دیار نبوت کی اَنمٹ یادیں ۔
چاہت محمد قاسمی
آئی پھر یاد مدینہ کی رلانے کیلئے
دل تڑپ اٹھا ہے دربار میں جانے کیلئے
مدینے سے آنے کے بعد دیار نبوت بہت یاد آیا، دل میں محبت کے سمندر ٹھاٹھیں مارتے، دماغ میں وہاں کے سکون کی خواہش کسی نشے کی عادت کی طرح پیدا ہوتی، پاؤں میں وہاں جانے کے لیے بے چینی وبے قراری کا احساس ہوتا، آنکھیں بار بار اس راستے کو تلاش کرتی جس سے ہم مدینے سے یہاں پہنچے تھے، ہر گھڑی، ہر لحظہ، ہر وقت اور ہر ساعت مدینے کی محبت، الفت میں غرق رہتے، وہ ریاض الجنہ میں نوافل پڑھنا اور دعائیں مانگنا، روضے کے پاس بیٹھ کر درود پڑھنا، مخصوص اور پسندیدہ نعت پڑھنے کی کوشش کرنا جیسے قاری طیب صاحب کی نعت “نبی اکرم شفیع اعظم” گنگنانا، صفہ چبوترے پر بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کرنا، مسجد نبوی میں نمازیں ادا کرنا، سب کچھ، ایک ایک بات، ایک ایک گھڑی، ایک ایک واقعہ، ایک ایک چیز یاد کر کرکے آہیں بھرنا، بار بار تسلسل کے ساتھ ایسا ہوتا کہ اندر سے ٹھنڈی سانس کے ساتھ ایک لمبی آہ نکلتی اور مدینے کے سکون کا آپس میں پہروں تذکرہ کرتے رہتے۔ اس کی بیتابی کا اندازہ میرے اُس خواب سے لگایا جاسکتا ہے جس کو میں نے مدینے سے واپسی کے بعد دیکھا تھا، جس میں یہ بندۂ ناچیز گویا مدینہ کی گلیوں میں گھوم رہا تھا دل پژمردہ میں اپنے شاعر نہ ہونے کا ہمیشہ کی طرح بہت ہی زیادہ افسوس تھا، زبان پر نثری انداز میں کچھ اس طرح کے جملے جاری تھے کہ جب ہم مدینے آرہے تھے تو ہمارا خیال تھا کہ ہم نبیﷺ کی محبت میں مدینے جارہے ہیں، ہمارے دل میں عشق کا طوفان ہے، محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے اور الفت کا جنونی انداز ہے لیکن۔۔۔۔ لیکن آج جب مدینے آئے تو احساس ہوا کہ ہم محبت میں آئے نہیں بلکہ ہمیں محبت میں بلایا گیا ہے، عشق میں ہمیں طلب کیا گیا ہے۔
یعنی خواب میں دل کے یہ احساسات تھے کہ جتنی محبت نبیﷺ سے ہمیں ہے اس سے کہیں زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم سے محبت ہے، اور اسی محبت اور عشق کی وجہ سے ہمیں طلب کیا گیا ہے۔ اور یہی حقیقت ہے جس کا وہاں جاکر بہت احساس ہوتا ہے، اور ہو بھی کیوں نہ؟ جب کہ یہی حقیقت ہے کہ جتنی محبت اور جتنا پیار ہم سے ہمارے نبیﷺ نے کیا ہے، ہم اس کا ایک فیصد بھی حق ادا نہیں کرسکے۔
کاش میں شاعر ہوتا تو میں ان الفاظ کو اپنی شاعری میں ڈھال دیتا، اپنے جذبات کو خوبصورت انداز سے بیان کر دیتا، کاش میں صحیح اور بہتر طریقے سے اپنے جذبات اور احساسات کو نثری انداز سے ہی بیان کرنے پر قادر ہوتا تو کچھ لکھنے کی کوشش کرتا لیکن بسا آرزو کہ خاک شدہ۔
شاعر نعت گو کتنا خوش قسمت ہوتا ہے اس کو اپنی بات کہنے کا سلیقہ ہوتا ہے، اس کے پاس اپنے جذبات بیان کرنے کا خوبصورت، دلکش اور دلنشیں طریقہ ہوتا ہے جیسا کہ کسی شاعر نے شاید ایسے ہی موقع پر کہا ہے۔
بسا ہوا ہے نبیؐ کا دیار آنکھوں میں
سجائے بیٹھا ہوں اک جلوہ زار آنکھوں میں
جو دن مدینے میں گزرے ہیں اُن کا کیا کہنا
رچے ہوئے ہیں وہ لیل و نہار آنکھوں میں
دیارِ پاک کا ہر منظر حسین و جمیل
رہے گا تابہ قضا یادگار آنکھوں میں