سنو سنو!!
“حکومت شاہ عالم از دہلی تا پالم”
(ناصرالدین مظاہری)
مغل حکمرانوں میں سب سے عیش پرست بلکہ عیاش حکمراں محمد شاہ رنگیلا تھا اس کی رنگین مزاجی ، عیش کوشی اور عشرت پرستی کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ نادر شاہ کے حملہ آور ہونے کی جب اطلاع ملی تو بدحواسی کے عالم میں سلطان بہادر شاہ ظفر مرحوم کی اہلیہ سے مشورہ کا طالب ہوا۔ بہادر شاہ کی اہلیہ نے تاریخی جواب ہی نہیں دیا بلکہ دنیا بھر کے برسر اقتدار شاہوں، نوابوں ، راجاؤں ، مہاراجاؤں ، عہدہ ومناصب والوں ، رئیسوں ، وزیروں سب کو ایک آئینہ دکھایا ہے، فرماتی ہیں:
“شخصی کہ از ایام طفولیت عمر در صحبتِ زنان بسر کردہ باشد، از او در میدان نبرد چہ دلیری می تواند شد؟ و صریح می دانند کہ جمیع امرایان بنا بر بے خبری و سستی عمل شما ملک پادشاہی را متصرت شدہ، خزانہ و جواہر بے شمار جمع کردہ اند و ہیچ کس تابیع و حکم والا نیست، شما ہمیں چہار دیواری قلعہ ارک را سلطنت خود تصور فرمودہ سیر باغات وصحبت اوباش غنیمت شمردہ، از مملک محروسہ، مطلق بے خبر ہستید۔”
وہ شخص جس نے اپنے عہد خردی سے ہی اپنا سارا وقت عورتوں کی صحبت اور نازنینوں کی قربت میں گزارا ہو، وہ میدان کار زار میں دلیری اور بہادری کے لائق نہیں ہوا کرتا ، وہ خوب جانتے ہیں کہ تمام امراء ، وزراء ، اہل منصب و عہدہ داران اور شاہ زادوں نے تمہاری سستی وکاہلی اور عیش کوشی کے باعث ملک کی جائیدادوں ، جاگیروں اور اثاثوں پر قبضے کرلئے ہیں، ملکی خزانوں اور زیورات و جواہرات پر اپنا کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔کوئی بھی شخص تمہارا محکوم اور تابع فرمان نہیں ہے، تم نے لال قلعہ کی ان چار دیواریوں کو اپنی بادشاہت اور سلطنت کی معراج سمجھا ،تم نے باغات کی سیر وتفریح اور اوباشوں کی مدح و صحبت میں اپنا قیمتی وقت ضائع کیا اور اپنی سلطنت سے قطعی طور پرغافل وبے خبر رہے”۔
ممکن ہے عبارت کا ترجمہ نہ ہوکر اس کی ترجمانی ہوگئی ہو لیکن سچ یہی ہے کہ شاہوں اور گداؤں کے درمیان “عیش پرستی ” ہی پل کا کردار ادا کرتی ہے۔کیا آپ نے نہین سنا کہ شاہ عالم ثانی جو طویل ترین دور حکومت پانے کے باوجود اپنے ملک ، مملکت، املاک،ملکیت اور ملوک وممالک سے بے خبر وبے فکر رہا اسی لئے اس کے عہد حکومت میں خود مختار ریاستیں وجود میں آنے لگیں اور مغل حکمران کی حکومت گھٹنے اور سمٹنے لگی یہاں تک کہ تاریخ کا نہایت ہی مشہور مقولہ زبان زد خاص و عام ہوگیا کہ ” حکومت شاہ عالم از دہلی تا پالم”یعنی شاہ عالم کی حکومت دہلی کے لال قلعہ سے پالم تک ہی ہے۔
مشہور ہے کہ ایک مغل حکمران نے تقریبا چھ مہینہ بعد اپنی خواب گاہ میں داد عیش کے بعد ایک دن چاندنی چوک کی طرف والی کھڑکی کھولی ، پردے ہٹائے اور دہلی کی تعمیرات وتغیرات کو دیکھ کر اظہار تعجب کرتے ہوئے کہا کہ اوہو دہلی میں کتنی ترقی ہوگئی ہے۔
بادشاہ نے جس چیز کو ترقی جانا حقیقت میں وہ ترقی نہیں تنزلی ہے کیونکہ بادشاہ کو اپنے ملک اور املاک نیز عوام وخواص سے واقف رہنا بہت ضروری ہے ، بڑے بڑے شاہوں نے گدائی اسی عیش کوشی کی وجہ سے اختیار کی، بڑی بڑی قومیں اسی عیش پرستی کی وجہ سے تہ تیغ بے دریغ ہوئیں، اقوام و ملل کی تہذیبیں قصۂ پارینہ اسی عشرت کی وجہ سے ہوئیں، آسمان کی طرف دیکھ کر چلنے والے دھڑام سے زمین پر گرتے ہیں اور زمین پر نظر رکھ کر چلنے والے اپنی منزلوں کو پالیتے ہیں۔
یہ دنیا بڑی بے رحم ہے یہ خزانوں کی ہزار من چابیاں رکھنے والے کی نہیں ہوئی، دارا و سکندر کی نہیں رہی، فراعنہ وعمالہ کی نہیں رہی، من اشد مناقوۃ کا اعلان کرنے والوں کو اسی نے پٹخنی دی، انا ربکم الاعلیٰ کا شور مچانے والے کو بے کسی وبے بسی کے ساتھ ڈوبتے تاریخ نے دیکھا، مچھر سے مرتے دنیا نے دیکھا ، دنیا کی طرف لپکنے والے خود غائب ہوگئے ، عیش پرستوں کا نام ونشان نہیں رہا، تاج و تخت دھرے کے دھرے رہ گئے، قیصر و کسری کی سلطنتیں کہاں ہیں، روم اور فارس ، یونان اور نینوی کی حکومتیں کیوں قعر مذلت میں جاگریں ؟ محض اس وجہ سے کہ انھوں نے خدا فراموشی کا گناہ کیا تھا ، ناشکری اور کفران ان کی عادت وطبیعت بن چکی تھی۔” بابر بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ” ان کا نعرہ بن چکا تھا اسی لئے آج ان کا کوئی بھی نام لیوا نہیں ہے۔
عشرت کدوں سے نکلیں ، دامن اسلام سے وابستہ ہوں، کفر کی خوشہ چینی چھوڑیں۔ توحید پرستی کو اپنا شعار بنائیں۔ تبھی یہاں کا جینا حقیقت میں جینا ہوگا ۔ تبھی یہاں کا رہنا رہنا ہوگا ، تبھی ہمارا مرنا مرنا ہوگا ۔ ورنہ تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے کے لئے۔