استعمال شدہ چیزوں کا کیا کریں
چاہت محمد قاسمی
استعمال شدہ کپڑے، جوتے، چپل وغیرہ جنہیں ہم گراں قدر قیمت دے کر خریدتے ہیں اور کبھی ضرورت میں، کبھی شوقیہ استعمال کرتے رہتے ہیں، کثرتِ استعمال کی وجہ سے وہ چیزیں قابلِ استعمال ہونے کے باوجود کبھی ہمارے دل سے اتر جاتی ہیں اور کبھی ان میں معمولی نقص پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے اسی قسم کی نئی اعلی ترین شے ہماری منظور نظر بن جاتی ہیں۔
استعمال شدہ بوسیدہ پرانے کپڑے، جوتے، چپل وغیرہ کا کیا کیا جائے؟ یہ ایک مستقل سوال ہے اس کے چند مصارف ہوسکتے ہیں جیسے ان کو پھینک دیا جائے، فروخت کردیا جائے، اپنے پاس رہنے دیا جائے یا پھر بہترین اور اعلی مصرف یہ ہے کہ ان کو کسی مستحق کو دے دیا جائے، یہی آخری مصرف ہمارا موضوع ہے،یہی بہترین اور اعلی مصرف ہے اور اسی کی جانب حدیث شریف میں رغبت دلائی گئی ہے۔ ترمذی شریف میں معلم انسانیت نبی اکرم محمد مصطفی ﷺ کا ایک نصیحت آمیز واقعہ کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:
لَبِسَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ثَوْبًا جَدِيدًا، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي مَا أُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِي حَيَاتِي، ثُمَّ عَمَدَ إِلَى الثَّوْبِ الَّذِي أَخْلَقَ فَتَصَدَّقَ بِهِ ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ لَبِسَ ثَوْبًا جَدِيدًا، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي مَا أُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِي حَيَاتِي، ثُمَّ عَمَدَ إِلَى الثَّوْبِ الَّذِي أَخْلَقَ فَتَصَدَّقَ بِهِ، كَانَ فِي كَنَفِ اللَّهِ وَفِي حِفْظِ اللَّهِ وَفِي سَتْرِ اللَّهِ حَيًّا وَمَيِّتًا . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ.
عمر بن خطاب نے نیا کپڑا پہنا پھر یہ دعا پڑھی «الحمد لله الذي كساني ما أواري به عورتي وأتجمل به في حياتي» ”( ترجمہ: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے ایسا کپڑا پہنایا جس سے میں اپنی ستر پوشی کرتا ہوں اور اپنی زندگی میں حسن و جمال پیدا کرتا ہوں) پھر انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا: ”جس نے نیا کپڑا پہنا پھر یہ دعا پڑھی: «الحمد لله الذي كساني ما أواري به عورتي وأتجمل به في حياتي» پھر اس نے اپنا پرانا (اتارا ہوا) کپڑا لیا اور اسے صدقہ میں دے دیا، تو وہ اللہ کی حفاظت و پناہ میں رہے گا زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی“( ترمذی، 3560)
اس حدیث شریف میں پرانے لباس کے دینے کو صدقہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور دینے والے کو یہ خوش خبری بھی سنائی گئی ہے کہ یہ پرانے کپڑے دینے والا زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی اللہ کی حفاظت اور پناہ میں رہے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ پرانی بوسیدہ چیز کسی کو کس طرح اور کس انداز میں دینی چاہئے، اس باب میں راقم آثم کا معمول تو یہ ہے کہ میں ان پرانی اشیا کو مرمت کراکے دیتا ہوں جیسے جوتوں پر پالش یا سلائی وغیرہ کی خامیوں کو دور کراکر، اسی طرح اگر لباس ہو تو اسکو دھوکر استری کرکے، جب ان چیزوں کو بہتر اور اچھی حالت میں ہدیہ کیا جاتا ہے تو لینے والوں کے دل میں بھی پرانی چیز کی اہمیت اور عزت پیدا ہوجاتی ہے اور پھر وہ ان کو خوشی خوشی استعمال بھی کر لیتے ہیں، دوسری بات میں اپنی چیزیں ایسے ہی شخص کو دیتا ہوں جن کا سائز ایسا ہو جو میری اشیا کو استعمال کر سکیں ورنہ انجام کار بے کار ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ صرف مجھ تنہا کا حال نہیں ہے بلکہ میں اپنے خویش و اقارب میں سب کو ایسا ہی کرنے کی رغبت دلاتا رہتا ہوں، جیسے ابھی تقریبا ایک دو مہینے قبل میں اپنے چھوٹے بھائی کے پاس دہلی میں ایک ضروری کام سے گیا ہوا تھا، ایک جگہ برادر خورد کے جوتے کا ذرا سا تلوا اکھڑ گیا، موچی دیکھ کر میں نے جڑوانے کا مشورہ دیا تو جواب میں اس نے کہا کہ میں دوسرے خریدنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور بعد ازاں ان کو پھینک دیا جائے گا، میں نے کہا پھر ان کو جڑوانا اور ان کی مرمت کرانا اور بھی زیادہ ضروری ہے، جس کے بعد انہیں کسی کو دیدینا زیادہ بہتر رہے گا اور اس میں آپ ثواب کے مستحق بھی ہوجائیں گے۔
اس باب میں مزید ایک بات یہ ذکر کی جانی ضروری ہے کہ ہمارے کچھ بزرگوں اور علما کا یہ طریقہ بھی قابل ذکر رہا ہے کہ وہ اپنے پاس موجود کپڑوں کی ایک تعداد متعین کرکے رکھتے تھے کہ ہمیں اپنے پاس 3 جوڑوں یا 5 جوڑوں سے زیادہ نہیں رکھنے ہیں جیسے ہی کوئی نیا لباس تیار ہوکر آتا، وہ اپنے پاس متعین تعداد سے ایک لباس فورا کسی کو دے دیتے تھے تاکہ کپڑوں کی متعین تعداد باقی رہے، یہ عمل ہمارے لئے بہترین اصول زندگی بن سکتا ہے۔
آخری بات: ضروری نہیں کہ یہ پرانی اشیا دینے کے لئے آپ کسی غریب سے غریب تر کو ہی تلاش کریں بلکہ اس کے لئے میں یہ بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ پہلے اپنے گھر میں چھوٹے بڑے بھائیوں میں سے کسی کو دیکھئے، پھر کسی رشتہ دار دوست و احباب، نوکر، شاگرد وغیرہ کو، بعد ازاں کوئی بھی ہوسکتا ہے۔۔۔ اس سے جہاں آپ دوگنے ثواب کے مستحق ٹہریں گے وہیں یہ عمل آپ کے تئیں محبت میں بھی اضافہ کا سبب بن جائے گا۔
دعا کا طالب
چاہت محمد قاسمی