سنو سنو!!سہارنپور ! تو کتنا خوش نصیب ہے(ناصرالدین مظاہری)ایک کہاوت ہے کہ” اللہ جس کو دیتا ہے چھپر پھاڑ کر دیتا ہے ” اس کہاوت کا مصداق ہمارا سہارنپور بھی ہے، واقعی نوازندہ نے کیا نوازا ہے سچ کہوں تو سہارنپور کو اللہ تعالی نے سب کچھ دیا ہے دولت دنیا بھی ، ثروت دین بھی ، علوم نبویہ بھی اور علوم عصریہ بھی۔ یہ پورا خطہ اور علاقہ خدائی عطایا اور الہی فضل سے اس قدر نہال اور مالامال ہے کہ آپ اس کو وان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوھا کا حقیقی مصداق پائیں گے۔ام المدارس دارالعلوم دیوبند یہاں ہے ، مرکزی دینی دانشگاہ مظاہرعلوم بھی یہیں ہے ، ندوۃ العلماء کے بانی حضرت مولانا محمد علی مونگیری نہ صرف مظاہرعلوم کے طالب علم رہے ہیں بلکہ حضرت مونگیری کا آبائی اور جدی گاؤں بھی محی الدین پور ہے ، علامہ شبلی نعمانی حضرت مولانا خلیل احمد محدث سہارنپوری کے خاص تلمیذ ہیں حضرت مولانا سید سلیمان ندوی حضرت تھانوی کے خلیفہ ہیں حضرت مولانا سید احمد خان یعنی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے بانی بھی حضرت مولانا فیض الحسن سہارنپوری کے شاگرد رشید ہیں ، مولانا فیض الحسن سہارنپوری نے غیر منقسم بھارت میں سب سے پہلے عربی اخبار شفاء الصدور جاری فرمایا تھا ، ایک زمانہ تھا کہ سہارنپور کی سرحدیں ایک طرف میرٹھ سے ملتی تھیں دوسری طرف بجنور سے ٹکراتی تھیں ، دہرہ دون اور مسوری تو سہارنپور کے زیر نگیں تھے ہی اس طرح سہارنپور میں دریائے گنگا بھی بہتا تھا اور جمنا کا سیل رواں بھی جاری تھا ، ہری دوار کی پیڑیاں اسی کا حصہ تھیں ، رشی کیش کی خوبصورتی ، شوالک کا سلسلہ ، شاہ کمبھری کی آستھائیں اور ہریانہ ، ہماچل اور اتراکھنڈ کا سنگم بھی اسی کا حصہ ہے اور تو اور گلوکل یونیورسٹی ، اسٹار پیپر مل اور دنیا بھرمیں آئی ٹی سی کے نام سے مشہور سگریٹ فیکٹری بھی یہیں واقع ہے ، یہاں حضرت مولانا عبدالستار مفتاحی مدظلہ کی خانقاہ عالیہ ، پیر جی بوڑیوی مدظلہ کا فیضان ، گنگوہ ، رائے پور ، پانڈولی ، نانکہ ، جلال آباد ، نانوتہ، رام پور منیہاران کی خانقاہیں کسی زمانے میں اتنی بافیض تھیں کہ خلق خدا کا ہجوم پروانہ نثار ہوتا تھا یہ یادگار جگہیں اب بھی ہمیں اپنے بڑوں کی قربانیاں یاد دلاتی ہیں اور اب بھی کسی نہ کسی درجہ میں سالکین اور خوشہ چینان مایوس ومحروم نہیں ہیں بقدر ظرف سالک فیض پارہا ہے۔حضرت مولانا محمد ہاشم قاسمی چھٹملپور اور حضرت مولانا محمد ہاشم ریڑھی ، حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی مدظلہ پھلت ، حضرت مولانا عبد الرشید مظاہری مرزاپور اور حضرت مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی دیوبند ، حضرت مولانا محمد سلمان بجنوری اور حضرت مولانا مفتی محمود حسن بلند شہری ، حضرت مولانا سید محمد ارشد مدنی اور حضرت مولانا سید محمد عاقل مظاہری، حضرت مولانا محمد سعیدی اور حضرت مولانا محمد عثمان کے دریائے فیض کی موجیں جاری ہیں ان موجوں کے تموج اور سیل رواں سے بقدر ظرف استفادہ جاری ہے۔خوردبینوں اور شپرہ چشموں کو کچھ نظر نہ آئے تو اس میں قصور کس کا ہے ، ممکن ہے بعض کو بعض سے فائدہ پہنچے اور بہت ممکن ہے بعض کو نہ پہنچے تو یہ کوئی اشکال واعتراض کی بات نہیں ہے ہر نکڑ پر ڈاکٹر موجود ہیں اور مریض بھی پھر بھی کبھی ڈاکٹر بدل دیا جاتا ہے اور کبھی مریض کو ریفر کردیا جاتا ہے ، آپ کو جس سے مناسبت ہوگی اسی سے فایدہ ہوگا ،نہ تو پہلی خوراک مرض کو ختم کرسکتی ہے نہ ہی ایک آدھ مجلسوں میں شرکت سے آپ کامل بن سکتے ہیں ہاں البتہ مے خانہ کا محروم بھی محروم نہیں ہے۔سہارنپور کی اہمیت دہرہ دون اور ہماچل سے پوچھیں ہریانہ وپنجاب سے پوچھیں ، دنیا بھرکے دینی وعصری طالب علموں سے پوچھیں ، لکڑی اور کپڑے ، کاغذ اور اناج کے لئے دنیا بھر میں شہرت کا حامل ہے۔نذیر حسن انصاری سہارنپور ہی کے وہ قابل قدر شخص اور شخصیت تھے جو 1924 میں یروشلم پہنچے اور وہاں کی سرائے کی مرمت و تزئین کے ساتھ اس کی مکمل دیکھ ریکھ کے فرائض دس بیس سال نہیں پورے ستائس سال تک انجام دئے اور ان کی نسل بھی وہاں دینی اور رفاہی خدمات انجام دیتی رہی۔میں سہارنپور کو بھارت کا ڈھاکہ کہتاہوں اور یہ غلط نہیں ہے یہاں اتنی زیادہ مساجد ہیں کہ اگر آپ عزم کرلیں کہ مجھے تکبیر اولی کے ساتھ نماز پڑھنی ہے تو جہاں آپ موجود ہیں اس کے اریب قریب کوئی نہ کوئی مسجد ضرور مل جائے گی ۔اس کا ایک محلہ ایسا بھی ہے جہاں چند سال پہلے تک اسی مسجدیں تھیں۔کیا اللہ تعالی کی یہ عنایات اس لائق نہیں ہیں کہ ہر ہماری پیشانیاں سجدۂ شکر کے لئے زمین سے ٹک جائیں۔