حضرت جی مولانا قاری شاہ عبدالستار بوڑیوی دامت برکاتھم
انہیں کی شان کو زیبا نبوت کی وراثت ہے۔
ازقلم: چاہت محمد قریشی قاسمی گنگوہ
ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّيينَ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ یَتْلُوْاعَلَیْہِمْ اٰیٰتِہ ویُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ․ (سورہ جمعہ، آیت:۲)
ترجمہ: ”وہی ہے جس نے امی لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول کو بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتوں کی تلاوت کریں اور ان کو پاکیزہ بنائیں اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیں۔
قرآن کریم کی اس آیت کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے کہ تزکیۀ قلب اور اصلاحِ نفس کازریں سلسلہ اسلام کی آمدکے ساتھ ہی شروع ہوگیاتھا ، مصلحِ عالم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طریقہ سے صحابہ کرام کے قلوب کا تزکیہ اور نفس کی اصلاح فرمائی تھی اسی نہج اور طریقہ کی نقل صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین نے کی ہے اور بعد ازاں آج تک بزرگان دین کرتے آئے ہیں لہذا جس طرح جسمانی اور بدنی امراض کے لئےاطبا اور ڈاکٹروں کی ضرورت پیش آتی ہے اسی طرح قلبی اور روحانی امراض کے لئے صالح، مصلح ماہر و موقع شناس شیخ کامل اور پیرومرشد کا ہونا انتہائی ضروری ہے لہذا اس انحطاط اور تنزلی کے دور میں بھی حضرت عارف باللہ بقیۃ السلف الشاہ مولانا قاری عبدالستار صاحب بوڑیوی دامت برکاتہم تقویٰ وللہیت اور تزکیۂ نفس کے حوالہ سے بے مثال خدمات انجام دے رہے ہیں،
حضرت شیخ کی مجلس میں حاضر ہوکر دل و دماغ پر سکون طاری ہوجاتا ہے اور بے ساختہ انسان بزبان حال یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ آج بھی الحمدلله تعالی ایسے کامل لوگ دنیا میں موجود ہیں جن کو دیکھ کر خدا یاد آتا ہے، ایسی شخصیات کا وجود دنیا میں باقی ہے جن کی صحبت میں ایک ساعت بیٹھنا ہزار سال بے ریا طاعت سے افضل ہے، ایسے حضرات دنیا میں باحیات ہیں جن کی نگاہوں سے دل بدل جاتے ہیں، ایسے اللہ والے دنیا میں باقی ہیں جن کی توجہ سے گناہ گاروں کو نیکی کرنے کا جذبہ اور نیکوکاروں کو استقامت اور خلوص کا جام نصیب ہوتا ہے
یہی ہیں جن کے سونے کو فضیلت ہے عبادت پر
انہیں کے اتقاء پر ناز کرتی ہے مسلمانی
انہیں کی شان کو زیبا نبوت کی وراثت ہے
انہیں کا کام ہے دینی مراسم کی نگہبانی
رہیں دنیا میں اور دنیا سے بالکل بے تعلق ہوں
پھریں دریا میں اور ہرگز نہ کپڑوں کو لگے پانی
جو بیٹھے ہوں اپنی خلوت میں تو جلوت کا مزہ آئے
جو آئیں اپنی جلوت میں تو ساکت ہو سخن دانی
پیر طریقت الشاہ مولانا عبدالستار صاحب بوڑیوی دامت برکاتہم کو
حضرت مسیح الامت مولانا مسیح اللہ جلال آبادی رحمۃ اللہ تعالی علیہ، حضرت مولانا حکیم سید مکرم حسین سنسارپوری صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ اور حضرت مولاناسیدمحمودحسن پٹھیڑوی قدس سرہ کے علاوہ اور بھی کئی حضرات مشائخ سے تصوف و سلوک میں خلافت و اجازت حاصل ہے اور شاید انہیں بزرگان دین کی صحبت کا اثر ہے کہ حضرت کے اندر وہ تمام صفات پائی جاتی ہیں جو ایک قابل و ماہر شیخ اور پیر و مرشد میں ہونی چاہئے لہذا حضرت بوڑیوی دامت برکاتہم کی سحر لسانی کا یہ عالم ہے کہ پندو نصائح زبان سے پھول بن کر نکلتے ہیں اور سامعین کو مسحور کرلیتے ہیں، ہمدردی اور اپنایت کا جذبہ ایسا نظر آتا ہے کہ انسان اپنا درد بیان کرکے اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرلیتا ہے، حسن اخلاق کا عالم یہ ہے کہ پیرانہ سالی اور طبیعت کی ناسازی کے باوجود محبین، معتقدین اور مریدین کی پوری بات خندہ پیشانی سے سماعت فرماتے ہیں اور اطمینان سے جواب مرحمت فرما کر پورے اطمینان سے رخصت فرماتے ہیں، شیخ اور مصلح ایسے ہیں کہ حضرت کی فکر دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے آقائے کل ہادی عالم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے فکر کی عملی تفسیر ہوں۔
حضرت کے معتقدین، پیروکاروں اور مریدین میں صرف عوام ہی شامل نہیں ہیں بلکہ خواص کی کثیر تعداد بھی موجود ہے جن میں حضرات محدثین، مفسرین، مدرسین، علما اور قرا حضرات بھی شامل ہیں، ام المدارس دارالعلوم دیوبند، وقف دارالعلوم دیوبند، مظاہر علوم سہارنپور کے بڑے بڑے اساتذہ اور مدسین معرفت الی اللہ، تزکیہ قلب اور اصلاح نفس کے لئے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر عشقِ حقیقی کا جام نوش فرما رہے ہیں۔ آج کے زمانے کے نامور مصنفین، بہترین قلم کار، منجھے ہوئے مؤلفین، ماہر فقہا ءکرام اور بڑے بڑے محدثین آپ کے جاری و ساری فیض سے سیراب ہورہے ہیں۔
نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
ہمارے حضرت بوڑیوی دامت برکاتہم کا اصلاحی انداز بہت خوبصورت دلنشیں، نرم اور محبت آمیز ہوتا ہے، نہ کہیں غصہ ، نہ کہیں پھٹکار، نہ دھتکار، نہ جھٹکنا، نہ ڈانٹنا، نہ برا بھلا کہنا اور نہ ہی سست و کاہل جیسے القاب سے نوازتے ہیں، شفقت اور محبت بھرے انداز میں سمجھاتے ہیں، میرے بچے اور مولوی صاحب کہہ کر مخاطب کرتے ہیں ہر آنے والے شخص سے آنے کا مقصد معلوم کرتے ہیں، ضعف، پیرانہ سالی اور بیماری کے باوجود حاضرین کی بات پوری توجہ سے سن کر اس کا حل بتاتے ہیں اور اس کو پند و نصائح سے نوازتے ہیں، بعد ازاں جو مانے اچھی بات ہے اور جو نہیں مانتا اس کو بہت پیار سے سمجھانے کے بعد فرماتے ہیں بھائی ہمارا کام بتانے کا تھا ہم نے بتادیا آگے تمہاری مرضی، ایک ایسی ہی مجلس میں بندہ بھی موجود تھا چند نوجوان حاضر مجلس ہوئے حضرت نے حسب عادت ایک سے پوچھا کیوں آئے ہو کیا کرتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا ٹیلر ہوں کوٹ پینٹ سیتا ہوں، حضرت نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ بچا ہوا کپڑا مالک کو لوٹا دیا کریں بغیر اجازت اس کو اپنے پاس نہ رکھا کریں! اس نے کہا کہ حضرت میں نے پرچی پر لکھوا دیا ہے کہ بچا ہوا کپڑا مانگ کر واپس لے لیں، تو جس کو ضرورت ہوگی لے لے گا۔ حضرت نے اس کو مزید قائل کرنے کی کوشش کی، جلال آباد کے ایک درزی کا واقعہ بھی سنایا کہ ہمارے زمانۂ طالب علمی میں جلال آباد میں ایک درزی ہوا کرتا تھا جو کپڑے کی کترن بھی کرتے کی جیبوں میں بھردیا کرتا تھا، لیکن وہ سامع درزی صاحب اسی طرح کے حیلے اور بہانے بتانے لگے، اخیر میں حضرت نے بڑی نرمی سے فرمایا بھائی مسئلہ تو یہی ہے جس طرح میں نے بتایا ہے اب تم ہی نہ مانو تو کیا کریں، تمہاری مرضی۔
حضرت جی مولانا قاری شاہ عبدالستار بوڑیوی دامت برکاتھم
اہلیہ مرحومہ کے انتقال کے بعد جب بندہ غم سے نڈھال، پریشان حال زندگی کے مشکل ترین حالات سے گذر رہا تھا توحضرت کی ہی محبت اور شفقت تھی جس کی وجہ سے میں اپنے آپ کو سنبھال پایا اور اپنی ذمہ داریاں جہاں تک بھی ممکن تھی نبھا پایا، حضرت بہت محبت، پیار سے بوقت ملاقات پیش آتے اور ملاقات کا انداز اتنا پیارا ہوتا کہ سب کچھ غم غلط ہوجاتا لہذا جیسے ہی جاکر سلام کرتے تو مصافحہ کے بعد سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کنپٹی پر ہاتھوں کو روک لیتے اور محبت بھرے انداز سے میری خیر و عافیت معلوم کرتے، بچوں کی خیریت دریافت فرماتے، گھر کے نظام اور پورے حالات معلوم فرما کر صبر و شکر کی تلقین فرماتے، بڑی محبت اور پیار سے تنہائی میں بیٹھا کر سمجھاتے اور واپسی میں جب میں کچھ ہدیہ دینے کی کوشش کرتا تو فرماتے نہیں ابھی آپ کو پیسوں کی مجھ سے زیادہ ضرورت ہے، میں ہی تمہیں ہدیہ دوں گا اور ہدیہ عنایت فرماکر بہت محبت سے رخصت فرماتے یہ محبت، شفقت اور عنایت کیسی ہوتی تھی میں اس کو لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا، حضرت کی شفقت و محبت کا یہ ایک بہت گہرا احساس ہے جو پوری زندگی میرے ساتھ باقی رہے گا اور میرے لئے بہت قیمتی سرمایا ہے۔
نکاح ثانی کے بعد بچوں اور ان کی دوسری ماں کے درمیان محبت اور پیار باقی رہے اس کے لئے بھی میں نے حضرت کی ہی جانب رجوع کیا اور اپنی اہلیہ کو حدود شرع کی پاسداری کے ساتھ حضرت کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا، حضرت نے پردے کے پیچھے سے اہلیہ کو بہت محبت اور پیار سے میری بچی کہکر مخاطب کیا، نماز، تسبیح وغیرہ کی تلقین فرمائی، پانچ سو روپئے اہلیہ کو اور سو روپئے بچی کو عنایت فرمائے اور چوں کہ یہ ان پڑھ ہیں اس لئے ان کی بسم اللہ بھی شروع کرائی، اور مجھے ان کی تعلیم کی جانب توجہ دینے کی تاکید فرمائی۔
میری طرح اہلیہ بھی بہت خوبصورت احساسات لیکر واپس ہوئی اور بار بار کہتی رہی کہ ابا جی کتنے پیار سے سمجھا رہے تھے۔ ویسے بھی حضرت کی زبان میں لطافت شائستگی، شستگی، محبت، پیار اور اثر ہوتا ہے اس لئے زبان سے نکلی ہوئی ایک ایک بات سیدھے جاکر دل پر اثر انداز ہوتی ہے
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پرنہیں طاقت پروازمگررکھتی ہے
ابھی کچھ روز قبل کی بات ہے ہمارے ایک شاگرد جو بر سر روز گار ہیں بیمار ہوگئے، بیماری بھی کیا تھی بس ذہنی مرض تھا، دل و دماغ پر موت کا خوف سوار ہوگیا تھا، خوب ڈاکٹروں اور اطبا کو دکھایا بہت علاج کرائے لیکن کچھ بھی آرام نہیں ہورہا تھا نہ کچھ کھا پی رہے تھے اور نہ ہی کسی طرح بھی سکون میسر تھا، سوکھ کر لکڑی جیسے ہوتے چلے جا رہے تھے، بندہ ان حافظ صاحب کو لیکر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور کیفیت بیان کی حضرت نے چند باتیں بیان فرمائی اور قرآن کی آیت بڑھ کر اس کو نصیحت فرمائی کہ موت اٹل حقیقت ہے جو وقت پر آئے گی، چند باتیں ہی تو تھیں جو حضرت نے فرمائی تھیں جو ایسی زود اثر ثابت ہوئی کہ مریض فورا بالکل اچھا ہوگیا اور اچھا بھی ایسا فورا ہوا کہ خانقاہ ہی میں کئی وقت کے بھوکے مریض نے خوب سیر ہوکر کر کھانا کھایا اور کہنے لگا الحمدلله تعالی میں تو بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں اور اگلے ہی روز ماشاء اللہ تعالی صحت مند ہوکر اپنے کام پر کھڑا ہوگیا، یہ حضرت کی زبان کا ہی تو اثر تھا ورنہ نصیحت اور افہام و تفہیم تو بہت لوگ کرچکے تھے۔
مطلق آں آواز از شہ بود
گرچہ از حلقوم عبداللہ بود
ان کی آواز حق کی آواز ہوتی ہے
اگرچہ حلق اللہ والوں کا ہوتا ہے۔
حضرت عام طور سے محبین، معتقدین، مریدین کو نماز، صفائی معاملات، حسن اخلاق، نرمی اور غصہ نہ کرنے کی کثرت سے تاکید فرماتے رہتے ہیں، بندے کو بھی حضرت نے غصہ سے بچنے کے لئے بہت تاکید فرمائی ہے، حضرت نے ایک مرتبہ فرمایا اگر سامنے والے کو بھی غصہ آگیا تو کیا ہوگا؟
حضرت کی نصائح کا اثر یہ ہوا کہ غصہ گویا کافور ہوگیا، اب بحمد اللہ تعالی حضرت کی نصیحت سے غصہ برداشت کرنے کا مادہ پیدا ہوگیا ہے اور کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے۔
ان کو آتا ہے پیارپرغصہ
مجھ کو غصہ پہ پیارآتا ہے ۔
حسن اخلاق کے متعلق خوب نصیحتیں فرماتے ہیں ایک مرتبہ اپنے حضرت مسیح الامت رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جب ہم سے کوئی موسم سرما میں ہاتھ ملاتا ہے تو کوشش کے باوجود بھی کم از کم اوہ آہ تو کر ہی لیتے ہیں لیکن حضرت مسیح الامت رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی زبان سے ایسے کلمات بھی جاری نہیں ہوتے تھے کہ کہیں سامنے والے کو تکلیف نہ پہنچ جائے۔
قرآن سے حضرت کو بے انتہا محبت و الفت ہے ممکن نہیں کہ کوئی مجلس قرآن کریم کے بغیر تذکرہ کے گزر جائے، حضرت نے سند تجوید شیخ القرا قاری محمد فتح صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے حاصل کی ہے، قاری فتح محمدصاحب پانی پتی اپنے خاص لب ولہجہ اور اشتغال بالقرآن کے حوالہ سے بہت نام ور قاری اور اھل دل بزرگ گزرے ہیں ان کی سند بھی حضرت کو حاصل ہے چنانچہ آپ قرآن کریم بہت اچھا اور فن قرات سے مزین پڑھتے ہیں، قرآن پڑھتے ہوئے منہ بنانے کے بہت خلاف ہیں لہذا خود پڑھ کر سناتے ہیں اور بار بار اپنے منہ پر ہاتھ لگا کر دکھاتے رہتے ہیں کہ دیکھو کہیں سے منہ تو نہیں بگڑا ہے، جب بندہ سب سے پہلے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو سورہ فاتحہ سن کر سو روپئے انعام کے طور پر بھی حضرت نے عطا فرمائے تھے۔
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن
گفتار میں، کردار میں، ﷲ کی برہان!
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن!