بسبب بزدلی کفار سے صلح جائز نہیں
سورہ محمد کی آیت نمبر 35 کی تفسیر
چاہت محمد قریشی قاسمی
فَلَا تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَّهُ مَعَكُمْ وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ
(اے مسلمانو) تم کمزور پڑ کر صلح کی دعوت نہ دو ۔ تم ہی سربلند رہو گے، اللہ تمہارے ساتھ ہے، اور وہ تمہارے اعمال کو ہرگز برباد نہیں کرے گا۔
مشرکین مکہ نے عرب کے قبائل سے مل کر یہودیوں کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف بڑا گٹھ جوڑ اور اتحاد بنا لیا تھا اور یہ اتحاد در حقیقت خطہ میں بڑی طاقت بن کر ابھر رہا تھا جس کی وجہ سے مدینہ کے منافقین نے لوگوں کے ساتھ سرگوشی شروع کردی تھی کہ مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ اس عظیم اتحاد کے سامنے مسلمانوں کو سرنگوں ہو جانا چاہیے اور مشرکین مکہ اور ان کے اتحادیوں سے صلح کرلینی چاہیے، ورنہ تو مستقبل قریب میں بہت بڑے نقصان کا خدشہ ہے، منافقین کی چکنی چپڑی باتوں اور ان کے دام فریب میں کچھ سیدھے سادے مسلمان بھی پھنسنے لگے تھے، جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سورہ محمد کی آیت نمبر 35 نازل فرمائی اور صاف طور سے اعلان کردیا کہ
فَلَا تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ
(اے مسلمانو) تم کمزور پڑ کر صلح کی دعوت نہ دو ۔
لہذا اس آیت کے ذریعہ اللہ تبارک وتعالی نے ایسی صلح سے روک دیا جس سے مسلمانوں کا ضعف اور کمزوری معلوم ہو رہی ہو، اور مد مقابل پر دشمنوں کا رعب اور دبدبہ ظاہر ہو رہا ہو، لیکن اس بڑے اتحاد کے ذریعہ پنپ رہی دنیوی بڑی طاقت سے مقابلہ کرنے کا حکم اللہ رب العزت نے یوں ہی کرنے کے لیے نہیں فرمادیا تھا بلکہ
مسلمانوں کی تسلی اور تشفی کے لیے یہ بھی نوید ساتھ ہی ساتھ سنادی گئی تھی کہ یہ سب مشرکین مکہ، مختلف قبائل اور یہودی ایک ہی پلیٹ فارم پر آگئے تو کیا ہوا؟ تمہارے ساتھ تو اللہ ہے اور وہی اصل طاقت اور تمام جہانوں کا پروردگار ہے، لہذا گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے اور جس کے ساتھ اللہ رب العزت ہوتا ہے وہ صرف دنیا ہی میں نہیں بلکہ دونوں جہاں میں ہمیشہ ہمیش سر بلند اور کامیاب رہتا ہے، نیز اللہ کسی کی محنت کو اکارت بھی نہیں جانے دیتا ہے سو تمہیں کامیاب رہوگے اور تمہارے اعمال اکارت بھی نہیں جائیں گے نیز تمہیں ہی فتح اور سربلندی کا انعام بھی عطا کیا جایے گا۔
وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَّهُ مَعَكُمْ وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ
تم ہی سربلند رہو گے، اللہ تمہارے ساتھ ہے، اور وہ تمہارے اعمال کو ہرگز برباد نہیں کرے گا۔
چونکہ قرآن کریم میں رہتی دنیا تک ہر انسان کے لیے اجتماعی بھی اور انفرادی بھی رہنما اصول موجود ہیں سو یہی اصول آج بھی ہم سب کے لیے قائم و دائم اور موجود ہیں جس پر ہمارے کچھ مسلم بھائی عمل پیرا ہیں، تو لہذا عنقریب ہم ان کی فتح کی بشارت ضرور سنیں گے، لیکن جہاں دنیا کے اندر عمل کرنے والے موجود ہیں، وہیں اس دنیا میں منافقین یا ان کے دام فریب میں پھنس جانے والے سیدھے سادے مسلمان بھی پائے جاتے ہیں۔
البتہ یہ صلح نہ کرنے کا حکم اس وقت ہے جب کہ اس صلح کا محرک بزدلی اور خوف ہے اور اگر مد مقابل کفار و مشرکین خود صلح کے لیے ہاتھ بڑھائیں اور اس میں مسلمانوں کا مفاد بھی ہو تو صلح کرلینی چاہیے جیسا کہ سورہ انفال آیت نمبر 61 میں ہے
وَاِنۡ جَنَحُوۡا لِلسَّلۡمِ فَاجۡنَحۡ لَهَا وَتَوَكَّلۡ عَلَى اللّٰهِؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ
اور اگر وہ لوگ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی اس کی طرف جھک جاؤ اور اللہ پر بھروسہ رکھو، یقین جانو وہی ہے جو ہر بات سنتا، سب کچھ جانتا ہے۔