فتنۂ دَجّال اور اس سے حفاظت كی تدابیر
حضرت اقدس، بحر العلوم، نعمت اللہ اعظمی دامت برکاتھم العالیہ
الحمد لله رب العالمين، والعاقبة للمتقين، والصلاة والسّلام على سيد الأنبياء والمرسلين، وعلى آله وصحبه،أجمعين.
أما بعد: قیامت کے وقوع کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں ہے، قیامت کا معاملہ بڑا سنگین اور ہولناک ہوگا، خدائے ذوالجلال نے اپنے فضل و کرم سے قیامت کی کچھ علامات اور نشانیاں مقرر کی ہیں؛ تاکہ لوگ اللہ کی طرف رجوع کریں اور حساب و کتاب کی تیاری کر لیں ۔صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اُس وقت تک قائم نہ ہوگی، جب تک کہ تیس کے قریب جھوٹ بولنے والے دَجّال پیدا نہ ہوجائیں۔ اُن میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔‘۔ یہ مضمون حضرت ثوبان، حضرت علی، حضرت ابن عمر اور حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہم کی احادیث میں بھی مذکور ہے۔
دَجّال کے معنیٰ و مطلب
دَجّال کا لفظ عربی زبان میں جعل ساز، ملمّع ساز، فریبی، جھوٹے اور گم راہ کُن شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے، جب کہ دجل کے معنیٰ کسی نقلی چیز پر سونے کا پانی چڑھانے کے ہیں۔ دَجّال کا نام دَجّال اسی لیے رکھا گیا ہے کہ جھوٹ، فریب، دھوکا دہی، غلط بیانی اور دُنیا کی تمام تر خباثتیں اس کی مکروہ شخصیت کے نمایاں ترین وصف ہیں۔ اس کا ہر فعل، ہر عمل، ہر قول فتنہ وفساد کا سبب ہوگا۔ حضرت ابوقتادہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت ہشام بن عامرؓ سے سُنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حضرت آدمؑ سے لے کر قیامت تک کوئی مخلوق (فتنہ فساد میں) دَجّال سے بُری نہ ہوگی۔‘‘ (صحیح مسلم، 7395، 7396)۔
دَجّال کا حُلیہ
مختلف احادیثِ مبارکہؐ میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے دَجّال کا جو حُلیہ بیان فرمایا، وہ اس طرح سے ہے۔ ’’پستہ قد، بھاری بھرکم جسم اور مکروہ چہرے پر اُلجھے ہوئے بے ترتیب گھنگھریالے بالوں والا ایک شخص، جس کی دائیں آنکھ کانی اور بے نور ہوگی، اور بائیں آنکھ کی پتلی ابھری ہوئی باہر کو نکلی ہوئی ہوگی، جیسے انگور کا اُبھرا ہوا دانہ، دونوں آنکھیں ہی عیب دار ہونگی، اسی لئے احادیث میں ‘اعور الیمنی’ اور ‘اعور الیسری ‘دونوں طرح کے الفاظ ہیں، دجال كا رنگ سُرخ اور دونوں آنکھوں کے درمیان یعنی پيشاني پر ک ف ر (کافر) لکھا ہوگا، جس كو ہر مومن پڑھ لے گا، خواہ وہ لکھنا پڑھنا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو‘‘ ۔
دجال کا ظہور
متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک شام میں لڑائی ہوگی پھر صلح ہو جائے گی مگر یہ صلح زیادہ دن تک باقی نہ رہے گی ، اس کے بعد یورپ سے نو لاکھ ساٹھ ہزار فوجی لڑنے کے لئے آئیں گے اور مقام غوطہ میں مسلم فوجوں کے ساتھ لڑائیاں ہوں گی اسی دوران دجال کا خروج اصفہان سے ہوگا۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’دَجّال اصفہان کی یہودی بستی سے ظاہر ہوگا، اس کے ساتھ ستّر ہزار یہودی ہوں گے۔ انھوں نے سبز رنگ کی شالیں کندھوں پر ڈال رکھی ہوں گی۔‘‘ دجال مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ بھی جانے کی کوشش کرے گا لیکن اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعہ اس کو ان دونوں مقدس شہروں میں جانے سے روک دے گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو دجال کی خبر سن لے وہ اس سے دور رہے۔ اللہ کی قسم! آدمی اپنے آپ کو مومن سمجھ کر اس کے پاس آئے گا اور پھر اس کے پیدا کردہ شبہات میں اس کی پیروی کرنے لگے گا۔ (سنن ابی داؤد: 4319)
دجال کے قیام کی مدت
صحيح مسلم میں حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمین میں اُس کے رہنے کی مدّت چالیس دن ہوگی ، ان میں سے ایک دن ایک سال کی طرح ہوگا، ایک دن ایک مہینے کی طرح ہوگا اور ایک دن ایک ہفتے کی طرح۔ اس کے علاوہ باقی سارے دن تمہارے دنوں کی طرح ہوں گے۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! وہ دن جو ایک سال کی طرح ہوگا، کیا اس میں ہمارے لیے ایک دن کی نماز کافی ہوگی؟‘‘ فرمایا ’’نہیں، بلکہ وقت کا اندازہ کرکے پورے سال کی نمازیں ادا کرنا ہوں گی۔‘‘ اس کی تفصیل مستقل الگ سے لکھی جائے گی۔
پھر صحابہ کرام نے عرض کیا :’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ زمین میں کس قدر سرعت کے ساتھ سفر کرے گا؟‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’اُس بادل کی طرح، جس کے پیچھے ہوا لگی ہو۔ وہ ایک قوم کے پاس جائے گا۔ انھیں دعوت دے گا۔ وہ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کی باتیں مانیں گے، تو وہ آسمان (کے بادل) کو حکم دے گا، تو وہ پانی برسانے لگے گا۔ پھر وہ زمین کو حکم دے گا، تو وہ فصلیں اُگائے گی۔ شام کے اوقات میں اُن کے جانور (چراگاہوں سے) واپس آئیں گے، تو ان کے کوہان سب سے زیادہ اُونچے اور تھن دُودھ سے بہت بھرے ہوئے ہوں گے۔ پھر دَجّال ایک اور قوم کے پاس جائے گا اور انھیں بھی دعوت دے گا، لیکن وہ اس کی بات کو ٹھکرادیں گےتو وہ قحط کا شکار ہوجائیں گے۔ اُن کے مال مویشی میں سے کوئی چیز ان کے ہاتھ میں نہیں ہوگی۔ وہ ویران زمین کے پاس سے گزرے گا، تو اس سے کہے گا کہ اپنے خزانے باہر نکال دے۔ چناں چہ زمین سے وہ خزانے نکل کر اس کے پیچھے اس طرح لگ جائیں گے، جس طرح شہد کی مکّھیاں اپنی سردار کے پیچھے ہولیتی ہیں۔ دجال زمین میں ہر ایک شہر اوربستی میں جاۓ گا لیکن وہ مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہو سكےگا، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مکہ مكرمه اور مدینہ طيبه کے علاوہ کوئی ایسا علاقہ نہیں ہوگا جسے دجال نہ روند سکے ، مکہ اور مدینہ کے ہر راستے پر فرشتے ننگی تلواریں سونتے ہوئے پہرا دیں گے ، پھر مدینہ اپنے مکینوں کے ساتھ تین مرتبہ ہلے گا تو اللہ تعالی ہر کافر اور منافق کو مدینہ سے نکال دے گا ) (صحیح بخاری/ 1881 )
مدینہ منورہ کی طرف جانے سے پہلے یہ واقعہ بھی پیش آئے گا کہ دجال ایک جوان کو بُلائے گا اور تلوار سے اس کے دو ٹکڑے کر دے گا اور دونوں ٹکڑے اس قدر فاصلے پر کردیئے جائیں گے، جس قدر تیر مارنے والے اور نشانے کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے۔ پھر وہ اسے بُلائے گا، تو وہ (زندہ ہوکر) دمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا آئے گا۔ اور کہے گا کہ اب تو مجھے اور پختہ یقین ہو گیا کہ تو ہی دجال ہے دجال پھر اس کو دوبارہ قتل کرنا چاہے گا مگر اب اسے اس پر قدرت نہ ہوگی۔
مصنوعی جنّت اور دوزخ
شیطان کی طرح اللہ تعالیٰ نے دَجّال کو بھی قوانینِ قدرت میں سے چند چیزوں سے نوازا۔ وہ جب نمودار ہوگا، تو اس کے ساتھ مصنوعی جنّت و دوزخ ہوگی۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’ دَجّال اپنے ساتھ جنّت اور دوزخ کی شبیہ بھی لائے گا۔ درحقیقت جسے وہ جنّت کہے گا، وہ آگ ہوگی اور جسے وہ جہنّم کہے گا، وہ دراصل جنّت ہوگی۔ ‘‘ (صحیح بخاری، 3338)۔
حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سُنا کہ ’’جب دَجّال نکلے گا، تو اُس کے ساتھ آگ اور پانی دونوں ہوں گے، لیکن لوگوں کو جو آگ دکھائی دے گی، وہ ٹھنڈا پانی ہوگا اور جو ٹھنڈا پانی دکھائی دے گا، وہ جلانے والی آگ ہوگی، تو تم میں سے جو کوئی اُس کے زمانے میں ہو، تو اُسے اُس میں گرنا چاہیے، جہاں آگ ہو، کیوں کہ وہ انتہائی شیریں اور ٹھنڈا پانی ہوگا۔‘‘ (صحیح بخاری، 3450)۔
دجال کے جھوٹے ہونے کی علامات
(1) وہ لوگوں کی آنکھوں سے نظر آ رہا ہوگا(حالاں کہ تم اپنے رب کو مرنے سے پہلے نہیں دیکھ سکتے)۔ (2) وہ کانا ہوگا حالانکہ تمھارا رب کانا نہیں ہو سکتا ہے۔ (3) اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان “کافر” لکھا ہوگا جس کو ہر مومن پڑھ لے گا، خواہ وہ لکھنا پڑھنا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔
دَجّال کا سحر
حضرت اسماءؓ بنتِ یزید سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپؐ کے گھر میں موجود تھے کہ آپؐ نے فرمایا، ’’ظہورِ دَجّال سے تین سال قبل آسمان ایک تہائی پانی اور زمین ایک تہائی فصل روک لیگی۔ جب دُوسرا سال آئے گا، تو آسمان دو تہائی پانی اور زمین دو تہائی فصلیں روک لے گی۔ پھر جب تیسرا سال شروع ہوگا، تو آسمان مکمل طور پر اپنا پانی اور زمین مکمل طور پر اپنی فصلیں روک لے گی۔ ٹاپوں والے اونٹ اور کُھروں والی گائیں، بیل، بھیڑیں، بکریاں، گھوڑے اور گدھے سب ہلاک ہوجائیں گے۔ اتنے میں ادھر دَجّال پہنچ کر ایک دیہاتی شخص سے کہے گا، ’’اگر مَیں تمہاری اونٹنیوں کو فربہ اور دُودھ سے بھرے تھنوں کی صُورت پیدا کرکے دکھائوں، تو کیا تم مان لو گے کہ میں تمہارا رَبّ ہوں؟‘‘ وہ کہے گا، ’’ہاں بالکل۔‘‘ اس کے بعد شیطان اُس شخص کے اونٹوں کی شکل اختیار کرے گا، تو وہ شخص اس کے پیچھے لگ جائے گا۔ اسی طرح وہ دَجّال ایک اور شخص سے کہے گا کہ ’’اگر میں تمہارے باپ، بیٹے اور تم اپنے خاندان کے جن لوگوں کو پہچانتے ہو، سب کو زندہ کردوں، تو کیا تم یقین کرلو گے کہ میں تمہارا رَبّ ہوں؟‘‘ وہ کہے گا، ’’ہاں بالکل۔‘‘ پھر دَجّال شیطانوں کو ان لوگوں کی شکل میں پیش کردے گا۔ اس طرح وہ بھی اس کے پیچھے چلا جائے گا۔‘‘ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے اور گھر میں موجود سب لوگ رونے لگے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے، تو ہم سب رو رہے تھے۔ آپؐ نے پوچھا، ’’تم لوگ کیوں رو رہے ہو؟‘‘ مَیں (اسماء) نے کہا۔ ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپؐ نے دَجّال کے متعلق جو کچھ بیان فرمایا، اسے سُن کر رونا آگیا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ، ’’اس وقت اہلِ ایمان کو کھانے پینے كي جگه تکبیر، تسبیح اور تحمید كرنا كافي ہوگا ۔‘‘ پھر آپؐ نے فرمایا، ’’تم لوگ مت روئو، کیوں کہ اگر میری موجودگی میں دَجّال کا ظہور ہوگیا، تو مَیں اس کا مقابلہ کرلوں گا اور اگر میرے بعد ہوا، تو ہر مسلمان کا خلیفہ اللہ تعالیٰ خود ہوگا۔‘‘ (مسندِ احمد، 27568)۔
دجال کا خاتمہ
موجودہ زمانہ کا استنبول (قسطنطنیہ) مسلمانوں کے ہاتھ سے چلاجائے گا اور پھرغوطہ کی لڑائی سے فارغ هونے كے بعد اہل مدینہ اور دیگر مسلمانوں کے ہاتھوں وه (قسطنطنیہ) فتح ہوگا، اورجس وقت مسلمان مال غنیمت کو تقسیم کررہے ہوں گے تو اچانک شیطان چیخ مار کر کہے گا: تمہارے بعد تمہارے گھروں میں مسیح دجال پہنچ گیا ہے ، مسلمان وہاں سے نکل پڑیں گے ، حالانکہ یہ خبر غلط ہوگی ، جب یہ ملک شام پہنچیں گے تو پھر مسلمانوں اور دجالی لشکروں کے درمیان جنگ ہوگی جس میں وہ ایک تہائی مسلمانوں کو شہید کر دے گا۔ ایک تہائی کو شکست دے کر بھگا دے گا اور ایک تہائی کو باقی چھوڑے گا۔ رات ہوجائے گی توبعض مومنین بعض سے کہیں گے کہ تمھیں اپنے رب کی خوشنودی کے لیے اپنے (شہید) بھائیوں سے جا ملنے (شہید ہوجانے) میں اب کس چیز کا انتظار ہے؟ جس کے پاس کھانے کی کوئی چیز زائد ہووہ اپنے (مسلمان) بھائی کو دے دے۔ تم فجر ہوتے ہی (عام معمول کی بہ نسبت) جلدی نماز پڑھ لینا، پھر دشمن سے جنگ پر روانہ ہوجانا۔پس جب یہ لوگ نماز کے لیے اٹھیں گے تو عیسیٰ علیہ السلام ان کے سامنے نازل ہوں گے اور نماز ان کے ساتھ پڑھیں گے۔ نماز سے فارغ ہوکر وہ(ہاتھ سے ) اشارہ کرتے ہوئے فرمائیں گے :میرے اور دشمنِ خدا (دجال) کے درمیان سے ہٹ جاؤ (تاکہ مجھے دیکھ لے)، حضرت عبد اللہ بن عمرو نے یہ فرمایا کہ:(ایسا گھل جائے گا) جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دجال کے خاتمے کو واضح طور پر بیان کیا کہ: عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے۔ اور فرمائیں گے: میں عیسیٰ ابن مریم اللہ کا بندہ اور رسول ہوں، تم لوگ تین صورتوں میں سے ایک کو اختیار کرلو: (1) اللہ دجال اور اس کی فوجوں پر بڑا عذاب آسمان سے نازل کر دے۔ (2) ان کو زمین میں دھنسا دے۔ (3) ان کے اوپر تمھارے اسلحہ کو مسلط کر دے اور ان کے ہتھیاروں کو تم سے روک دے۔مسلمان کہیں گے: ائے اللہ کے رسول! یہ (آخری) صورت ہمارے لیے اور ہمارے قلوب کے لیے زیادہ طمانینیت کا باعث ہے۔چنانچہ اس روز تم بہت کھانے پینے والے (اور) ڈیل ڈول والے یہودی کو (بھی) دیکھو گے کہ ہیبت کی وجہ سے اس کا ہاتھ تلوار نہ اٹھا سکے گا۔ پس مسلمان ان کے اوپر مسلط ہوجائیں گے اور دجال جب حضرت عیسیٰ عليه السلام کو دیکھے گا تو سیسہ کی طرح پگھلنے لگے گا حتیٰ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسے باب لُد پرقتل کر دیں گے۔(مصنف عبد الرزاق/ 20834)
اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے دجال اور اس کے لشکر پر مسلمانوں کو مسلط کر دے گا۔ چنانچہ وہ ان سب کو قتل کر دیں گے۔ حتیٰ کہ شجرو حجر بھی پکاریں گے کہ اے اللہ کے بندے! اے رحمٰن کے بندے! اے مسلمان! یہ یہودی ہے۔ اسے قتل کر دے۔ غرض اللہ تعالیٰ ان سب کو فنا کر دے گا اور مسلمان فتح یاب ہوں گے۔
فتنۂ دَجّال سے بچنے كي احتیاطی تدابیر
فتنہ مسیح الدَجّال سے حفاظت کے سلسلے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو چند چیزیں ایسی بتائی ہیں جن کے اختیار کرنے سے دجال کے فتنے سے بچا جا سکتا ہے:
1۔ دجال کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنا:
دجال کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے ان دعاؤں کے پڑھنے کا اہتمام کرنا جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے؛ اور اپنی امت کو ان دعاؤں کے پڑھنے کا حکم فرمایا کرتے تھے؛ حضرت ابو هريره اور کئی ایک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے روایت ہے یہ دعا مانگا کرتے تھے:« اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ المَسِيحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ المَحْيَا، وَفِتْنَةِ المَمَاتِ».
صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’جب تم تشہد سے فارغ ہو جائو، تو چار چیزوں سے پناہ مانگو، جہنّم کے عذاب سے، قبر کے عذاب سے، زندگی اور موت کی آزمائش سے اور مسیح دَجّال کے شر سے۔‘‘ (صحیح مسلم، 1326)۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دُعا فرمایا کرتے تھے: ’’اے اللہ !میں قبر کے عذاب سے، دوزخ کے عذاب سے، زندگی اور موت کے عذاب سے اور کانے دَجّال کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری، 832، 833، 1377)۔حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی نمازوں میں دَجّال کے فتنے سے پناہ مانگتے ہوئے سُنا۔‘‘ (صحیح مسلم،1323، صحیح بخاری، 833، 7129)۔
2۔ سورہ کہف کی ابتدائی دس آیتوں کو یاد کرنا اور پڑھنے کا معمول بنا لینا:
دجال کے فتنوں سے جو محفوظ رہنا چاہتا ہو اس کو چاہیے کہ سورۃ الکہف کی ابتدائی یا آخری دس آیات کی تلاوت کرے۔ اس کی تلاوت دجال کے فتنے میں مبتلا ہونے سے بچا لیتی ہے۔حضرت ابودرداءؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس مسلمان نے سورۂ کہف کی پہلی دس آیات حفظ کرلیں۔ وہ دَجّال کے فتنے سے محفوظ کر لیا گیا۔‘‘ (صحیح مسلم،1883)۔
3۔ دجال سے دور رهنا:
دجال سے جتنا دور رہنا ممکن ہو دور رہا جائے۔حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص دجال کے بارے میں سنے اس کو اس سے دور رہنا چاہئے ، اللہ کی قسم مؤمن یہ خیال کرکے اس کے پاس آئے گا کہ وہ تو مؤمن ہے (دجال کے فتنہ سے بچ جائے گا) لیکن دجال کے ساتھ کی چیزوں کو دیکھ کر اسی کی اتباع کر بیٹھے گا (سنن ابو داؤد/4319)
4- دجال كي جنت سے بچنا:
دجال کے ساتھ جو جنت کی شکل ہوگی اس سے بچے اور جو آگ کی شکل ہوگی اسی میں جانے کو اختیار کرے۔ کیونکہ جو آگ ہے وہی درحقیقت جنت ہے۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دجال کے ساتھ دوچلتے ہوئے دریا ہوں گے۔ دونوں میں سے ایک بظاہر سفید رنگ کاپانی ہوگا اور دوسرا بظاہربھڑکتی ہوئی آگ ہوگی۔اگر کوئی شخص اس کو پالے تو اس دریا کی طرف آئے جسے وہ آگ (کی طرح) دیکھ رہا ہے اور اپنی آنکھ بند کرے۔پھر اپنا سر جھکا ئے اور اس میں سے پیے تو وہ ٹھنڈا پانی ہو گا۔
اللہ تعالٰی تمام ایمان والوں کی فتنہ دجال سے حفاظت فرمائے آمین يا رب العالمين۔
(حضرت مولانا) نعمت الله اعظمي
دار العلوم ديوبند
13جمادى الاول 1446