*ملک شام کی صبحِ نو*
*خدشات وتوقعات*
محمد ساجد کُھجناوری
مدرس حدیث جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ
یہ اپریل ۲۰۱۸ ء کی بات ہے جب ماہ نامہ صدائے حق گنگوہ کے ادارتی صفحات پر ہی ملک شام میں پے درپے ہونے والے مظالم اور سنیوں کے قتل عام کی داستان الم قید تحریر میں لائی گئی تھی اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ شیعوں کے بدترین نصیری فرقہ سے تعلق رکھنے والا شامی صدر بشار الاسد اپنے باپ حافظ الاسد سے دو ہاتھ آگے ہے جس نے اپنے ہی ملک کے مظلوم مگر جائز مطالبہ کرنے والے لاکھوں حریت پسندوں جن کی اکثریت اہل السنہ والجماعة کے ہم عقیدہ مسلمانوں پر مشتمل ہے، انہیں یا تو موت کی نیند سلا دیا ہے یا پھر وہ فرعونی حکومت کے قید خانوں میں گل سڑ رہے ہیں، سنسر شپ اور صیغہ راز داری کے باوجود اُس وقت بھی آزاد ذرائع سے جو خبریں تو اتر سے مل رہی تھیں انہیں سن کر کلیجہ منہ کو آتا تھا کہ کسی طرح ظالم و جابر بشار نے اپنے اقتدار و حکومت کو محفوظ رکھنے کی خاطر عوامی خواہشات کو نہ صرف پاؤں تلے روندا ہوا ہے بلکہ جمہوری طرز پر صدائے احتجاج لگانے والے انقلابیوں کو بھی تختہ دار پر چڑھانے میں وہ ہر قسم کی رورعایت کو گناہ عظیم تصور کرتا ہے ، ظلم و ستم کی ریکارڈ توڑ داستانیں سننے پڑھنے اور لکھنے والے دردمند افراد بھی شکایتی لب ولہجہ میں یہی سوچتے اور کہتے کہ یا الہ ملک شام کی صبح درخشاں آخر کب ہوگی؟ ملک شام میں عدل و انصاف اور حریت فکر و مذہب کی باد بہاری کب چلے گی ؟ ، اپنی ہی سرزمین پر اسی فیصد تناسب رکھنے والے سنی مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق آخر کب ملیں گے، ملک وملت کی تعمیر نو میں ان کی شراکت کا خواب کب شرمندہ تعبیر ہوگا؟ کہتے ہیں کہ جب ظلم حد سے گذرتا ہے تو اس کی شام بہت جلد دستک دیدیتی ہے۔
8/ دسمبر 2024ء کی صبح آفتابِ دنیا افق عالم پر اس طرح روشن ہوا کہ ملک شام کے سارے اندھیرے کا فور ہوتے چلے گئے ، یعنی اس مبارک سرزمین سے وہ 54 / سالہ آمرانہ قاہرانہ اور ظالمانہ اسدی نظام حکومت تاش کے پتوں کی طرح بکھر گیا جس کا سقوط بظاہر دیوانہ کا خواب ہی لگتا تھا ، اسدی تخت اقتدار کو اکھاڑنے کی واجب تدبیریں گذرے پچاس سالوں میں کئی مرتبہ ہوئیں، اس حوالہ سے اخوان المسلمون پر بھی الزام آیا جس کی پاداش میں انہیں شاہی عتاب جھیلنا پڑا۔ لیکن مشیت خداوندی کے سامنے سارے منصوبے دھرے رہ جاتے ہیں، اسلام کے جیالوں نے ہمت نہیں ہاری ، وہ جانی مالی قربانیوں کا نذرانہ پیش کر کے شمع آزادی کی لو تیز کرتے رہے، ان کی راہوں میں پھول بھی تھے اور کانٹے بھی ، اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ شہادت و عزیمت کا انہیں اور ادراک تھا، وہ صبر و استقامت کے آنگن میں کِھلنے والے پھل اور پھولوں سے بخوبی واقف تھے بلکہ انہیں خیر القرون کے عظیم سپہ سالاروں کی طرح جگر آزمائی کا نقشہ یاد تھا۔ حضرت خالد ابن الولید ، صلاح الدین ایوبی اور طارق ابن زیاد کی جانشینی کا سودا ان کے دل میں سمایا ہوا تھا، بنام خداوہ آگے بڑھے بڑھتے گئے ظلم ونا انصافی کے خلاف انہوں نے مورچہ سنبھالا جس کا مثبت نتیجہ آج سب کے سامنے ہے، کسی نے سچ کہا ہے تحریکیں ان کے بانیاں کے اخلاص پر زندہ رہتی ہیں۔
ملک شام میں جو انتقالِ اقتدار ہوا ہے وہ محض ایک ہفتہ کی ڈرامائی شورش کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس میں لکھوکھا مظلوم شامی مسلمانوں کا خون اور تحرک شامل ہے، بظاہر اس تازہ انقلاب کی رفتار اس وقت تیز ہوئی جب ردع العدوان یعنی ظلم و جبر پر بندش کی تحریک کرنے والے بچوں نے درعا شہر میں دیواروں پر یسقط بشار یعنی بشار کی حکومت کا سقوط ہوا چاہتا ہے ، لکھنا شروع کیا جس کی خبر ملتے ہیں بشاری فوج نے ان معصوم بچوں کو زیر حراست لے کر الٹا لٹکا دیا ، ان کے ناخن تک اکھاڑ لئے اور جواباً لکھا یسقط ربك ولا يسقط بشار کہ بشار کا نہیں تمہارے پروردگار کا سقوط ہونے والا ہے، جب بچوں کے والدین اپنے جگر گوشوں کو چھڑانے گئے تو بشاری ملٹری نے انہیں ذلیل کرتے ہوئے اور اپنی خباثت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ تمہارے یہ بچے بگڑی ہوئی نسل ہے، لہذا اپنی بیویاں ہمارے حوالہ کرو تا کہ ان سے اچھی نسلیں دریافت کر سکیں ۔
بشاری فوج نے اسی پر اکتفا نہیں کیا انہوں نے لا الہ الابشار جیسے فرعونی کلمات کا بھی نعرہ لگایا جس سے لوگوں میں اشتعال پیدا ہو گیا ، اور اہل ایمان کی رگ حمیت پھڑک اٹھی، چنانچہ حکومت مخالفت منظم فورس نے اس موقعہ سے بروقت پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے مذکورہ ظلم وزیادتی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا 27/ نومبر 2024 ء کو حکومت مخالف یہ تحریک منظم شکل میں آگے بڑھنے لگی اور دو تین دن کے بعد معروف شہر حلب تک اس کا کنٹرول ہو گیا ، آزادی کا صور اسرافیل پھو نکنے والے یہ شاہین ملک شام کی صبح نو کیلئے دیوانہ وار آگے بڑھتے رہے، جس کی تفصیلات وقفہ وقفہ سے الجزیرہ اور دوسرے انٹر نیشنل خبر رساں ادارے دنیا بھر میں پہنچاتے رہے، مصدقہ خبروں کے مطابق محض گیارہ دن کے اندر اسلام پسندوں نے حمص حماۃ اور دارالحکومت دمشق سمیت تقریباً تمام مرکزی شہروں کو بغیر کسی خون خرابے کے اپنی تحویل میں لے لیا، جبکہ ملعون بشار قو می خزانہ سمیٹ کر ملک سے بھاگ کھڑا ہوا اور روس جا کراس نے سیاسی پناہ حاصل کر لی ہے، جبکہ اس کی فیملی سقوط دمشق سے دو تین روز پہلے ہی وہاں منتقل ہو گئی تھی ۔
شام میں تختہ پلٹ ہونے کے ساتھ حریت پسندوں نے حسب عادت وہاں کے قید خانوں اور زندانوں میں طرح
طرح کے مظالم جھیلنے والے مرد، خواتین ، بچوں اوربوڑھوں کو موت کا نوالہ بننے سے یوں تو بچا لیا ہے لیکن ان میں تعذیب کا شکار رہے کتنے ہی ایسے افراد ہیں جو اپنی یادداشت، قیمتی جوانی اور صحت و تندرستی جیسی خدائی نعمتوں سے سدا کیلئے محروم کر دئے گئے ہیں، بشاری فوج کی درندگی اور سفاکانہ مظالم نے گوانتانا موبے جیل کے اس وحشیانہ سلوک و کردار کو بھی بھلا دیا ہے جو افغانستان وغیرہ سے پکڑ کر لائے گئے بے گناہ شہریوں کے ساتھ امریکا و برطانیہ کے افسران وہاں کرتے تھے ، دمشق سے تقریباً تیس کلومیٹر دور صید یا نا جیل جسے انسانی مذبح خانہ سے تعبیر کیا جا رہا ہے اس مکروہ عقوبت خانہ نے تو ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے جس سے اہل تشیع خصوصاً ایران کاحقیقی چہرہ بھی بے نقاب ہو جاتا ہے، پتہ نہیں کیوں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے ادارے اور تنظیمیں اس حوالہ سے دوہرا معیار رکھتے ہیں، انہیں پردہ نشیں اور حیاپسندخواتین کو آزادی اور مساوات کے نام پر شمع محفل بنانے بلکہ سڑک پر لانے کی فکر تو دامن گیر رہتی ہے لیکن حقیقی مظلوموں کا سہارا بنے اور ظالم قوتوں کا احتساب کرنے کی وکالت شاید ان کے بس کا روگ نہیں ہے، انسانی حقوق اور عدل و انصاف کا پر فریب نعرہ دینے والےلامذہب افراد بھی دراصل ان عالمی ٹھیکیداروں کے زیر اثر کام کرتے ہیں جنہیں انسانیت نہیں اپنے مفادات سے دلچسپی رہتی ہے ، آج فلسطین کے غزہ میں کیا وہ سب کچھ نہیں ہو رہا ہے جس کی مہذب دنیا میں بالکل جگہ نہیں ہے، لیکن ساری دنیا پر چودھراہٹ کا خواب دیکھنے والے اور انسانی حقوق کے نام پر بعض حکومتوں کو زیر عتاب لانے والے طاقتورممالک بھی اسرائیل جیسے درندہ کو لگام دینے کیلئے بالکل تیار نہیں ہیں جس کی توسیع پسندانہ انسانیت سوزحرکتوں نے پورے مشرق وسطی کو جہنم بنا کر رکھدیا ہے اور فلسطین کو غصب کرنے کے بعد اس کا جارحانہ رخ اب ملک شام کی طرف ہے جس کے بحری بیڑوں اور عسکری اہمیت کے حامل اہم ٹھکانوں کو ٹارگیٹ کرنے پر تلا ہوا ہے، اس کے کامیاب اہداف پر مبصرین کہتے ہیں کہ شام کے سابق حکمراں اسدی ٹولہ نے کبھی بھی اسرائیل کیلئے دردسری نہیں کی بلکہ وہ خفیہ ڈیل کے تحت اسرائیل کی سرحدوں کا محافظ بنارہا، گولان کی پہاڑیاں تو طشت میں سجا کر پہلے ہی اس کے حوالہ کر چکا ہے ، اب سقوط دمشق ہوا تو بشار رجیم جاتے جاتے ملک شام کے عسکری اڈوں اور دفاعی تنصیبات کی راز دارانہ معلومات بھی اپنے جگری دوست اسرائیل کے حوالہ کر گیا ہے، جسے کام میں لاکر اسرائیل شام کی سرحدوں میں مداخلت کر کے اس کی سلامتی کو چیلنج کر رہا ہے جو اقوام متحدہ کے ذریعہ طے کردہ عالمی قوانین کی بھی صریح خلاف ورزی ہے ، یہی وجہ ہے کہ شام کی نئی عبوری حکومت کے سر براہ اور اس کے مستقل مندوب نے اسرائیل کو آگے بڑھنے پر خبردار کیا ہے۔
ملک شام میں یوں تو کئی متحارب گروپ سرگرم عمل رہے ہیں جن کی وفاداریاں کم وبیش باہری حکومتوں کے ساتھ وابستہ ہیں، امریکا، اسرائیل ، رشیا ، ایران اور ترکی ان متحارب گروپوں کی پشت پناہی کرتے رہے ہیں جن کے اپنے اپنے سیاسی اہداف ہیں لیکن شام کے حالیہ انقلاب کے سب سے بڑے ہیرو اور جری قائد ابو محمد الجولانی ہیں جن کا اصل نام احمد حسین الشرع ہے ان کی پیدائش ۱۹۸۲ء میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ہوئی ، جہاں ان کے والد پیٹرولیم کے انجینئر تھے ، احمد حسین الشرع کا خاندان ۱۹۸۹ء میں دمشق کے مضافات میں واپسی کر کے آباد ہو گیا ، ابو محمد الجولانی ۲۰۰۳ء میں عراق چلے گئے جہاں انہوں نے امیر کا مخالف جہادی گروپوں میں شمولیت اختیار کر لی ۔ ۲۰۰۶ء میں دورانِ مزاحمت انہیں امریکی فوج نے گرفتار کر لیا جس کے نتیجہ میں پانچ سال انہیں قید تنہائی میں گزارنے پڑے اور رہائی نصیب ہوئی تو متعدد اسلامی تحریکات میں ان کی شمولیت رہی بالآخر ۲۰۱۶ء میں ابو محمد الجولانی نے اپنی تمام تر محنتوں کا مرکز اپنے وطن شام کو بنالیا جہاں بشاری مظالم سے ملک کو پاک کرنے اور عوام کی امنگوں کے مطابق مستحکم عادلانہ نظام حکومت کی تشکیل ان کی دیرینہ خواہش تھی ، ان کی قائم کردہ جماعت “هيئة التحرير الشام” کے بنیادی مقاصد میں وہ مرکزی نقاط شامل ہیں جو کسی بھی ملک یا نمائندہ حکومت کے روشن کردار کی ضمانت بنتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ بہت جلد احمد حسین الشرع نے مظلوم عوامی حلقوں میں اپنی ستھری شناخت قائم کر لی اور جب انقلاب زندہ باد کی تحریک آگے بڑھی تو شام کی اکثریت ان کے شانہ بشانہ تھی ۔
بہر کیف شام کے غیور اور دین پسند محبان وطن قابل مبارک باد ہیں کہ انہوں نے غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر آمریت ولادینیت کا بستر گول کر دیا ہے، ویسے بھی شامیوں کے ایمان و عقیدہ کی پختگی دنیا بھر کے توحید پرستوں کے لئے کسی بشارت سے کم نہیں ہے، شارع علیہ السلام نے فرمایا تھا اذا فسد اهل الشام فلا خیر فیکم کہ جب اہل شام اپنے درست ایمان و عقیدہ میں کمزور ہو جائیں تو پھر تمہارے درمیان خیر و عافیت کا رشتہ منقطع ہو جائے گا۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اہل شام کا دریں زمانہ مشکلات کے بھنور سے نکلنا آسان نہیں ہے، عالمی سازشیں اوراستعماری قوتیں اس خطہ میں عدم استحکام پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گی وہاں آپسی خانہ جنگی بھی خارج از امکان نہیں ہے لیکن ہم اللہ کی ذات سے یہی توقعات رکھتے ہیں کہ وہ متبرک سرزمین شام میں ہونے والی نئی صبح کو دیر اور دور تک روشن کرے گا۔