتھ میں مفتی اشفاق صاحب بھی ہیں،فرمایا آجائیے مختصر ملاقات ہوجائے گی،طبیعت میں نشاط نہیں ہے اسلئے میں زیادہ وقت نہیں دے سکوں گا،مفتی فصیح صاحب پہلے ہی گھر پہونچ چکے تھے،میں اور مفتی اشفاق صاحب حضرت کے گھرپہونچے، دروازے پر دستک دی تو مفتی فصیح صاحب ہی نمودار ہوئے، اندر آنے اور حضرت کے سامنے کرسی پر بیٹھنے کی اجازت دی،علیک سلیک کے بعد ہم لوگوں نے حضرت کی مزاج پرسی کی،ہماری گفتگو جاری تھی کہ حضرت نے مفتی فصیح صاحب کو آواز دیا اور چائے وغیرہ لانے کےلئے کہا اور یہ بھی فرمایا کہ ڈاکٹر کو فون کردو ڈاکٹر صاحب یہاں گھرپر آجائیں گے،مفتی فصیح صاحب نے ڈاکٹر کو فون کردیا،ہم لوگ محو گفتگو تھے کہ اسی درمیان ڈاکٹر صاحب حاضر ہوگئے اور ہمارے برابر میں کرسی پر بیٹھ گئے پھر اپنے آلات وغیرہ سے چیک اپ کیا اور کہاکہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے، کسی بچے کو کلینک پر بھیج دیں،دوا دے دوں گا،چائے وغیرہ پی کر ڈاکٹر صاحب تو چلے گئے لیکن ہماری گفتگو جاری رہی،مفتی اشفاق صاحب نے حضرت کو بتایا کہ کل صبح دیوبند کےلئے ہماری روانگی ہے،ہم سے حضرت مخاطب ہوئے کہ”آپ تو ابھی رہیں گے نا؟میں نے جواب دیا کہ اور دوچار دن رہوں گا ان شاء اللہ،مختلف موضوعات پر ہماری گفت و شنید ہوئی،عشاء کی اذان ہوچکی تھی،اسلئے اجازت لیکر وہاں سے رخصت ہوگئے،باہرنکلے تو سلام مصافحہ کے بعدمفتی اشفاق صاحب جواکھر کےلئے روانہ ہوگئے اور میں عشاء کی نماز کےلئے مسجد چلاگیا،یہی ان سے میری آخری ملاقات تھی،اس سے ایک دو دن قبل بھی کئی گھنٹے کی ایک تفصیلی ملاقات انکے گھر جواکھر میں ہوئی تھی وہ اسطرح کہ 14 اکٹوبر کو میں بذریعہ ٹرین حیدرآباد سے بھا گلپور کےلئے روانہ ہوا،16 اکٹوبر کو حضرت ماسٹر عباس صاحب دامت برکاتہم سے ملاقات کےلئے وقت لے لیا تھا،پروگرام کے مطابق 17 اکٹوبر جمعرات کی صبح حضرت ماسٹر عباس صاحب سے ملاقات کےلئے جواکھر انکے گھر پر حاضر ہوا تو حضرت نے طبیعت کی ناسازی کے باوجود ایک ڈیڑھ گھنٹے کا وقت عنایت فرمایا، فجزاہم اللہ خیرا الجزاء
وہاں سے فارغ ہوا تو حضرت مفتی اشفاق صاحب کو فون کیا کہ مفتی صاحب میں تو آپ کے جواکھر آیا ہوا ہوں،آپ کہاں ہیں؟ فرمایا میں تو گھر پر ہی ہوں آپ کا انتظار کررہا ہوں،پھر انھوں نے اپنے گھر کا راستہ بتایا،میں لوگوں سے پوچھتا ہوا انکے گھر پہونچ گیا،دراصل رات میں ہی میں نے مفتی اشفاق صاحب کو بتادیا تھا کہ صبح میری حاضری جواکھر ہوگی،مفتی صاحب خوش ہوگئے کہنے لگے اچھا ماشاء اللہ آئیے پھر تو ملاقات ہوگی،گھر سے کچھ پہلے گلی کی روڈ پر وہ میرا انتظار کررہے تھے،مجھے دیکھتے ہی ہاتھ سے اشارہ فرمایا اور کہاکہ آپ اپنی گاڑی مسجد کے سامنے پارک کیجئے،یہ مسجد پورب محلے کی نئی آبادی میں مفتی صاحب کے گھرسے چند قدم کے فاصلے پر واقع ہے،ابھی حال ہی میں یعنی آٹھ دس سال قبل تعمیر ہوئی ہے،گاڑی پارک کرنے کے بعد ایک بڑے آنگن والے دروازے میں مفتی صاحب کے ساتھ داخل ہوا،مفتی صاحب مجھ سے مخاطب ہوئے یہی میرا گھر ہے،تین چار کمروں پر مشتمل ایک بڑا برآمدہ، کشادہ صحن ایک کنارے میں باورچی خانہ اور باتھ روم وغیرہ موجود ہے،برآمدے میں ایک چوکی(بیڈ) پر تکیہ اور اس پر کچھ کتابیں،بغل میں اسی دن کا اخبار انقلاب رکھاہوا تھا،میرے سوال کرنے پر انھوں نے بتایا کہ یہ اخبار روزانہ یہاں گھر پر آتاہے،اور کتابوں کے بارے میں بتایاکہ شرح وقایہ کی دوسری جلد پر کام چل رہاہے اسی میں مصروف تھا کہ آپ کا فون آگیا،پھرجلدی جلدی فریج کھول کر ٹھنڈا پانی لےآئے،پانی پینے کے بعد میں نے استفسارکیا مفتی صاحب آپ کے بچے وغیرہ کہاں ہیں؟یہاں تو کوئی نہیں ہے فرمایا تھوڑی دور کے فاصلے پر میری سسرال ہے بچے وہیں رہتے ہیں،یہاں کوئی نہیں رہتا،میں جب چھٹیوں میں آتاہوں،یہیں لکھتا پڑھتاہوں پرسکون ماحول رہتاہے،لکھنے پڑھنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی،میں نے اخبار ہاتھ میں لیا اور الٹ پلٹ کرنے لگا تومیرے ہاتھ میں اخبار دیکھکر کہنے لگے بہت دنوں سے انقلاب میں آپ کی تحریر نہیں آرہی ہے،اسکے بعد کہنے لگے یہاں توکوئی نہیں ہے میں تنہا ہوں،اسلئے چائے وغیرہ پینے کےلئے سسرال جانا ہوگا جہاں بچے رہتے ہیں،میں نے کہا کہ ابھی چائے ناشتہ کرکے حضرت ماسٹر عباس صاحب کے پاس سے آیا ہوں،زحمت کی ضرورت نہیں ہے لیکن وہ مصر رہے کہ ایسا نہیں ہوگا اور پھر میرے سامنے ہی بچوں کو فون کیا کہ ایک مہمان آئے ہوئے ہیں چائے بناکر ریڈی رکھو،ابھی ہم لوگ آرہے ہیں،اسکے بعد کہنے لگے چلئے چائے وغیرہ پی کر آئیں گے تب بقیہ گفتگو ہوگی۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔