✍️ عبدالخالق قاسمی
شام کو صبح مبارک ہو
✍️ عبدالخالق قاسمی
واردِ حال: مکہ مکرمہ
الحمدللہ آج ۸/ دسمبر بروز اتوار صحیح تہجد کے وقت قریب 4:00 بجے صبح ملکِ شام کے دارالحکومت دمشق میں مقاومہ کے جانبازوں نے داخل ہوتے ہی شہر کا بندوبست اپنے ہاتھ میں لےکر بشار ملعون سے آزادی کا اعلان کیا۔
ملکِ شام کے مسلمانوں کو اور پورے عالمِ اسلام کو یہ فتح مبارک ہو۔
اللہ کرے کہ یہ فتح دوسری فتوحات کا دروازہ بنے، یہ پیش قدمی جاری رہے، اور سالوں سے امت کے بہتے خون پر روک لگ سکے۔یہودیوں اور پارسیوں کے مظالم سے امت کی حفاظت فرمائے۔
احبابِ گرامی عرب بہاریہ میں شامی بغاوت کے وقت سے جب سنی مسلمانوں پربشار الاسد حکومت کے مظالم شروع ہوئے اور سنی مسلمان بہت بڑی مقدار میں ہجرت پر مجبور ہوگئے تو اس وقت سب سے بڑے پیمانے پر جس ملک نے شامیوں کے لیے اپنے دروازے کھولے وہ ملک ترکی ہے۔
ترکی صدر رجب طیب اردگان نے نہ دوسروں کے طعنوں کا لحاظ کیا اور نہ ہی اپنوں کے الزامات کو برا جانا؛ بلکہ اپنے بھائیوں کی کھل کر مدد کی۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جس وقت شامی مہاجرین کے لیے ترکی نے دروازے کھولے تو چند دنوں کے اندر ہی دسوں لاکھ شامی مہاجرین ترکی میں داخل ہو گئے جو تعداد بعد میں جاکر بیس لاکھ ہو گئی۔ اس کے اثرات ترکی کی معیشت پر یہ پڑے کہ جی ڈی بی ڈاؤن ہو گئی، کرنسی ناقابلِ یقین حد تک نیچے آگئی۔ اور ترکی عوام میں بےچینی حدوں کو چھونے لگی، کیوں کہ ترکوں کے لیے روزگار کے راستے بہت محدود ہوکر رہ گئے۔
شامیوں نے چند ٹکوں پر ملازمتیں کرنا شروع کردیں، کسی بھی طرح پیٹ بھرے اور رات گزارنے کے لیے جگہ مل جائے، اس وقت شامیوں کے بارے میں مشہور تھا کہ کسی صورت کوئی ہمیں کھانے پر ہی رکھ لے تو شکر گزار ہوں۔
اردگان حکومت نے معاملہ یہیں ختم نہیں کیا ؛ بلکہ شامی نوجوانوں کو عسکری ٹریننگ دینا شروع کیں،اور چند سال میں مکمل ٹرین کردیا، اس کے بعد مکمل حکمتِ عملی کے ساتھ شامی سرحدوں سے ان نوجوانوں کو سیریا میں داخل کیا اور موقع کا انتظار کیا جانے لگا۔
یہ نوجوان مختلف رفاہی ایکٹویٹیز کرتے رہتے، اور اپنی ایک مضبوط مرکزی کمان بناکر “ہیئتِ تحریرِ شام” کے نام سے عسکری امور انجام دیتے رہتے۔
اِدھر بشار الاسد حکومت کا معاملہ یہ تھا کہ روس اور ایران دو بڑی طاقتیں اس کا کھل کر ساتھ دے رہی تھیں؛ بلکہ یہ کہیے دونوں نے اپنی فوجیں باضابطہ ملکِ شام میں اتاری ہوی تھیں۔ پورے ملکِ شام میں اتنے شہر نہیں ہیں جتنی ایرانی ملیشیائیں موجود تھیں، جو براہ راست بشار حکومت کی امداد کررہی تھیں۔
نیز اندرونِ خانہ دبئی امارات، سعودیہ ، مصر واردن وغیرہ بھی پسِ پردہ بشار حکومت کے حامی تھے، بلکہ عسکری مدد بھی کررہے تھے۔
دوسری طرف” ہیئتِ تحریرِ شام” کے نوجوان مجاہدین کا اکلوتا مددگار اور حامی ترکی تھا۔
اللہ کی قدرت کہ روس اور یوکرین وار شروع ہوتی ہے، اور طویل المیعاد کھچ جاتی ہے، جس کے نتیجے میں روس نے اپنی فوجیں سیریا سے نکال لیں، ادھر فلسطین اسرائیل وار شروع ہوتا ہے تو ایران کی امداد سیریا کے لیے مدھم پڑجاتی ہے۔
اس صورتِ حال میں ترکی نے مکمل حکمتِ عملی کے ساتھ دونوں جنگوں سے اپنے دامن کو بچائے رکھا،بلکہ روس یوکرین جنگ میں بڑی حدتک ثالثی کا کردار بھی نبھایا، روس کو اپنے ہتھیار بیچ کر اس پر احسان بھی کیا،یہاں تک کہ درست موقع آگیا، روس کو بات چیت کے ذریعے بشار حکومت کی مدد کے لیے براہِ راست کودنے سے باز رکھا اور ادھر سے ان نوجوانوں کو پیش قدمی کا اشارہ دیا۔
اس طرح الحمدللہ سالہا سال سے جاری اس معرکے کی انتہا مسلم سنی نوجوانوں کے ذریعے سے ملکِ شام کی فتح کے ذریعے ہوگئی۔اور قریب نصف صدی سے جاری اسدی خاندان کے ظلم واستبداد کا خاتمہ الحمدللہ ہوگیا۔
تجزیہ کار صاف کہ رہے ہیں کہ ملکِ شام کی فتح راستہ ہے فلسطین تک جانے کا؛ کیوں کہ سالہا سال سے بشار ملعون اسرائیل کے لیے جاسوسی کررہا تھا، اور لبنان میں حزب اللہ قیادت کے ایک ساتھ خاتمے میں بھی اسی بشار کی جاسوسی کا بڑا کردار تھا۔
اس پوری داستان سنانے کا مقصد یہ ہے کہ اس فتح کا اصل سہرا تو ان نوجوانوں کو جاتا ہے جنہوں نے اپنی جانوں کو جوکھم میں ڈال کر پیش قدمی کی، ظلم سہے، قربانیاں دیں؛ اس کے ساتھ ہی ترکی صدر رجب طیب اردگان بھی مبارکبادی کے مستحق ہیں، جنہوں نے مکمل رازداری کے ساتھ اس فتح کے مجسمے میں رنگ وروغن بھرا۔
حالات ہر دن نہیں بلکہ ہر لمحے چینج ہورہے ہیں؛ آگے ان شاءاللہ اچھی توقعات ہیں، جو کچھ ہوگا ان شاءاللہ امت کے اجتماعی مفاد میں ہوگا۔لعلَ٘ اللہ یحدث بعد ذاکر أمراً۔۔
اللھم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ، وأرنا الباطلَ باطلاً وارزقنا اجتنابہ۔۔