خطابت وتدریس کا حسین امتزاج حضرت مولانا مفتی شکیل احمد سیتاپوری
(2024- 1948)
محمد ساجدکُھجناوری
مدیر ماہ نامہ صداۓحق گنگوہرسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیرواثبات کے ذیل میں مسافران آخرت کو خوبیوں کے ساتھ یاد کرنے اور ان کی بشری کوتاہیوں سے چشم پوشی کرنے کی نصیحت فرمائی ہے، صحاحِ ستہ کے مؤلفین میں امام ترمذی اور امام ابوداؤد سجستانی رحمھما اللہ جیسے بلندپایہ محدثین نے بھی مذکورہ نبوی فرمان کو اپنی کتابوں میں ذکرکیا ہے ، ظاہرہے اسلام کے حلقہ بگوشوں کو ان کے ہادئ برحق کی فراہم کردہ یہ ایسی گائیڈلائن ہے جس کی پاس داری ان کے چمن آخرت کو ہر قسم کی تپش سے محفوظ ر کھ سکتی ہے ،خیریہ وظیفہ تو شارع علیہ السلام نے اپنی امت کو بتایا ہے ، عقل وخرد بھی یہی کہتی ہے کہ انسان کو ہمیشہ تعمیری اور مثبت رویوں پر کان دھرنا چاہئیے، کہ سماج اور معاشرت کی فلاح وترقی اسی سے ہم رشتہ محسوس ہوتی ہے بہرحال یہ مختصرتمہیدی وضاحت تو جملہ معترضہ کے بطور نوک قلم پر آگئی ، ورنہ جس شخصیت کے فکروفن پر طبع آزمائی پیش نظر ہے وہ تو ایک جامع کمالات ہستی تھی، جہاں حسنات کی خوشبو ہی خوشبو تھی ، یہاں ان سطور کو لکھنے کا مقصد دراصل اُس عالم باعمل ، خطیب بے مثال اور مدرس باکمال کو چاہتوں کا خراج پیش کرنے کی ادنی سی قلمی کوشش ہے جس نے کئی دہائیوں تک علم وکتاب کے موتی لنڈھاے ، متعدد نسلوں کو میراث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا وارث ومحافظ بنایا ،، انھیں صراط مستقیم کی مقبول شرح اور نجات دہندہ تفسیر سے آشنا کیا اور ایسے فکر وعقیدہ پر جمنے کی دعوت دی جو موافق ومخالف ماحول میں انھیں بہرصورت اسلام کےسچے شیدائی اور محمدعربی کے وفادار سپاہی بن کرزندگی گزارنےکاحقیقی حوصلہ فراہم کرتا ہے ، علم کی میراث بانٹنے والے اورپورے بھارت میں صداے حق بلند کرنے والے یہ بزرگ حضرت مولانامفتی شکیل احمدسیتاپوری تھے جوافسوس کہ 17/محرم الحرام 1446ھ/ مطابق 24جولائی 2024 کوہمیشہ کیلے خاموش ہوگے اور اس طرح دین وملت کیلئے زندگی بھر بے قرار رہنے والے اس درویش خدامست کو بھی قرارآہی گیا ع
جان ہی دے دی جگر نے آج پائے یارپر
عمربھرکی بے قراری کو قرار آہی گیا
مفتی شکیل احمدسیتاپوری ملک گیر سطح پر شہرت رکھنے والے ممتازاھل علم وخطابت شخصیات میں شمار ہوتے تھے ، ان کی ساری زندگی بنیادی طورپر خطابت وتدریس کی شکل میں دین قیم کیلے وقف تھی ، عوامی جلسے ہوں ، علمی تقریبات یاپھر ادبی نشستیں انھیں ہرطرح کی محافل میں سیر حاصل گفتگو کرنے بلکہ اھل مجلس پر چھاجانے کا ملکہ حاصل تھا ، مولاناسیتاپوری کے متعددبیانات ویڈیوزکی شکل میں دستیاب ہیں جنھیں سننےاور دیکھنے سے ان کے مطالعہ کی وسعت ، موضوعات کاتنوع اور لب ولہجہ کے بانکپن کا عرفان ہوتا ہے ، وہ پرشوکت زبان استعمال کرتے ہیں اور جوش خطابت کے ساتھ حسی اشارات سے مجمع کو اپنابناکررکھنے کا کامیاب جتن کرلیتے ہیں ، تعلیم کے موضوع پر بھی مفتی صاحب کا ایک بیان آنکھیں کھولنے والا ہے جس میں وہ گزشتہ پانچ صدی سے پیش تر کے دور حکمرانی کو عہدمیمون سے تعبیر کرتے ہوئے دنیا بھر میں ان کی علمی وفنی ترقیات اور ان کی عزت وسربلندی کی بھرپور مگرمدلل وکالت کرتے نظرآرہے ہیں اور بتارہے ہیں کہ خود یورپ کو تمدن وتہذیب سے مالامال کرنے والے یہی مسلمان تھے جن کے آباواجداد سے اھل یورپ نے تمام شعبہ ہاے زندگی میں آگے بڑھنے کا ہنر سیکھا مگر آج کا مسلمان بالکل پسماندہ اور دین ودانش سے بے گانہ نظر آتا ہے، ان کی وفات حسرت آیات کے بعد آج کل ایک ویڈیو بہت گردش میں ہے جسے مفتی صاحب کی طلاقت لسانی اور جادوبیانی کا شاہ کاربھی کہاجاسکتا ہے ، جس میں آپ علامہ اقبال مرحوم کے وہ اشعار خاص کیفیت کے ساتھ باربار پڑھ رہےہیں جودراصل عربی شاعر ابوالعلاءمعری (پیدائش 970 وفات1057 ) کے احتجاج پرمشتمل جزئی واقعہ کاایک پس منظر ہے جسے حضرت اقبال نے مستعارلے کر ملت بیضاء سےجائزشکوہ سنجی کی ہے اور اس کے افراد کو ہمت صحت اور طاقت سے کام لینے کی ترغیب دی ہے جس کاآخری شعر یہ ہے ۔ع
” تقدیرکے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
ان اشعارمیں وہ بے حس وحرکت پڑی ملت اسلامیہ کو جگانے ، طاقت سے لیس ہونے اور اسے یاس وقنوطیت کی دلدل سے باہر نکلنے کی دعوت دے رہے ہیں ، ظاہرہے جب آئیڈیالوجی ابوالعلا معری جیسے حقیقت شناس فلسفی ادیب اور مفکرشاعر کی ہو ۔ زبان وتعبیر دانائے راز حضرت اقبال کی ہو اور اس نغمہ کو سازدینے والے ہمارے ممدوح مفتی شکیل احمدقاسمی تمبوری ہوں تو لطافت وبلاغت کا ایک آبشار بہتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ع
فصاحت جھومتی ہے ان کے اندازتکلم پر
لبِ اعجازپہ ان کی بلاغت نازکرتی ہے
مفتی شکیل احمدصاحب ضلع سیتاپور یوپی کے قصبہ تمبور سے وطنی انتساب رکھتے تھے جہاں وہ سرکاری دستاویزات کے مطابق 20/ مارچ 1948 میں پیدا ہوئے ، ابتدائی اور پرائمری درجات کی تعلیم مقامی اداروں میں رہ کر حاصل کی ، پھر اپنے قریبی ضلع بہرائچ کے مشہور مدرسہ نورالعلوم استفادہ کیلے پہنچ گئے وہاں سے مظاہرعلوم سہارن پوربرائے تعلیم رخت سفر باندھا اور یہاں پندرہ سترہ مہینے بہ حیثیت طالب علم مقیم رہ کر ماہرین علوم وفنون سے تلمذکا شرف حاصل کیا جن میں ہمارے مخدوم حضرت مولانامحمدسعیدی حفظہ اللہ کے والدگرامی شیخ الادب حضرت مولانا اطہرحسین اجراڑوی جیسے آفتاب وماہتاب آسمان علم پر روشن تھے، مظاہر کے درودیوار اور علمی شخصیات کے قرب نے ان کے استفادہ کے جذبات مزیدروشن کئے تو علم کی نگری دیوبند جا پہنچے یہاں کا ماحول انھیں ایسا بھایا کہ 1964سےلے کر سن فراغت 1969 تک جم کر تعلیمی زیور سمیٹا اور بامراد ٹھہرے 1970 میں یہیں سے افتاء کی تکمیل فرمائی ، دارالعلوم اس وقت بھی مشاہیر اہل علم کا مرکز تھا ،منقولات ومعقولات کے دیوانے اور فرزانے مادرعلمی کے درودیوار کو خوشبوئے علم سے مہکائے ہوۓ تھے ، مفتی شکیل احمد جیسا ذہین فطین اور اخاذطبیعت رکھنے والا عاشق علم بھلا کیسے اس بحرعلم سے لعل ویواقیت سمیٹنے سے محروم رہتا چنانچہ انھوں نے بقدر ظرف واستطاعت اپنے ظاہر وباطن کو دولت علم و روحانیت سے اس طرح سنوارا نکھارا کہ اپنے شفیق اساتذہ اور ذمے داران کی نگا ہوں کا تارا بن گے ،نیک نہادی اور ذوق علمی کی وجہ سے بہت جلدحکیم الاسلام حضرت مولاناقاری محمد طیب صاحب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کااعتماد بھی حاصل کرلیا اسی لئے حضرت قاری صاحب چاہتے تھے کہ آپ کا تدریسی سفر دارالعلوم سے شروع ہو مگر ایسی رکاوٹیں سدراہ ہوگئیں کہ انٹرویو میں شرکت کے باوجود آپ کا فوری تقرر التوا کا شکار ہوگیا اور آپ مدرس دارالعلوم ہوتے ہوتے رہ گئے ۔قدرت کو یہی منظور تھا کہ آپ کا فیضان علم دوسرے تعلیمی اداروں کا بھی مرہون ہو چنانچہ ملک کے نصف درجن سے
زائد مدارس وجامعات مفتی صاحب کی تدریس کے پڑاؤ ثابت ہوئے جن میں دارالعلوم اسلامیہ بستی ، دارالعلوم حیدرآباد، دارالعلوم زکریا دیوبند ، مدرسہ رحیمیہ مہندیان دھلی اور دارالعلوم زکریا ٹرانسپورٹ نگر مرادآباد وغیرہ لائق تذکرہ ہیں ،آپ کی تدریسی زندگی اور فروغ علم کا عہدپرشباب دارالعلوم دیوبند کا وہ دس سالہ تدریسی سفر ہے جو 1972 سے لے کر 1982 تک پھیلا ہوا ہے ، دارالعلوم دیوبند کے اسٹیج سے انجام پذیر اس علمی خدمت نے مفتی صاحب کے نام وکام کو روشن جہات عطا کی اور وہ مقبول مدرس نیزسحرطراز خطیب کی حیثیت سے علمی اور دعوتی حلقوں میں محبوب ومحترم بن گے ۔ مفتی صاحب زبان ، قلم ، تدریس ، خطابت اور وعظ وارشاد جیسے کمالات کے حامل ایک وجیہ وشکیل آدمی تھے وہ متناسب الاعضا اور میانہ ڈیل ڈول رکھنے والے خوب روانسان تھے، انھوں نے کئی موضوعات پر اپنے قلم کو سلامی دی ، تقریری خطبات کے علاوہ سلم العلوم اور تفسیر بیضاوی پر بھی شرح وافادات ان کے علم ومطالعہ کی پختگی پر شاہدعدل ہیں ، کسی عربی شاعر نے آپ جیسے مجموعۂ حسنات افراد کو برت کر ہی کہا ہوگا ۔
ولیس علی اللہ بمستنکر
ان یجمع العالم فی واحد
حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ، ان کی وفات سے تعلیمی اور ملی حلقوں کا بڑا نقصان ہوا ہے ، آج ان کے تلامذہ آپ کے مشن کو ملک اور باہر صبروہمت سے آگے بڑھارہے ہیں ، جبکہ آپ کا قلمی سرمایہ اھل دانش کیلےسرمۂ بصیرت بنا ہوا ہے مگر مفتی شکیل احمد صاحب اپنی خدمات کا صلہ پانے کیلئے بارگاہ خداوندی میں حاضر ہیں ، تغمدہ اللہ بغفرا نہ وامطرعلیہ شآبیب رحمتہ ۔
( ماہ نامہ اسلامی نقوش سیتاپور کے خاص نمبر کیلۓ لکھی گئی تحریر )
واہ واہ مفتی ساجد صاحب آپ بہت اچھا لکھتے ہیں لکھتے رہیں ہمیں نوازتے رہیں ہمیں آپ کی ہر تحریر پہلے سے جدا ایک نیا رنگ وآہنگ لئے ہوئے نظر آتی ہے
Lجزاکم اللہ خیرا